51 ڈالر کا عطیہ، 12 سال قید کی سزا: امریکی شہریت رکھنے والی روسی رقاصہ جس کا عطیہ ’غداری‘ تصور کیا گیا،تصویر کا ذریعہEPA-EFE/REX/Shutterstock

  • مصنف, پال کربی اور برینڈن ڈرینن
  • عہدہ, بی بی سی نیوز
  • 2 گھنٹے قبل

یوکرین کے حمایتی ایک خیراتی ادارے کو 51 ڈالر عطیہ دینے پر روس کی ایک عدالت نے رقاصہ کسینیا کیریلینا کو غداری کے جرم میں بارہ برس قید کی سزا سنائی ہے۔کیریلینا کے پاس روس اور امریکہ دونوں ممالک کی شہریت ہے۔ انھیں خفیہ یا ان کیمرہ عدالتی کارروائی کے بعد گذشتہ ہفتے قصوروار قرار دیا گیا۔وہ طویل عرصے سے لاس اینجلس میں رہائش پذیر رہیں اور انھیں 2021 میں امریکی شہریت مل گئی۔ انھیں گذشتہ برس جنوری میں اس وقت گرفتار کر لیا گیا جب وہ اپنے خاندان والوں سے ملنے کے لیے امریکہ سے روس میں اپنے آبائی گھر آئی ہوئی تھیں۔

ان کا آبائی علاقہ یکاتیرینبرگ ماسکو سے کوئی 1600 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔استغاثہ نے عدالت سے 15 برس قید کی سزا کی استدعا کی تھی۔ عدالت نے انھیں قصوروار قرار دیتے ہوئے انھیں 12 سال کے لیے جیل بھیج دیا۔کیریلینا پر روس کی ایف ایس بی سکیورٹی سروس نے یوکرین کی ایک خیراتی تنظیم کے لیے فنڈ جمع کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔ روسی سکیورٹی سروس کے مطابق یہ خیراتی ادارہ یوکرین کی فوج کو ہتھیار فراہم کرتا ہے۔کیریلینا کے وکیل میخائل میشائلوف کا کہنا ہے کہ وہ اس سزا کے خلاف اپیل کریں گے۔خیراتی تنظیم ’ریزم فار یوکرین‘ کا رواں برس کے آغاز پر کہنا تھا کہ وہ کریلینا کی گرفتاری کی خبر سن کر خفا ہیں اور اس تنظیم نے اس بات کی بھی تردید کی کہ اس نے فوجی مقاصد کے لیے اس رقم کو استعمال کیا۔ تنظیم کا کہنا ہے اسے امریکہ سے فنڈز ملتے ہیں جسے وہ خیراتی کاموں اور آفات میں استعمال میں لاتی ہے۔کیریلینا پر جون میں اسی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا جس میں وال سٹریٹ جرنل کے رپورٹر ایون گرشکووچ تھے جنھیں جاسوسی کے الزام میں جیل بھیج دیا گیا تھا لیکن اس ماہ کے آغاز میں امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے بعد روس نے انھیں رہا کر دیا۔ ،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنگذشتہ سال روسی صدر ولادیمیر پوتن نے ایک حکمنامے پر دستخط کیے تھے جس میں غداری کے جرم میں زیادہ سے زیادہ قید کی سزا کو 20 سال سے بڑھا کر عمر قید کر دیا گیا
کیریلینا کے بوائے فرینڈ باکسر کرس وان ہیرڈن نے جمعرات کو کہا کہ انھیں امریکی محکمہ خارجہ سے شدید گلہ ہے۔ انھوں نے سی بی ایس نیوز کو بتایا کہ ’مجھے آج صبح سویرے یہ خبر سننے کو ملی۔‘ وان ہیرڈن نے کہا کہ ان کی رائے میں کیریلینا کو کسی قیمت پر روس واپس نہیں جانا چاہیے تھا۔انھوں نے کہا کہ ’اب میرا سوال یہ ہے کہ کیا آج ہم کیریلینا کو ’غلط طور پر حراست میں لیا گیا‘ قرار دے سکتے ہیں، تاکہ جب قیدیوں کا اگلا تبادلہ ہوتا ہے تو پھر ایسے میں ان کا نام بھی اس کا حصہ ہو۔‘واضح رہے کہ اگر امریکہ کسی شخص کو ’غلط طریقے سے حراست میں لیا گیا‘ قرار دیتا ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ وہ اسے سیاسی یرغمال سمجھتا ہے اور ان کی آزادی کو محفوظ بنانے کے لیے مذاکرات بہت ضروری ہیں۔انھوں نے مزید کہا کہ ’حیرت کی بات یہ ہے کہ قیدیوں کے تبادلے میں دو قیدی ایسے بھی تھے جنھیں ’غلط طور پر حراست میں لیا گیا‘ قرار نہیں دیا گیا تھا اور وہ بھی رہا ہو گئے تو پھر ایسے میں کیریلینا کی رہائی ممکن کیوں نہیں ہو سکی۔‘

یہ بھی پڑھیے

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنحال ہی میں روس اور مغربی ممالک کے درمیان قیدیوں کے تبادلے میں 24 افراد کو رہا کیا گیا
گذشتہ سال روسی صدر ولادیمیر پوتن نے ایک حکم نامے پر دستخط کیے تھے جس میں غداری کے جرم میں زیادہ سے زیادہ قید کی سزا کو 20 سال سے بڑھا کر عمر قید تک کر دیا گیا تھا۔انسانی حقوق کے کارکنوں کے مطابق گذشتہ سال ریکارڈ تعداد میں غداری کے مقدمات بنائے گئے۔جولائی میں دوہری شہرت کے حامل نوجوان کیون لک کو غداری کے الزام میں چار سال کی سزا سنائی گئی۔ وہ ان 16 مردوں اور عورتوں میں سے ایک تھے، جنھیں روس نے مغرب کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے تحت رہا کیا۔ کیریلینا کسینیا اپنی گرفتاری سے قبل بیورلی ہلز کے ایک ہوٹل میں کام کر رہی تھیں اور اپنے والدین اور اپنی معمر دادی کو دیکھنے کے لیے یکاتیرینبرگ گئی تھیں۔وان ہیرڈن نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں دھاڑیں مار کر رونا چاہتا ہوں مگر میں جانتا ہوں کہ مجھے مضبوط رہنا ہے اور اس ناانصافی کا مقابلہ کرنا ہے۔‘انھوں نے کہا کہ وہ کریلینا کی قید کے بعد ان کی صحت کے بارے میں فکر مند ہیں۔’وہ بہت نرم دل انسان ہیں اور مجھے ان کی فکر ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’میں جانتا ہوں کہ وہ پھوٹ پھوٹ کر رونا چاہتی ہیں لیکن وہ مضبوط ہونے کا ڈرامہ کر رہی ہیں۔‘انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’لڑائی یہیں ختم نہیں ہوتی، لڑائی اب انھیں امریکی سرزمین پر واپس لانے کی ہے۔ ہماری واحد امید امریکی حکومت ہے۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}