فرانس، الجیریا تعلقات: 60 برس قبل ہونے والے ایٹمی تجربات جن کی تلخی دو ممالک کے تعلقات میں آج بھی ہے
فرانس نے ریگن کے قریب جوہری تجربے کےمقام پر ڈمیوں کا انتخاب کیا تھا جو دسمبر 1960 کی اس تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے
فرانس کی جانب سے اپنی سابقہ کالونی الجیریا کے صحرا میں کیے جانے والے جوہری تجربے کے طویل المدتی نتائج کے باعث دونوں ممالک میں 60 برس بعد آج بھی تلخی ہے۔ اس بارے میں مزید رپورٹ کر رہے ہیں الجیریا کے دارالحکومت الجزائر سے مہر میظاہی۔
13 فروری سنہ 1960 کی صبح، الجیریا کے صحرا سہارا میں فرانسیسی فوج کے ایٹم بم چلانے کے محض 45 منٹ بعد صدر چارلس ڈی گیولے نے اپنے وزیر دفاع کو پیغام بھیجا تھا۔
اس پیغام میں لکھا تھا ’فرانس زندہ باد، آج یہ ملک مزید مضبوط اور قابل فخر ہے۔ میں اپنے دل کی گہرائیوں سے آپ کا اور جنھوں نے اس شاندار کامیابی کو حاصل کرنے میں کام کیا کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔‘
الجیریا کے صحرا میں بلیو جربویا نامی اس پلوٹونیم بھرے ایٹمی بم اور اس کے بعد دیگر 16 ایٹمی ہتھیاروں کے دھماکوں کو اس وقت فرانس کی عسکری طاقت اور ترقی کے طور پر دیکھا گیا تھا۔ اس دور میں الجیریا فرانس کا نوآبادیاتی خطہ یا کالونی تھا۔
یہ بھی پڑھیے
تاہم اس ایٹمی دھماکے کے مقام پر جہاں 6500 فرانسیسی انجینئرز، فوجی اور محققین کے ساتھ ساتھ 3500 الجیرین مزدور اس منصوبے پر کام کر رہے تھے وہاں ماحول کم پُرجوش تھا اور اس معرکے پر جشن بھی کم تھا۔
بم کا دھماکہ کرنے سے قبل اسے ایک سو میٹر اونچے ٹاور پر رکھا گیا تھا۔ عینی شاہدین نے دھماکے کے نتیجے میں زمین دہلتے اور دھماکے کو دیکھنے کی اجازت ملنے پر دھویں کا ایک بڑا بادل ہوا میں ابھرتا ہوا دیکھا تھا۔
فرانس نے 1960 سے 1961 کے درمیان ریگان کے قریب صحرا میں چار جوہری ہتھیاروں کے تجربات کیے
دھماکے کے مقام میں حرارت کی شدت نے ریت کو کرسٹل بناتے ہوئے اسے کالے پتھروں اور ٹھیکریوں میں تبدیل کر دیا تھا۔
فرانس کا بلیو جربویا ایٹمی بم امریکہ کے سنہ 1945 میں جاپان کے شہر ناگاساکی پر گرائے گئے ایٹمی بم سے تین گنا زیادہ طاقتور تھا۔ امریکی ایٹمی بم نے ناگاساکی میں دھماکے کے مقام سے ایک میل تک سب کچھ تباہ کر دیا تھا۔
جنوب مغربی الجیریا میں اس طرح کے طاقتور ہتھیار کے دھماکے کی اجازت جنرل چارلس آئلیریٹ نے دی تھی، جو آپریشن کے انچارج تھے اور انھوں نے کہا تھا کہ وہاں زندگی کے تمام آثار کی غیر موجودگی ہی اس ’مقام کا انتخاب‘ کرنے کی بڑی وجہ تھی۔
تاہم اس مقام سے چند درجن کلومیٹر دور ریگان کے باشندے اس سے اختلاف کرتے ہیں۔
عبدالرحمان طومی کا کنبہ 1965 میں ایٹمی دھماکوں کے بعد نخلستان چلا گیا تھا۔ لیکن بعد ازاں زندگی میں وہ مقامی آبادی کے مصائب سے اتنا متاثر ہوئے کہ سنہ 2010 میں انھوں نے جوہری تابکاری کے اثرات سے دوچار افراد کے لیے لڑنے کے لیے ایک تنظیم قائم کی۔
57 سالہ عبدالرحمان طومی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’سنہ 1960 میں جب ایٹمی دھماکہ کیا گیا تھا اس وقت وہاں چھ ہزار سے زائد مقامی افراد بستے تھے۔‘
’ہمیں محققین نے بتایا کہ اس ایٹمی تجربات کے طویل المدتی اثرات پہلے دھماکے کے 20 برس بعد شروع ہوئے تھے اور جو دہائیوں تک جاری رہیں گے۔‘
طومی نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’ان میں سے بہت سے جو ان تجربات کے تابکاری اثرات سے متاثر ہوئے پہلے ہی نامعلوم طبی وجوہات کے باعث ہلاک ہو چکے ہیں۔ انھیں بتایا گیا تھا کہ انھیں غیر معمولی مرض لاحق ہے لیکن انھیں ان کے مرض کی مخصوص نوعیت کے بارے میں پتا نہیں تھا۔‘
فرانسی کے ایٹمی بم بلیو جربویا کے دھماکے کے فوراً بعد خطے میں اس ایٹمی تجربے کے اثرات کے بارے میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا کیونکہ اس کے منفی اثرات فوری طور پر سینیگال، آئیوری کوسٹ، برکینا فاسو اور سوڈان میں دیکھے گئے تھے۔
لیپزگ میں بھی ایک مظاہرہ ہوا تھا، جو اس وقت مشرقی جرمنی کا حصہ تھا، وہاں مالیئن طلبا نے اس ایٹمی تجربے کی مذمت کی تھی جو ان کے آبائی شہر سے محض چند سو کلومیٹر دور ہوا تھا۔
فرانسیسی صدر چارلس ڈی گال نے پہلے ایٹمی تجربے کے بعد جنرل چارلس آئلیر کو ایک فوجی اعزاز پیش کیا
فرانس کے ایٹمی تجربے پر پابندی کے جامع معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد سنہ 1998 کی فرانسیسی سینیٹ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ’فرانسیسی ماحولیاتی دھماکے سہارا ڈیزرٹ کے پڑوسی افریقی ممالک کی بڑھتی ہوئی تنقید کا موضوع تھے۔‘
رپورٹ میں ان احتیاطی تدابیر کا حوالہ دیے بغیر کہا گیا تھا کہ ’ان کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ ایٹمی تجربات کی منفی نتائج کو کم کرنے کے لیے تمام احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے باوجود ہم آلودگی پھیلانے والی تکنیک کا استعمال کیوں جاری رکھیں گے۔‘
فرانس نے ریگان خطے میں زمین کے اوپر ابتدائی چار ایٹمی تجربات کرنے کے بعد سنہ 1961 میں الجیریا کے علاقے عین ائکر کے خطے میں زیر زمین تجربات کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ لیکن زیر زمین تجربات نے بھی تابکاری اثرات چھوڑے اور زیر زمین آلودگی پھیلائی۔
مثال کے طور پر بیرل نامی ایٹمی بم کے دھماکے کے دوران تابکاری مادہ فضا میں بکھر گیا تھا کیونکہ دھماکے کی جگہ پر زیر زمین شافٹ کو مناسب طریقے سے سیل نہیں کیا گیا تھا۔
جیسے ہی دھماکے نے پہاڑی سلسلے کو ہلا کر رکھ دیا، تجربے کی نگرانی کرنے والوں نے فوری طور پر حکام کو اس علاقے سے دور ہٹنے کے لیے کہا کیونکہ ایٹمی بم کے تجربے نے پہاڑ میں دراڑیں ڈال دی تھی اور ایٹمی فضلہ ہوا میں پھیل گیا تھا۔
اس ایٹمی تجربے میں نو فوجی جوانوں کے ساتھ ساتھ متعدد حکومتی اہلکار بھی بری طرح متاثر ہوئے تھے جنھیں وہاں ایٹمی دھماکے دیکھنے کے لیے بلایا گیا تھا۔
الجیریا کے علاقے عین ائکر کے قریب درجن سے زائد زیر زمین جوہری تجربات کے بعد، فرانسیسی فوج نے اپنے جوہری تجربات بحر الکاہل میں واقع فرانسیسی پولینیشیا میں منتقل کر دیے تھے۔
لیکن آج بھی الجیریا کے سہارا ڈیزرٹ میں فرانس کی جوہری تجربات کے اثرات فرانس اور الجیریا کے تعلقات میں تلخی کا سبب ہیں۔
مقامی محققین کے اندازے کے مطابق فرانس کے ایٹمی تجربات کے نتیجہ میں جوہری تابکاری کے باعث الجیریا کے صحرائی خطے میں ہزاروں افراد متاثر ہوئے تھے اور آج بھی چند مقامات پر یہ اثرات موجود ہیں۔
اس مسئلہ نے اس وقت زیادہ اہمیت اختیار کر لی ہے جب دونوں ممالک کی طرف سے تعلقات کو بہتر بنانے کے مقصد سے اقدامات تجویز کرنے کے لیے ایک کمیشن قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ دونوں ممالک میں باہمی تعلقات آج بھی 132 سال کی نوآبادیاتی دور کی شکل میں ہیں۔
فرانسیسی صدر ایمانوئل میکخواں کے قائم کردہ کمیشن میں ان تعلقات کی رپورٹ میں تاریخ دان بنیامین سٹورا نے ایٹمی مسئلہ پر بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ فرانس اور الجیریا کو تجربات کرنے والے مقامات کو صاف کرنے میں ایک ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے۔
لیکن انھوں نے اس رپورٹ میں ان الجیرین باشندوں کو معاوضہ دینے کے متعلق زیادہ بات نہیں کی اور ان الجیرین باشندوں جن کا کہنا ہے کہ وہ آج بھی فرانس کی ایٹمی تجربات کے نتائج اور اثرات بھگت رہے ہیں کے متعلق تجاویز میں کافی ابہام ہے۔
سٹورا ایک درزی کی طرح ہیں، انھوں نے وہ ہی سلائی کیا جو فرانس کو چاہیے تھا۔‘ یہ کہنا ہے 49 سالہ سماجی کارکن محمد محمودی کا جن کا خیال ہے کہ وہ 1990 کے آغاز میں ریگان میں اپنی فوجی خدمات انجام دیتے ہوئے جوہری تابکاری کا شکار ہوئے تھے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس وقت کسی نے انھیں علاقے میں موجود رہنے کے خطرات کے بارے آگاہ نہیں کیا تھا۔
گذشتہ برس، فرانس نے 24 الجیرائیوں کی باقیات واپس کر دی تھیں جنھوں نے فرانسیسیوں کے خلاف جنگ لڑی تھی اور جنھیں پیرس کے میوزیم میں رکھا گیا تھا
بی بی سی کو بھیجی جانے والی ایک ای میل میں فرانس کی وزارت خارجہ کا کہنا تھا کہ ’ان علاقوں میں مختلف تجرباتی مقامات کی ریڈیولوجیکل جانچ کی گئی ہے اور الجیریا کے حکام کے ساتھ بھی اس کے متعلق معلومات کا تبادلہ کیا گیا ہے۔‘
سنہ 2010 میں فرانسیسی پارلیمنٹ نے مورین قانون منظور کیا تھا جو نظریاتی طور پر، الجیریا میں جوہری تابکاری کے متاثرین کو معاوضہ فراہم کرنے سے متعلق تھا۔ تاہم اس قانون کے مطابق معاوضے کے دعویداروں کو ان جوہری تجربات کے وقت خطے کا رہائشی ہونا ضروری ہے اور اس قانون میں صرف چند بیماریوں کو ہی تسلیم کیا گیا ہے۔
جس کا نتیجہ یہ ہے کہ محمد محمودی جیسے متاثرین اس قانون کے زمرے میں نہیں آتے۔ پھر بھی ان کا کہنا ہے کہ اس قانون نے آٹھ سو مستحق متاثرہ افراد کو اس کے تحت معاوضہ دلانے میں مدد کی ہے۔
مورین کے قانون کے تحت قائم ہونے والی ایٹمی تجربات کے متاثرین کو معاوضہ دینے والی کمیٹی کا کہنا ہے کہ صرف 545 ایسے کیسز تھے جن میں الجیرین باشندوں کو رقم فراہم کی گئی باقی تمام رقم فرانسیسی پولینشیائی خطے کے افراد کو دی گئی تھی۔
اس کے جواب میں فرانسیسی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ ان کا ملک ’پیش کیے گئے کیسز کا جائزہ لیتا رہے گا۔‘
فرانس کی الجیریا پر حکمرانی کی تاریخی جھلک
سنہ 1830 میں فرانس نے الجیریا پر قبضہ کیا
سنہ 1848 میں ایک باغی رہنما عبدلقادر کے انقلاب کے بعد فرانس نے الجیریا کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دے دیا تھا۔
سنہ 1945 میں سیتف میں آزادی کے حق میں مظاہروں میں ہزاروں افراد مارے گئے تھے۔
سنہ 1954-62 تک الجیریا میں جنگ آزادی لڑی گئی
سنہ 1962 میں الجیریا ایک آزاد اور خود مختار ریاست بن گیا۔
سنہ 1960-66 کے دوران آزادی کے بعد بھی فرانس کو جوہری تجربات کرنے کی اجازت دی گئی
فروری کے اوائل میں الجیریا کے جنرل بوزید بوفریؤا نے فوجی رسالہ الجِیچ میں اپنے فوجی فرانسیسی ہم منصبوں پر شدید حملہ کیا تھا۔
انھوں نے جوہری ہتھیاروں کی ممانعت سے متعلق 2017 کے ایک معاہدے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’فرانس کو اپنی تاریخی ذمہ داریاں نبھانی چاہیے تھیں۔ ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ عالمی برادری نے ایٹمی طاقت کو اپنی ماضی کی غلطیاں ٹھیک کرنے کا کہا ہے۔‘
طومی اور دیگر متاثرین کے لیے وہ روزانہ کی بنیاد پر آواز اٹھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ماضی کی غلطیوں کو ٹھیک کرنے کا آغاز ان ایٹمی تجربات کے مقامات کی صفائی سے شروع ہوتا ہے۔
الجیریا کی حکومت کو ریگان اور عین ائکر میں فرانسیسی ایٹمی تجربات کے مکمل نقشے ابھی تک سونپے نہ جانے کا حوالے دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’زیر زمین جوہری فضلہ موجود ہے اور ہمیں یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ وہ کہاں ہے۔‘
’متاثرین صرف اپنے آبائی علاقوں میں ایٹمی فضلے کے بغیر رہنا چاہتے ہیں اور کچھ بھی نہیں۔‘
Comments are closed.