50 لاکھ ڈالر، جعلی سونے کی اینٹوں اور اسلحے سے بھرے جہاز کا معمہ جس کا کوئی دعویدار نہیں
- مصنف, مائیک تھامسن
- عہدہ, بی بی سی نیوز
زیمبیا کے دارالحکومت لوساکا میں ایک نجی طیارے کی موجودگی اس وقت تحقیقات کا مرکز ہے، اس طیارے سے 50 لاکھ ڈالر سے زائد نقدی، جعلی سونا، بندوقیں اور گولہ بارود برآمد ہوا ہے۔
تفتیش کار یہ تو جانتے ہیں کہ طیارے نے مصر کے دارالحکومت قاہرہ سے اڑان بھری تھی اور 15 دن پہلے یہ زیمبیا میں لینڈ کیا تھا، لیکن فی الوقت معلوم حقائق بس یہیں تک محدود ہیں۔ جو بات حیران کُن ہے وہ یہ کہ ابھی تک نہ تو مصر اور نہ ہی زیمبیا میں کوئی بھی اس نجی طیارے میں موجود سامان کی ذمہ داری لے رہا ہے۔
اس نجی طیارے اور اس میں موجود سامان سے متعلق بہت سے جواب طلب سوالات کے ساتھ بہت سی افواہیں گردش کر رہی ہیں۔
جیسا کہ کیا اس واقعے میں ملوث افراد اعلیٰ سطحی مصری یا زیمبیا کی سیاسی یا فوجی شخصیات ہو سکتی ہیں؟ کیا یہ یک طرفہ پرواز تھی یا پھر اس نوعیت کی سینکڑوں پروازوں میں سے ایک پرواز؟
اس سارے معاملے میں اب تک جو معلوم ہوا ہے وہ یہ ہے کہ طیارے میں سوار پانچ مصری اور چھ زیمبیائی شہریوں کو حال ہی میں دارلحکومت لوساکا میں مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا گیا ہے۔
مصر اور زیمبیا دونوں ممالک پر ہی سمگلنگ اور بدعنوانی کے الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں۔ تاہم زیمبیا کو تو جاسوسی کے الزامات کا بھی سامنا ہے۔ عدالت میں پیش ہونے والے زیمبیا سے تعلق رکھنے والے افراد میں سٹیٹ ہاؤس، صدر کی سرکاری رہائش گاہ اور دفتر کے ایک اہلکار بھی شامل تھے۔
دنیا شاید ان سب سے غافل ہی رہتی اگر ایک صحافی اپنی ویب سائٹ ’میٹسداٹیش‘ پر اس معاملے میں مصری حکام پر ملوث ہونے کے الزامات نہ عائد کرتے۔
صحافی کا منظر عام سے غائب ہونا
اس معاملے سے متعلق حقائق سامنے لانے کے فوراً بعد سادہ لباس میں ملبوس مصری سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں نے رات کے پچھلے پہر میں کریم اسد نامی مصری صحافی کو ایک کارروائی کے دوران اُن کے گھر سے گرفتار کر لیا۔
پہلے تو اس معاملے سے متعلق کسی کو پتہ نہیں تھا کہ وہ کہاں غائب ہو گئے۔ اسد کے بارے میں کوئی نہیں بتا سکتا تھا کہ انھیں کہاں اور کیوں لے جایا گیا ہے۔
پھر مصری صحافیوں نے سوشل میڈیا پر ایسی دستاویزات شائع کیں جن میں مبینہ طور پر نقدی اور سونے سے بھرے گُمنام طیارے کے بارے میں زیمبیا کی پولیس سے حاصل کی جانے والی تفصیلات تھیں۔
سامنے آنے والی تفصیلات میں مبینہ طور پر تین مصری فوجی افسران اور ایک سیینئر پولیس افسر کا نام گرفتار کیے جانے والوں میں شامل ہے، جو کریم اسد کے الزامات کی حمایت کرتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر اسد سے متعلق اُن کے ساتھیوں نے آواز اُٹھائی جس کے بعد مظاہروں کا ایک سلسلہ شروع ہوا، جس کے نتیجے میں دو دن بعد ان کی رہائی ممکن ہوئی۔ اسد کو کس معاملے میں اور کیوں گرفتار کیا گیا تھا یہ ایک امر ایک معمہ ہے۔
مصری حکام صرف یہ کہ سکتے ہیں کہ مسٹر اسد کی ویب سائٹ پر جس طیارے کا ذکر ہوا وہ نجی ملکیت کا تھا اور صرف قاہرہ میں آپریٹ کرتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ملک اور اس کے حکام کا اس کیس سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
تمام تر توجہ کا مرکز زیبمیا اُس وقت بنا جب اس نجی طیارے نے لوساکا کے کینتھ کونڈا ہوائی اڈے پر زمین کو چھوا۔
کسی حد تک، ایسا لگتا ہے، کہ زیمبیا سے تعلق رکھنے والے ایک ایسے آدمی کو جس نے مبینہ طور پر سونے سے بھرے تھیلے اُٹھا رکھے تھے، ہوائی اڈے کے حفاظتی حصار سے آسانی سے نکلتے ہوئے اُس جہاز تک پہنچنے اور اُس میں سوار مصریوں سے ملنے کی اجازت دی گئی۔
کوئی یہ نہیں جانتا کہ اُسے اس سب کی اجازت کس نے دی لیکن، زیمبیا کے ذرائع ابلاغ پر آنے والی تفصیلات کے مطابق، معمولی نقدی نے اُس کے لیے یہ سب یعنی جہاز تک پہنچنے کی راہ ہموار کی۔
جہاز پر سوار ہونے کے بعد اس شخص نے مبینہ طور پر اُس سونے کا ایک حصہ بیچ دیا جو وہ جہاز میں موجود افراد تک لے جانے میں کامیاب ہوا تھا۔ تب انھوں نے اس سے مزید سونا حاصل کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔
جو بات واضح نہیں ہے وہ یہ ہے کہ کیا جہاز میں موجود افراد یہ پتہ لگانے میں کامیاب ہو گئے تھے کہ جو کچھ (سونا) وہ شخص بیچ رہا تھا وہ دراصل جعلی تھا یا نہیں، اس سے قبل کہ سیکورٹی اہلکار طیارے کی تلاشی لینے پہنچے۔
ایسا لگتا ہے کہ یہ گرفتاری جتنی آسان لگ رہی تھی اُتنی تھی نہیں۔
طیارے کی تلاشی لینے والے متعدد سیکورٹی افسران پر طیارے میں سوار مصری شہریوں سے فی کس دو لاکھ ڈالر تک وصول کرنے کا الزام لگایا گیا ہے جس کے بعد اب تفتیش کی جا رہی ہے۔ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ یہ اُن کا انعام تھا کہ انھوں نے بنا کسی روک ٹوک کے طیارے کو اڑان بھرنے کی اجازت دینے کا بندوبست کیا۔
مگر جب کسی طرح یہ بات سامنے آئی کہ طیارے میں پیسوں کا لین دین جاری ہے تو سیکیورٹی عملے کے ایک اور گروہ نے طیارے پر چڑھائی کر دی اور اس پر سوار افراد کو گرفتار کر لیا۔
سونے کی اینٹ یا ایک پہیلی
ممکنہ طور پر مشتبہ افراد کو یہ بتانے اور سمجھانے میں دشواری کا سامنا کر رہے ہیں کہ وہ لاکھوں ڈالر نقدی، کئی پستول، گولہ بارود کے 126 راؤنڈز اور 100 کلوگرام سے زیادہ سونے کی اینٹوں کے ساتھ وہاں اُس طیارے میں کیا کر رہے تھے۔
سونے کی اینٹیں خاص طور پر سب سے حیران کن بات تھی۔
اب تک جو باتیں سامنے آئی ہیں اُن میں سے یہ کہ سونے کی ان اینٹوں میں تانبے، نکل، ٹن اور زنک کے مرکب بھی شامل ہیں۔ بات وہی ہے کہ ’ہر چمکنے والی چیز سونا نہیں ہوتی۔‘
ایسا لگتا ہے کہ طیارے میں سوار مصری شاید کسی بڑے دھوکے سے بچ گئے۔
گرفتار ہونے والے 10افراد میں سے ایک کے لیے کام کرنے والے زیمبیا کے وکیل نے کہا کہ ایک اور راز یہ ہے کہ سیکیورٹی فورسز حساب کتاب میں اتنے کمزور کیوں تھے۔
میکبی زولو نے بی بی سی کو بتایا کہ پہلے پولیس کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ انھیں 11 ملین ڈالر ملے، بعد میں اس میں کمی ہوئی اور کہا گیا کہ تقریباً 7 ملین ڈالر ملے اور آخر کار 5.7 ملین ڈالر کی رقم طے کر لی گئی۔
مسٹر زولو ان کی گرفتاری کے بعد سے ملزمان کے ساتھ ہونے والے سلوک سے بھی پریشان ہیں۔
حقوقِ انسانی کے لیے آواز بلند کرنے والے
اُن کے مطابق جب ایک زیمبین شہری اور تین دیگر غیر ملکیوں کو عدالت میں دن بھر انتظار کروانے کے بعد جیل بھیج دیا گیا، اور دوسری جانب چھ مصری شہریوں کو ایک گیسٹ ہاؤس میں رکھا گیا۔ کیا یہ تجویز انھوں نے دی کہ قاہرہ کے وی آئی پیز کے لیے زیمبیا کے حکام کے دل میں نرم گوشہ ہے؟
گزشتہ چند دنوں میں زیمبیا کے کئی اور شہریوں کو ایک عارضی جعلی سونے کے پروسیسنگ پلانٹ سے گرفتار کیا گیا ہے، اور اس کے بعد مزید گرفتاریاں بھی ہوسکتی ہیں۔
جیسے جیسے دنیا بھر میں اس کیس میں دلچسپی بڑھی ہے، اسی طرح قیاس آرائیاں بھی بڑھتی جا رہی ہیں۔
مصر کے ٹیکنوکریٹس نامی تھنک ٹینک، جو دنیا بھر میں مقیم آزاد مصری پیشہ ور افراد پر مشتمل ہے، کا دعویٰ ہے کہ مصر کے اندر 300 سے زیادہ خفیہ کمپنیاں منی لانڈرنگ کی کارروائیوں میں ملوث ہیں۔
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ نو سال قبل صدر عبدالفتاح السیسی کے برسراقتدار آنے کے بعد سے بہت بڑی رقم ملک سے باہر سمگل کی جا سکتی ہے۔ اگر سچ ہے تو کیا یہ پرواز ان سینکڑوں میں سے ایک ہو سکتی ہے جنھوں نے اسی طرح کے دورے کیے ہیں؟
کچھ حلقوں میں یہ نظریہ پیش کیا جا رہا ہے کہ مصر میں اعلیٰ فوجی حکام اور تاجر، صدر سیسی کی حکومت کے گرنے کے خوف سے، اپنی رقم ملک سے باہر نکالنے کی بھر پور کوشش کر رہے ہیں۔
اگرچہ اس پراسرار کیس سے متعلق ہر چیز کی طرح، کوئی بھی اس بات کا یقین نہیں کر سکتا کہ اس سب میں سچائی کتنی ہے۔
امید یہ ہے کہ جب آخر کار ٹرائل ہو گا تو بہت سے سوالات کے جواب مل جائیں گے۔
Comments are closed.