secure hookup site a v hookup on xbox 360 hookup hotshot mature whisper hookup

بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

’45 دن بعد کہہ رہے ہیں کہ روس سے تیل خریدیں گے، اگر پابندی نہ ہوئی تو‘

روس سے تیل کی خریداری: مفتاح اسماعیل کا سی این این کو انٹرویو جو نئے سوالوں کو جنم دے رہا ہے

پاکستان روس

،تصویر کا ذریعہGetty Images

پاکستان روس سے گندم خرید سکتا ہے تو تیل کیوں نہیں؟ اگر انڈیا روس سے تیل خرید سکتا ہے تو پاکستان کیوں سستا تیل نہیں خرید سکتا؟

یہ وہ سوال ہیں جو گذشتہ کئی دنوں سے پاکستان کی سیاست کا محور ہیں۔ لیکن گذشتہ روز پاکستان کے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کے سی این این کو دیے گئے ایک انٹرویو نے ان سوالوں کے جواب دینے کی بجائے نئے سوالات اٹھا دیے جس پر تحریک انصاف کی جانب سے خوب تنقید کی جا رہی ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ پاکستان نے حال ہی میں روس اور یوکرین سے گندم کی خریداری کا فیصلہ کیا ہے جس کی تصدیق مفتاح اسماعیل کے انٹرویو میں بھی ہوئی لیکن اس انٹرویو میں ایک اہم سوال اٹھا کہ کیا پاکستان پر روس سے تیل خریدنے پر کوئی پابندی ہے یا نہیں؟

مفتاح اسماعیل نے انٹرویو میں کیا کہا؟

امریکی ٹی وی چینل سی این این کی میزبان بیکی اینڈرسن نے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل سے سوال کیا کہ ’بڑھتی ہوئی قیمتوں کے پیش نظر پاکستان کو مدد کی اشد ضرورت ہے تو کیا ایسے میں حکومت روس سے تیل اور گندم خریدنے پر غور کر رہی ہے، کیا یہ بات درست ہے؟‘

مفتاح اسماعیل نے جواب دیا کہ ’ہم نے روس سے گندم خریدنے کی بات کی ہے۔ گذشتہ حکومت نے روس سے تیل خریدنے کی بات کی تھی لیکن میرا خیال ہے کہ روس پر اس وقت پابندیاں عائد ہیں۔ انھوں (روس) نے ابھی تک گذشتہ حکومت کی جانب سے تیل کی خریداری کے لیے بھیجے جانے والے مراسلے کا جواب نہیں دیا۔ لیکن ہم نے روس اور یوکرین دونوں سے بات کی ہے، ان میں سے جو بھی ہمیں گندم دینے کو تیار ہے، ہم ان سے خریدنا چاہیں گے۔‘

اس پر میزبان نے سوال کیا کہ ’اس کا مطلب ہے کہ تیل نہیں خریدا جائے گا، کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں؟ روس سے تیل نہیں خریدیں گے؟‘

مفتاح اسماعیل انٹرویو

،تصویر کا ذریعہCNN

اس سوال پر ایک بار پھر مفتاح اسماعیل نے جواب دیا کہ ’گذشتہ حکومت نے روس کو خط لکھا تھا جس کا جواب نہیں آیا۔ اب تک روس نے تیل فروخت کرنے کی کوئی پیشکش بھی نہیں کی اور اس وقت اس پر پابندیاں عائد ہیں، تو میرے لیا یہ سوچنا مشکل ہے کہ ہم روس سے تیل خرید سکتے ہیں۔‘

مگر شاید یہ وضاحت کافی نہیں تھی اسی لیے بیکی اینڈرسن دوبارہ سوال کیا کہ ’کئی ممالک روس سے تیل خرید رہے ہیں، مثال کے طور پر پاکستان کا ہمسایہ ملک انڈیا روس سے تیل خرید رہا ہے تو کیا پاکستان بھی روس سے سستا تیل خریدنے کے لیے تیار ہو سکتا ہے؟‘

مفتاح اسماعیل نے جواب دیا کہ ’اگر روس نے ہمیں سستا تیل دینے کی پیشکش کی اور اگر پاکستان پر روس سے تیل خریدنے کی کوئی پابندی نہیں تو یقیناً ہم اس پر غور کریں گے لیکن اس وقت میرے خیال میں یہ ممکن نہیں ہو گا کہ پاکستانی بینک ایل سی (لیٹر آف کریڈٹ) کھول سکیں تاکہ روس سے تیل کی خریداری کی جا سکے اور نا ہی روس نے کوئی پیشکش کی ہے۔‘

’ان کو علم نہیں کہ کوئی پابندی نہیں ہے‘

وزیر خزانہ کے انٹرویو پر تحریک انصاف کے سابق وزیر حماد اظہر نے ٹوئٹر پر جواب دیا کہ ’مفتاح اسماعیل کا دعویٰ ہے کہ پاکستان کے بینک روسی مصنوعات کی خریداری کے لیے لیٹر آف کریڈٹ (ایل سی) نہیں کھول سکتے لیکن ساتھ ہی وہ اعلان کرتے ہیں کہ ہم روس سے گندم خریدنے کے لیے تیار ہیں۔ پھر وہ کہتے ہیں کہ حکومت روس سے تیل خرید سکتی ہے اگر کوئی پابندی نہیں ہے۔ 45 دن گزر چکے ہیں اور ان کو معلوم ہی نہیں کہ ایسی کوئی پابندی نہیں ہے۔‘

حماد اظہر

،تصویر کا ذریعہ@Hammad_Azhar

مواد پر جائیں

پوڈکاسٹ
ڈرامہ کوئین
ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

تحریک انصاف کی رہنما اور سابق وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے بھی کچھ ایسا ہی دعویٰ کیا۔

انھوں نے لکھا کہ ’45 دن بعد یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم روس سے تیل خریدیں گے اگر کوئی پابندی نہیں ہوئی۔‘ شیریں مزاری نے کہا کہ ’روس سے تیل خریدنے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ انڈیا سے پوچھ لیں۔ تو پھر آخر ایسی کیا بات ہے جو ان کو روس سے تیل خریدنے سے روک رہی ہے امریکہ کے خوف کے علاوہ؟‘

واضح رہے کہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ پاکستان روس سے سستا تیل خریدنے کی بات چیت کر رہا تھا۔ حماد اظہر بعد میں ایک خط بھی منظر عام پر لے کر آئے جو تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے سے نو دن پہلے روس کو لکھا گیا تھا اور اس میں سابق وزیر اعظم عمران خان کے دورہ روس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات کا پس منظر بیان کرتے ہوئے کہا گیا کہ پاکستان روس سے خام تیل، پٹرول اور ڈیزل کی سستے نرخوں پر درآمد کے سلسلے میں دلچسپی رکھتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

اس خط میں حماد اظہر نے روسی ہم منصب کو لکھا کہ وہ روس کے ان حکام کی تفصیلات فراہم کریں جو روس کے اداروں کی جانب سے اس سلسلے میں بات کو مزید بڑھائیں گے۔

حماد کی جانب سے تنقید اور خط شیئر کیے جانے کے بعد مفتاح اسماعیل نے ٹوئٹر پر ان کو جواب دیتے ہوئے لکھا ’حماد بھائی، میرا انٹرویو غور سے دوبارہ سُنیں۔ میں نے یہی کہا کہ آپ کی حکومت نے خط لکھا تھا۔ لیکن میں نے کہا کہ اس کا جواب نہیں آیا۔ میں نے یہ نہیں کہا کہ آپ نے عمران خان کے دورہ روس کے ایک ماہ بعد تک انتظار کیا اور پھر یہ خط لکھا۔ وہ بھی اس وقت جب آپ کو علم تھا کہ آپ تحریک عدم اعتماد کا ووٹ ہار جائیں گے اور یہ صرف سیاست کے لیے لکھا گیا۔‘

مفتاح اسماعیل

،تصویر کا ذریعہ@MiftahIsmail

تحریک انصاف اور مسلم لیگ نواز کے رہنماؤں کی جانب سے سی این این کو دیے گئے اس انٹرویو کے بعد کافی بحث کا سلسلہ جاری ہے اور صارفین اس پر اپنی اپنی آرا کا اظہار کر رہے ہیں اور یہ سوال ایک مرتبہ پھر پوچھتے نظر آ رہے ہیں کہ اگر انڈیا روس سے سستا تیل خرید سکتا ہے تو پاکستانی حکومت کیوں نہیں؟

بنگلہ دیش میں بھی روسی تیل کے معاملے پر تذبذب؟

یاد رہے کہ انڈیا روس سے تیل خرید بھی رہا ہے اور 21 مئی کو انڈیا کی حکومت نے تیل کی مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان بھی کیا تھا۔

گذشتہ روز (منگل) بنگلہ دیش کے وزیر خارجہ اے کے عبدل میمن نے بھی انڈیا سے بات چیت کا اعلان کیا تھا جس کا مقصد یہ معلوم کرنا تھا کہ روس سے پابندیوں کے خوف کا سامنا کیے بغیر سستا تیل اور گندم کیسے خریدی جائے۔

انھوں نے بنگلہ دیش نیوز ٹوئنٹی فور سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’روس نے ہمیں تیل اور گندم فروخت کرنے کی پیشکش کی ہے۔ لیکن ہم پابندیوں کے خوف سے ایسا نہیں کر سکتے۔ ہم نے انڈیا سے پوچھا ہے کہ انھوں نے ایسا کیسے کیا تو ہمیں بتایا گیا کہ انڈیا نے کچھ چالیں ڈھونڈ لی ہیں۔‘

بنگلہ دیش کے وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ’انڈیا ایک بڑا ملک ہے۔ ان پر کوئی پابندی نہیں لگاتا۔ ہم ایک غریب اور چھوٹا ملک ہیں۔ اسی لیے مغرب ہمیں کنٹرول کرنے کی کوشش کرتا ہے۔‘

روس سے تیل کی خریداری پر یورپی یونین بھی تقسیم

یورپی یونین

،تصویر کا ذریعہGetty Images

واضح رہے کہ روس اور یوکرین کی جنگ کے بعد روسی تیل اور گیس پر انحصار ختم کرنے کی بات ہو رہی ہے تاکہ روس کی آمدنی کو نقصان پہنچایا جا سکے لیکن اب تک یورپی یونین اور برطانیہ مکمل طور پر روس سے تیل اور گیس کی خریداری ختم نہیں کر سکے۔

آسٹریلیا، کینیڈا اور امریکہ روسی تیل کی خریداری پر مکمل پابندی لگا چکے ہیں لیکن یورپی یونین میں اس معاملے پر مکمل اتفاق نہیں ہو سکا۔

یورپین یونین کی جانب سے کہا گیا ہے کہ 2022 کے آخر تک سمندر سے آنے والے روسی تیل کی درآمد مکمل طور پر ختم کر دی جائے گی لیکن روسی پائپ لائن کے ذریعے آنے والے تیل کا استعمال جاری رہے گا۔ اس فیصلے کی وجہ ہنگری اور سلوویکیا جیسے ممالک کی مخالفت بتائی جا رہی ہے جن کا دارومدار روس کے تیل اور گیس پر ہے۔

واضح رہے کہ پولینڈ اور جرمنی روس سے تیل پائپ لائن کے ذریعے درآمد پر بھی پابندی کا فیصلہ کر چکے ہیں جس کے بعد یورپ کو سپلائی ہونے والا 90 فیصد روسی تیل بند ہو جائے گا۔ اب تک روس کی گیس پر کوئی پابندی نہیں لگائی گئی۔

اس سے قبل روس کے خلاف پابندیوں کے تحت روسی بینکوں کو عالمی سوئفٹ نظام سے بھی بے دخل کیا جا چکا ہے جس کا مقصد روس کو اس کی مصنوعات کی برآمد پر ادائیگی میں رکاوٹ پیدا کرنا تھا۔

واضح رہے کہ روس تیل اور گیس کی برآمدات کے لیے سوئفٹ نظام پر انحصار کرتا ہے۔

سوئفٹ نظام سے نکالے جانے کی صورت میں روسی کمپنیوں کو رقوم کی ادائیگی مشکل ہو جائے گی جس سے اس کی توانائی اور زرعی برآمدات بری طرح متاثر ہوں گی۔

ایسی صورت میں بینکوں کو براہ راست ادائیگیاں کرنا ہوں گی جس پر اضافی اخراجات آئیں گے۔ اس طرح روسی حکومت کے محصولات میں کمی واقع ہو گی۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.