42 خواتین کا مبینہ قتل کرنے والا سیریل کلر جو ایک ’خواب‘ کی وجہ سے پکڑا گیا،تصویر کا ذریعہEPA
،تصویر کا کیپشنلاپتہ ہونے والی خواتین میں سے ایک کے خاندان کا دعویٰ ہے کہ جوزفینو ان کے خاندان میں سے ایک شخص کے خواب میں آئیں اور لاشوں کا مقام تلاش کرنے میں ان کی مدد کی

  • مصنف, این وفولا
  • عہدہ, بی بی سی افریقہ سیکیورٹی نامہ نگار، نیروبی
  • 2 گھنٹے قبل

کینیا میں ایک مبینہ سیریل کلر کی گرفتاری نے پورے ملک میں ہلچل مچا دی ہے۔ تاہم انھیں جن حالات میں گرفتار کیا گیا، اس حوالے سے کئی سوال بھی جواب طلب ہیں۔پولیس کا کہنا ہے کہ 33 سالہ کولنز خلوشہ نامی شخص نے 42 خواتین کو قتل کرنے کا اعتراف کیا ہے۔ تاہم ان کے وکیل نے منگل کو عدالت میں دلیل دی کہ کولنز پر تشدد کرکے ان سے اعتراف کروایا گیا ہے۔حال ہی میں کینیا کے دارالحکومت نیروبی میں ایک پولیس چوکی کے قریب ایک پرانی کان سے پلاسٹک میں لپٹی نو مسخ شدہ لاشوں کی باقیات ملی تھیں۔ اس کان کو کچرہ پھینکنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔

1) یہ لاشیں پولیس چوکی سے چند میٹر کے فاصلے پر کیسے پہنچیں؟

یہ لاشیں ایک پولیس چوکی سے صرف 100 میٹر کے فاصلے پر ملی ہیں۔

بہت سے لوگ سوال کر رہے ہیں کہ کیسے یہ لاشیں پولیس چوکی کے اتنے قریب پھینکی گئیں اور پولیس کو پتہ ہی نہیں چل سکا۔مقامی لوگوں نے جرائم سے نمٹنے کے معاملے میں حکام کی ’سستی‘ کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے جس کے بعد پولیس چیف ڈگلس کانزا نے اتوار کو اعلان کیا کہ اس پولیس چوکی کے افسران کو ٹرانسفر کر دیا گیا ہے۔تاہم اب تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ ان افسران سے یہ سوال ہوا یا نہیں کہ پولیس ان اموات سے لاعلم کیسے رہی؟ تاہم حکام کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں پولیس کے کردار کے بارے میں تحقیقات جاری ہیں۔لیکن اس سارے معاملے میں سب سے زیادہ چونکا دینے والی بات ایک عام شہری کو ان لاشوں کا ملنا ہے جس نے مقامی افراد کو بہت حیران کیا ہے۔لاپتہ ہونے والی خواتین میں سے ایک جوزفینو اوینو کے خاندان کا دعویٰ ہے کہ جوزفینو ان کے خاندان میں سے ایک شخص کے خواب میں آئیں اور لاشوں کا مقام تلاش کرنے میں ان کی مدد کی۔تاہم اس بارے میں شکوک و شبہات موجود ہیں۔ جوزفینو کی کزن ڈیانا کیا نے سٹیزن ٹی وی کو بتایا کہ اس خواب کے بعد انھوں نے کچھ نوجوانوں کو کچرے میں تلاشی کے لیے پیسے دیے گئے۔اور اس طرح جمعہ کے روز اس مقام سے انتہائی بوسیدہ حالت میں نو لاشیں ملیں۔ ان لاشوں کو نائلن کے تھیلے میں رکھ کر رسی سے باندھا گیا تھا۔پولیس کی ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انھیں اس معاملے کا شہریوں کے ذریعے معلوم ہوا۔بعد ازاں جب ان سے کیس کے بارے میں پوچھا گیا تو ڈائریکٹر کرمنل انویسٹی گیشن محمد امین نے کہا کہ ’ہم خواب دیکھنے والے نہیں، نہ ہم خوابوں پر یقین رکھتے ہیں۔‘،تصویر کا ذریعہgettyimages

،تصویر کا کیپشنپولیس کا کہنا ہے کہ 33 سالہ کولنز خلوشہ نامی شخص نے 42 خواتین کو قتل کرنے کا اعتراف کیا ہے

2) یہ لاشیں کتنا عرصہ پہلے پھینکی گئیں؟

پولیس کا کہنا تھا کہ لاشوں کی حالت کو دیکھ کر واضح ہوتا ہے کہ انھیں مختلف اوقات میں قتل کیا گیا ہے۔پولیس کو دیے بیان (جسے اب متنازعہ کہا جا رہا ہے) میں کولنز نے اعتراف کیا ہے کہ وہ دو سال سے خواتین کو قتل کر رہے تھے۔تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ آیا ان لاشوں کی باقیات کو مختلف اوقات میں یہاں لا کر پھینکا گیا یا حال ہی میں لاشیں یہاں لائی گئیں۔حقی افریقہ رائٹس گروپ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر حسین خالد کا کہنا ہےکہ پولیس کے بیان میں بہت سے مسائل ہیں۔

3) پولیس نے ملزم کو اتنی جلدی کیسے گرفتار کیا؟

پولیس کو لاپتا خواتین کے متعلق دو سال تک کوئی خبر نہیں ہوئی مگر لاشیں ملنے کے تین دن کے اندر اندر انھوں نے ایک مبینہ ملزم کو گرفتار کر لیا۔پیر کے روز پولیس کا کہنا تھا کہ انھوں نے کولنز کو ایک شراب خانے سے اس وقت گرفتار کیا جب وہ یورو فائنل فٹ بال میچ دیکھ رہے تھے۔پولیس نے 10 فون، ایک لیپ ٹاپ، شناختی کارڈ اور خواتین کے کپڑے بھی میڈیا کو دکھائے جن کے متعلق ان کا دعویٰ ہے کہ یہ سامان انھوں نے مشتبہ شخص کے گھر سے قبضے میں لیا ہے۔ ملزم کا گھر لاشیں ملنے کے مقام سے قریب ہے۔پولیس کا کہنا ہے کہ انھوں نے کولنز کو متاثرہ افراد میں سے ایک کے موبائل فون کی جیو لوکیشن کے ذریعے تلاش کیا ہے۔ تاہم کولنز کے وکیل نے اس دعوے پر شکوک کا اظہار کیا ہے۔،تصویر کا ذریعہAFP

،تصویر کا کیپشنپولیس کا دعویٰ ہے کہ کولنز کا پہلا شکار ان کی اپنی بیوی تھیں

4) متاثرین کون ہیں؟

ابھی تک صرف 24 سالہ روزلین اونگوگو کی لاش کی شناخت ہو پائی ہے۔روزلین کے بھائی ایمانوئل اونگوگو نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ 28 جون کو کام کے لیے گھر سے نکلی تھیں اور تب سے لاپتہ تھیں۔ان کے اہل خانہ نے بتایا کہ جب انھیں معلوم ہوا کہ مکورو میں کچھ لاشیں ملی ہیں تو وہ مردہ خانے گئے۔روزلین کی لاش کی شناخت ان کے اہل خانہ نے ان کے لباس اور بالوں کی بنیاد پر کی۔پولیس کا دعویٰ ہے کہ کولنز کا پہلا شکار ان کی اپنی بیوی تھیں۔ دیگر مقتولین کے سامان کے ساتھ ان کی اہلیہ کا شناختی کارڈ بھی برآمد ہوا ہے۔جوزفینو کے اہل خانہ نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ ابھی تک ان کی لاش کی شناخت کے منتظر ہیں۔،تصویر کا ذریعہOngogo family

،تصویر کا کیپشنروزلین کی لاش کی شناخت ان کے اہل خانہ نے ان کے لباس اور بالوں کی بنیاد پر کی

5) کینیا میں خواتین کی حفاظت کے بارے میں پولیس کا کیا کہنا ہے؟

اس واقعے نے جنوری میں 20 سالہ ریتا وینی کے بہیمانہ قتل کی یاد ایک بار پھر سے تازہ کر دی ہے۔ریتا کی مسخ شدہ لاش نیروبی میں ایک کرائے کے مکان سے ملی تھی۔ یہ کیس ابھی تک حل نہیں ہو پایا ہے۔اس واقعے کے بعد ملک میں خواتین کے قتل اور تشدد کے واقعات میں اضافے کے خلاف کئی احتجاجی مظاہرے ہوئے ہیں۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ 2016-2023 کے دوران کینیا میں خواتین کے قتل کے 500 سے زائد واقعات رپورٹ ہوئے۔ یاد رہے کہ کان میں کچرے کے ڈھیر سے ملنے والی تمام لاشیں خواتین کی ہیں۔خواتین نے حکومت سے تحقیقات کو تیز کرنے اور اس طرح کے تشدد کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔اس سوال کے جواب میں کہ پولیس خواتین کے خلاف تشدد اور قتل جیسے واقعات کو روکنے کے لیے کیا کر رہی ہے، پولیس کی ترجمان ریسیلا اونیاگو نے کہا کہ وہ اس مسئلے کو حل نہیں کر سکتیں۔ تاہم انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ پولیس کا کام ہر کسی کی جان و مال کی حفاظت کرنا ہے۔پولیس پر یہ تنقید ایک ایسے وقت میں سامنے آ رہی ہے جب کینیا کے مزید افسران ہیٹی پہنچ رہے ہیں جہاں وہ ملک کے طاقتور گروہوں سے نمٹنے کے لیے ایک بین الاقوامی مشن کی قیادت کر رہے ہیں۔پورٹ او پرنس میں کئی گروہ پہلے ہی پولیس کی سفاکیت اور ماورائے عدالت قتل کے دعوؤں کے حوالے سے ان افسران کی ساکھ کے متعلق سوال کر رہے ہیں۔ کینیا کی حکومت ہمیشہ سے ایسے الزامات کی تردید کرتی آئی ہے۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}