بھارت میں ایک 89 شخص جو تقریباً 40 برس پہلے اپنی اہلیہ سے الگ ہوچکا ہے اور گزشتہ 27 برسوں سے اسے طلاق دینے کی کوشش کر رہا ہے لیکن اس ماہ کے اوائل میں بھارتی سپریم کورٹ نے بھی اس کی درخواست مسترد کردی۔
بھارت میں بھی طلاق کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا اور عموماً طلاق اسی صورت میں ممکن ہوتی ہے جب شوہر یا بیوی کی جانب سے تشدد اور ظلم کا واضح ثبوت ہو۔
اس کے علاوہ خاندان اور سماجی دباؤ اکثر لوگوں کو ناخوش ازدواجی زندگی جاری رکھنے پر مجبور کر دیتا ہے، لیکن اس کے باوجود عدالتیں شاذ و نادر ہی طلاق کی اجازت دیتی ہیں۔
ان ناقابل تردید حقائق کی تصدیق ایک بار پھر اس وقت ہوئی جب 89 سالہ ریٹائرڈ ونگ کمانڈر اور کوالیفائڈ ڈاکٹر نرمل سنگھ پنیسر نے اپنی 82 سالہ ریٹائرڈ ٹیچر اہلیہ کو طلاق دینے کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا جہاں ان کی درخواست مسترد ہوگئی۔
دونوں کی 1963 میں شادی ہوئی اور تین بچے ہیں، تاہم 1984 میں جب نرمل سنگھ کا مدراس ٹرانسفر ہوا تو پرمجیت کور نے شوہر کے ساتھ وہاں جانے کے بجائے امرتسر میں والدین کے ساتھ رہنے کو ترجیح دی۔
نرمل کے مطابق اس کی بہت زیادہ کوشش کے باوجود اس کی بیوی واپس نہیں آئی جس کے بعد 1996 میں اس نے فیملی کورٹ میں طلاق کا کیس فائل کیا۔
جہاں سے چار سال بعد اس کے حق میں فیصلہ آیا لیکن اس کی بیوی کی جانب سے اپیل کو عدالت نے منظور کرلیا۔ تب سے 1990 میں ریٹائر ہونے والا ونگ کمانڈر سپریم کورٹ میں اپنی طلاق کی منظوری کی کوششیں کررہا تھا۔ تاہم ایک بار پھر بھارتی سپریم کورٹ نے اس کی درخواست مسترد کردی حالانکہ عدالت نے یہ مان لیا کہ دونوں میں ثالثی ناممکن ہے۔
Comments are closed.