- مصنف, مشیل رابرٹس
- عہدہ, بی بی سی
- 3 گھنٹے قبل
ایک 62 سالہ جرمن شخص کو طبی ترجیحات کے برخلاف 217 بار کورونا کی ویکسین لگائی گئی ہے۔یہ عجیب و غریب کیس معروف طبی جریدے ’دی لانسیٹ‘ میں شائع ہوا ہے۔ مریض کو 29 مہینوں کے دوران نجی طور پر 217 مرتبہ ویکسین خرید کر لگائی گئی۔ ماہرین کسی بھی ویکسین کے بہت زیادہ لگوانے کے حق میں نہیں ہیں۔ تاہم یونیورسٹی آف ایر لنگن نورنبرگ کے محققین کا کہنا ہے کہ فی الحال ایسا نہیں لگتا کہ مذکورہ بالا مریض کو ہائپر (متعد بار) ویکسینیشن کی وجہ سے کسی قسم کے منفی اثرات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ڈاکٹر کلین شوبر یونیورسٹی آف ایر لنگن نورنبرگ کے شعبہ مائیکرو بایولوجی سے منسلک ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انھیں اس مریض کے بارے میں اخبارات سے پتا چلا۔
’اس کے بعد ہم نے ان سے رابطہ کیا اور ان سے کچھ ٹیسٹ کروانے کی درخواست دی۔ وہ ایسا کرنے میں بہت دلچسپی رکھتے تھے۔‘ان کے مطابق، اس شخص نے تازہ خون اور تھوک کے نمونے فراہم کیے جبکہ محققین نے حالیہ برسوں میں محفوظ کیے گئے اس کے خون کے کچھ منجمد نمونوں کا بھی تجزیہ کیا۔ڈاکٹر شوبر کہتے ہیں ان کی تحقیق کے دوران اس شخص نے ایک بار پھر ویکسین لگوانے پر اصرار کیا۔ ’ہم نے ان نمونوں کا استعمال کرتے ہوئے اس بات کا تعین کرنے کی کوشش کی کہ اس شخص کا مدافعتی نظام ویکسینیشن پر کیا ردعمل دیتا ہے۔‘دوسری جانب، میگڈبرگ شہر کے پراسیکیوٹر نے 130 مرتبہ انجیکشن لگائے جانے کے شواہد اکٹھے کرلیے ہیں۔ حکام نے دھوکہ دہی کے الزامات کی تحقیقات تو شروع کر دی ہیں تاہم اب تک کسی پر مجرمانہ الزامات نہیں لگائے گئے ہیں۔
کووِڈ ویکسین کیسے کام کرتی ہے؟
کووِڈ ویکسین بذاتِ خود انفیکشن کا سبب نہیں بن سکتیں۔ یہ ویکسین جسم کو بیماری کے خلاف لڑنا سکھاتی ہیں۔ویکسین دراصل جسم کے خلیوں کو وائرس کے جینیاتی کوڈ کا ایک ٹکڑا دکھا کر اس سے متعارف کرواتی ہیں۔اس طرح، مدافعتی نظام اس وائرس کو پہچان لیتا ہے۔ اس کے بعد اگر کووڈ وائرس حملہ آور ہوتا ہے تو ایسے میں جسم کے مدافعاتی نظام کو معلوم ہوتا ہے کہ اس وائرس سے کیسے نمٹنا ہے۔ڈاکٹر شوبر کو خدشہ تھآ کہ متعدد بار ویکسین لگائے جانے کی وجہ سے مدافعتی نظام کے بعض خلیے تھکاوٹ کا شکار ہوسکتے ہیں۔تاہم، محققین کو 62 سالہ مریض میں اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔محققین کو اس جرمن مریض کے کوویڈ سے متاثر ہونے کے بھی کوئی شواہد نہیں ملے ہیں۔
ویکسین کی کتنی خوراکیں کافی ہیں؟
محققین کا کہنا ہے کہ وہ اس بات کی قطعی حمایت نہیں کرتے کہ قوتِ مدافعت کو بہتر بنانے کی غرض سے ہائپر ویکسینیشن کی جائے۔فی الحال، ان کی جانب سے 62 سالہ مریض پر کیے جانے والے ٹیسٹ کے نتائج اس معاملے میں دور رس نتائج اخذ کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔یونیورسٹی کی ویب سائٹ پر شائع بیان کے مطابق موجودہ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ کووڈ سے حفاظت کے لیے ویکسین کی تین خوراک کے ساتھ ساتھ وقتاً فوقتاً بوسٹر ویکسین لگوانا ہی ترجیحی طریقہ ہے۔ان کا مزید کہنا ہے کہ اس بات کے شواہد نہیں ملتے کہ کسی کو اس سے زیادہ ویکسین کی ضرورت ہے۔برطانیہ کی قومی ادارہِ صحت (نیشنل ہیلتھ سروس یا NHS) کا کہنا ہے کہ کووِڈ کی ویکسین موسمی طور پر دی جاتی ہیں، لیکن کچھ کمزور مدافعتی نظام والے افراد کو دوسرے اوقات میں اضافی تحفظ کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.