،تصویر کا ذریعہNelson Shardey
’کبھی پوچھ گچھ نہیں ہوئی‘
ریٹائرڈ نیوز ایجنٹ شارڈے پہلی بار 1977 میں اکاؤنٹینسی کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے سٹوڈنٹ ویزا پر برطانیہ آئے تھے جس سے انھیں کام کرنے کی بھی اجازت ملی تھی۔ان کے آبائی علاقے گھانا میں بغاوت کے بعد ان کا خاندان انھیں فیس کے لیے رقم نہیں بھیج سکتا تھا۔انھوں نے ساؤتھمپٹن کے قریب مدرز پرائڈ بریڈ اور کپلنگ کے کیک اور ونچیسٹر میں بینڈک کی چاکلیٹ بنانے سمیت متعدد ملازمتیں کیں اور کہا کہ کسی نے بھی برطانیہ میں رہنے یا کام کرنے کے ان کے حق کے بارے میں کبھی نہیں پوچھا۔انھوں نے ایک برطانوی خاتون سے شادی کی اور والسی میں اپنا کاروبار نیلسن نیوز قائم کیا۔ جب یہ شادی ختم ہوئی تو انھوں نے ایک اور برطانوی خاتون سے شادی کی۔ ان کے دو بیٹے جیکب اور ایرون ہیں۔شارڈے نے کہا کہ ’میں نے اپنی پوری کوشش کی کہ انھیں بہترین طریقے سے تعلیم دی جائے تاکہ ان میں سے کوئی بھی سوشل سکیورٹی یا کسی امداد پر انحصار نہ کرے۔‘انھوں نے اپنے بیٹوں سے کہا کہ وہ ’سخت محنت سیکھیں، اچھی نوکری حاصل کریں اور اپنے لیے کام کریں۔‘ دونوں نے یونیورسٹی کے بعد ریسرچ سائنٹسٹ اور پبلک ریلیشنز ایگزیکٹو کے طور پر اپنے کیریئر بنائے۔ شارڈے نے کہا کہ انھوں نے کبھی برطانیہ نہیں چھوڑا کیونکہ انھیں اس کی کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوئی اور وہ اسے اپنا گھر سمجھتے ہیں۔انھوں نے کہا ’مجھ سے کسی نے سوال نہیں کیا۔ میں نے اپنی تمام چیزیں کریڈٹ (قرض) پر خریدی تھیں۔ یہاں تک کہ گھر بھی۔ مجھے مورگیج مل گیا اور کسی نے بھی مجھ سے کسی چیز کے بارے میں سوال نہیں کیا۔‘شارڈے کو2007 میں بیس بال بیٹ سے ڈیلیوری مین پر حملہ کرنے والے ایک ڈاکو سے نمٹنے کے بعد بہادری کے لیے پولیس ایوارڈ دیا گیا تھا۔لیکن 2019 میں جب انھوں نے اپنی والدہ کی وفات کے بعد گھانا واپس جانے کے لیے پاسپورٹ کے لیے درخواست دی تو انھیں بتایا گیا کہ وہ برطانوی شہری ہی نہیں ہیں۔ ہوم آفس نے کہا کہ انھیں برطانیہ میں رہنے کا حق حاصل نہیں ہے۔،تصویر کا ذریعہNelson Shardey
’میں ادائیگی نہیں کر سکتا‘
عہدیداروں نے ان سے کہا کہ وہ تصفیے کے لیے 10 سالہ رہائش کی درخواست دیں۔دس سالوں میں اس کی لاگت تقریبا 7000 پاؤنڈ ہے۔ اسی عرصے میں این ایچ ایس تک رسائی حاصل کرنے کے لیے مزید 10500 پاؤنڈز درکار ہوں گے۔ پروسٹیٹ کینسر سے صحتیاب ہونے والے شارڈے نے کہا کہ ’میں ان کی جانب سے مانگی جانے والی رقم کا کوئی بھی حصہ ادا کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ مجھے اس راستے سے گزرنے کے لیے کہنا ایک سزا ہے، اور یہ کسی بھی طرح سے منصفانہ نہیں ہے۔‘’مجھے سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ ہنگامہ کیوں ہے کیونکہ میں نے اپنی پوری زندگی، اپنی پوری زندگی اس ملک میں لگا دی ہے۔‘جب انھوں نے دو سال قبل برطانیہ میں رہائش میں توسیع کی کوشش کی تو انھوں نے غلط فارم بھر دیا۔ اس کا مطلب ہے کہ 10 سالہ عمل کو 2023 میں دوبارہ شروع کرنا پڑا۔اس کے نتیجے میں شارڈے کو 84 سال کی عمر تک مستقل طور پر برطانیہ میں رہنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ان کے بیٹے جیکب نے کہا کہ ’میں نے سوچا کہ یہ ایک مذاق تھا۔ وہ 1977 سے یہاں ہیں۔ تو انھیں یہ 10 سالہ روٹ شروع کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ وہ یہاں ان لوگوں سے زیادہ عرصے سے موجود ہیں جو ان کے کیس پر ہوم آفس میں کام کر رہے ہیں۔‘
’غیر معمولی حقائق‘
گریٹر مانچسٹر امیگریشن ایڈ یونٹ کی وکیل نکولا برگس کی مدد سے شارڈے اب ہوم آفس کو عدالت لے جا رہے ہیں۔ان کے بیٹے کراؤڈ فنڈنگ کے ذریعے اخراجات اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہوم آفس کو ان کے ساتھ نرمی برتنی چاہیے کیونکہ وہ برطانیہ میں طویل عرصے تک رہے ہیں اور ان کی مقامی کمیونٹی کے لیے خدمات بھی ہیں۔ برگس نے کہا کہ ’ہم جانتے ہیں کہ کم از کم ایک کیس ورکر نے ان کی فائل دیکھی ہے اور مشورہ دیا ہے کہ انھیں غیر معینہ مدت کے لیے چھٹی دی جانی چاہیے کیونکہ اس میں غیر معمولی حقائق موجود ہیں۔‘’اور جب آپ اسے ذاتی طور پر دیکھیں گے، اگر نیلسن آپ کے دوست تھے یا آپ کے پڑوسی تھے، تو آپ بالکل متفق ہوں گے کہ انھیں فوری طور پر رہائش کا حق دیا جانا چاہیے۔‘ہوم آفس کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ ’زیرِ سماعت قانونی کارروائی پر تبصرہ کرنا نامناسب ہوگا۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.