50 برس قبل غائب ہونے والی تین سالہ بچی کے کیس میں اہم پیشرفت: ’میں نے بچی کی چیخیں سنی تھیں‘
،تصویر کا ذریعہGRIMMER FAMILY
شیرل گریمر کی گمشدگی 53 سال سے معمہ بنی ہوئی ہے
- مصنف, جان کے
- عہدہ, فیری میڈو پاڈکاسٹ کے میزبان
ایک نئے عینی شاہد نے بی بی سی سے رابطہ کر کے 53 سال پہلے آسٹریلیا میں غائب ہونے والی تین سال کی بچی کے اغوا کے بارے میں نئی تفصیلات دی ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ انھوں نے اس دن ساحل سمندر پر ایک نوجوان لڑکے کو ایک بچی کو اٹھا کر لے کر جاتے ہوئے دیکھا تھا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ پانچ دہائیوں پہلے اغوا ہونے والی شیرل گریمر کا معمہ ابھی تک حل نہیں ہو سکا۔ ان کے گھر والے حال ہی میں برطانیہ سے آسٹریلیا کے علاقے فیری میڈو میں آئے تھے۔
سامنے آنے والے عینی شاہد کی عمر 1970 میں سات سال تھی۔ ان کا کہنا ہے وہ اس لمحے کو کبھی بھول نہیں سکتے۔
بی بی سی کو معلوم ہوا ہے کہ پولیس نے بھی اس عینی شاہد سے رابطہ کر لیا ہے۔
بی بی سی کی پوڈکاسٹ ’فیری میڈو‘ میں عینی شاہد نے اس دن ساحل سمندر پر خواتین کے کپڑے تبدیل کرنے والے کمروں سے ایک نوجوان مرد کو نکلتے ہوئے دیکھا اور اس کے خدوخال کی تفصیلات بھی دیں۔
12 جنوری 1970 کو شیرل ساحل پر موجود چینجنگ رومز سے غائب ہو گئی تھیں۔ یہ تب ہوا جب ان کے بھائی نے چند سیکنڈز کے لیے اپنی توجہ ان سے ہٹائی۔
شیرل اور ان کا خاندان چند عرصہ قبل ہی برطانیہ کے شہر برسٹل سے آسٹریلیا ہجرت کر کے آیا تھا۔
،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
مقامی لوگ شیرل کی گمشدگی کے اگلے دن پولیس کی تلاش میں شامل ہوئے
ممکنہ عینی شاہد نے اپنی شناخت خفیہ رکھنے کی درخواست کی۔ انھوں نے بتایا کہ انھوں نے ایک آدمی کو ایک بچی کو اپنے بازو میں اٹھائے ہوئے تیز تیز چلتے دیکھا اور وہ بچی چیخ رہی تھی۔
انھوں نے مزید بتایا کہ کہ نوجوان کے بال چھوٹے اور رنگ میں بھورے تھے اور اس کا جسم نہ زیادہ موٹا اور نہ زیادہ پتلا تھا۔
عینی شاید نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں نے بچی کی چیخیں سنی، وہ میرے کانوں تک پہنچی۔‘
انھوں نے بتایا کہ اس وقت انھوں نے پولیس کو یہ معلومات اس لیے نہیں دیں کیونکہ انھیں یہ نہیں پتا تھا کہ وہ بچی اغوا ہوئی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ انھیں اور ان کے خاندان کو 1970 میں انگریزی زبان نہیں آتی تھی کیونکہ وہ حال ہی میں مشرقی یورپ سے آسٹریلیا آئے تھے۔
انھوں نے کہا کہ ’ہمیں ملک میں آئے صرف تین سے چار ہفتے ہوئے تھے۔ ہمارے پاس ٹی وی نہیں تھا اور اس وقت ہم اخبار نہیں پڑھتے تھے۔ کیا ہو رہا ہے ہم اس سے بالکل غافل تھے۔ میرے گمان میں ہی نہیں تھا کہ جو میں نے دیکھا ہے وہ ایک اہم چیز ہے۔‘
عینی شاہد نے مزید بتایا کہ شیرل کے غائب ہونے کے بعد انھیں ڈھونڈنے کے لیے شروع کی گئی بڑی عوامی مہم کے بارے میں انھیں معلومات نہیں تھیں کیونکہ وہ اور ان کا خاندان فیری میڈو سے کئی میل دور رہتا تھا۔
بی بی سی نے عینی شاہد سے تب رابطہ کیا جب ان کی جاننے والی ایک دوست نے فیری میڈو پوڈکاسٹ سنی اور پھر ای میل کے ذریعے ان کی بتائی ہوئی کہانی پہنچائی۔ ان کی دوست نے بتایا کہ کئی سال وہ یہ قصہ دہراتے رہے۔
2016 میں اس کیس پر کام کرنے والے ریٹائرڈ تفتیشی افسر نے اس عینی شاہد سے رابطہ کیا اور ان کا ماننا ہے کہ ان کے بیان کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
سابق تفتیشی افسر سارجنٹ ڈیمین لون نے کہا کہ یہ پہلی بار تھی کہ کسی نے ساحل پر ایک نوجوان لڑکے کو بچی اٹھائے ہوئے دیکھنے کے بارے میں بتایا۔
،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
شیرل گریمر کی اپنے والد ونس کے ساتھ تصویر جو آسٹریلوی فوج میں خدمات انجام دے رہے تھے
ڈیمین لون نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’عینی شاہد نے جو دیکھا وہ بہت اہم ہے اور اس کی مکمل چھان بین ہونی چاہیے۔ میں ان وجوہات کو سمجھ سکتا ہوں کہ وہ پہلے کیوں سامنے نہیں آئے لیکن وہ اب آپ کے سامنے آئے ہیں۔ مجھے غیر حل شدہ قتل کے یونٹ کے ایک افسر کے لیے ان سے رابطہ کرنے کی اجازت مل گئی۔‘
بی بی سی کو معلومات حاصل ہوئی ہیں کہ گذشتہ چند دن کے دوران پولیس نے نئے عینی شاہد سے رابطہ کیا ہے۔
شیرل گریمر کے بڑے بھائی رکی کی عمر اس وقت اپنی اکلوتی بہن سے چار سال زیادہ تھی اور ان کے غائب ہونے سے چند لمحے پہلے وہ ان کا خیال رکھ رہے تھے۔
رکی کا کہنا ہے کہ وہ ’پوری طاقت سے دعا کر رہے ہیں کہ پولیس اس کی پیروی اور تفتیش کرے گی۔۔۔ جب تک اس کا انجام نہیں ہوتا میں سکون کی نید نہیں سوؤں گا اور اس کا واحد انجام تب ہو گا جب میں سچ سنوں گا۔‘
یاد رہے کہ سنہ 2016 میں ساٹھ سال کے ایک شخص پر شیرل گریمر کے قتل کا الزام عائد کیا گیا تھا تاہم بعد میں ان کو تمام الزامات سے بری کر دیا گیا اور انھوں نے بھی تمام الزامات کی تردید کی تھی۔
Comments are closed.