21 سال سے اسرائیل میں قید مروان البرغوثی کون ہیں اور کیا وہ فلسطینی اتھارٹی کے اگلے صدر بن سکتے ہیں؟،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, منار حافظ
  • عہدہ, بی بی سی عربی، عمان
  • 29 منٹ قبل

حماس کی جانب سے یرغمال بنائے گئے اسرائیلی شہریوں کی رہائی کے بدلے، اسرائیل میں قید فلسطینی شہریوں کی رہائی کا امکان ’فتح تحریک‘ کے رہنما مروان البرغوثی کو شہ سرخیوں میں لے آیا ہے۔ حالیہ دنوں میں اُن کا نام فلسطینی اتھارٹی کے ممکنہ نئے صدر کے طور پر سامنے آیا ہے۔ حماس کا اصرار ہے کہ قیدیوں اور یرغمالیوں کے تبادلے کے ضمن میں ہونے والے کسی بھی نئے معاہدے کے تحت انھیں رہا کیا جانا چاہیے۔حماس کے رہنما اسامہ حمدان نے بی بی سی عربی کو بتایا کہ ’ایک تحریک کے طور پر ہم نے ایک واضح مؤقف اپنایا ہے جس پر ہم اب بھی قائم ہیں کہ (اسرائیلی) جیلوں میں قید تمام فلسطینی قیدیوں اور زیر حراست افراد کی بغیر کسی شرط کے رہائی ہونی چاہیے۔‘اسامہ حمدان نے مزید کہا کہ ’ہم اسے قومی مشن مانتے ہیں، جس بھی قیدی نے فلسطین کے لیے قربانی دی اس کے ساتھ برابری کا سلوک کیا جائے۔ ہم نے آپریشن وفا الاحرار میں بھی یہی کیا۔‘ (2006 میں اسرائیلی فوجی گیلاد شالیت اور فلسطینی قیدیوں کے تبادلے کے لیے ہونے والے آپریشن کے لیے حماس وفا الاحرار کا نام استعمال کرتا ہے۔)

اسرائیلی اخبار ’معاریوو‘ کے مطابق گذشتہ سال فروری میں ’اسرائیلی جیل انتظامیہ کو معلومات ملی تھیں کہ مروان البرغوثی متعدد طریقوں سے غرب اردن میں بدامنی پیدا کرنے کی کوشش کر رہے تھے اور ان کوششوں کا مقصد شورش برپا کرنا تھا۔‘اس معلومات کے بعد مروان البرغوثی کو ’عوفر جیل‘ میں منتقل کر کے قید تنہائی میں ڈال دیا گیا تھا۔،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشناطلاعات ہیں کہ البرغوثی کو فروری 2023 سے عوفر جیل میں قید تنہائی میں رکھا گیا
اسرائیل کے قومی سلامتی کے وزیر بن گویر نے مروان البرغوثی کو قید تنہائی میں رکھنے کے فیصلے کا خیر مقدم کیا تھا۔فلسطینی قیدیوں سے متعلق کمیشن (پیلسٹینین پرزنرز اینڈ لبیریٹرز افیئر کمیشن) نے مروان البرغوثی کے ایک جیل سے دوسری جیل میں تبادلے پر تنقید کی تھی۔بعدازاں اسرائیل نے مروان البرغوثی کو رہا کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

15 سال کی عمر میں فتح تحریک میں شمولیت

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنالبرغوثی نے نوعمری میں یاسر عرفات کی فتح تحریک میں شمولیت اختیار کی اور بعدازاں وہ اس تحریک کے سینئر لیڈر بنے
مروان البرغوثی نے اپنی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز 15 سال کی عمر میں فتح تحریک میں شامل ہو کر کیا۔ اُس وقت فتح تحریک کے سربراہ یاسر عرفات تھے۔جیسے جیسے اُن کا سیاسی کیریئر بڑھتا گیا انھوں نے فلسطینی جدودجہد کے لیے آواز بلند کرنا مزید تیز کر دیا۔سنہ 2002 میں انھوں نے امریکی اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘ میں لکھا تھا کہ ’میں اور فتح تحریک، اسرائیل کے اندر سویلینز (عام عوام) کو نشانہ بنانے کے سخت خلاف ہوں۔ لیکن مجھے یہ حق حاصل ہے کہ میں اپنے آپ کا دفاع کروں، اپنے وطن پر اسرائیلی قبضے کے خلاف مزاحمت کروں اور اپنی آزادی کے لیے لڑوں۔‘’میں ابھی بھی 1967 میں قبضہ کیے گئے فلسطینی علاقوں سے اسرائیل کے مکمل انخلا کی بنیاد پُرامن بقائے باہمی کا خواہاں ہوں۔۔۔۔‘’سچ کہوں تو ہم ہمیشہ اسرائیلی مداخلت کا الزام لگاتے ہوئے تھک چکے ہیں، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ہم صرف بین الاقوامی قانون کے نفاذ کی کوشش کر رہے ہیں۔‘بی بی سی عربی سے بات کرتے ہوئے سیاسی مبصرین کا کہنا تھا کہ 2002 سے اسرائیلی جیل میں قید البرغوثی فلسطینی اتھارٹی کی دوڑ باگ سنبھالنے اور اگر معاہدہ ہو جاتا ہے تو اگلی حکومت کی تشکیل کے لیے ایک ’متفقہ آپشن‘ ہو سکتے ہیں۔

’كتائب شہدا الاقصىٰ‘ کی بنیاد رکھنے کا الزام اور گرفتاری

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشناسرائیل نے برغوتی پر ’كتائب شہدا الاقصىٰ‘ ملٹری گروپ کی بنیاد رکھنے کا الزام لگایا تاہم وہ اس الزام کی تردید کرتے ہیں
مروان البرغوثی کو سنہ 2002 میں اسرائیل نے ’آپریشن ڈیفینسو شیلڈ‘ کے دوران گرفتار کیا تھا۔ اسرائیل نے اُن پر الزام لگایا تھا کہ انھوں نے عسکری گروہ ’کتائب شہدا الاقصیٰ‘ کی بنیاد رکھی لیکن مروان البرغوثی نے اس الزام کی تردید کی۔اس تنظیم نے فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی سپاہیوں اور آباد کاروں کے خلاف مہلک حملے کیے تھے۔مروان البرغوثی کو انھی الزامات کے تحت پانچ پار عمر قید کے ساتھ ساتھ مزید 40 سال قید سخت کی سزا سنائی گئی تھی۔تاہم انھوں نے اسرائیلی عدالت کے اختیار اور اس کے فیصلے کو تسلیم کرنے سے انکار کیا تھا۔بی بی سی عربی سے بات کرتے ہوئے اُن کی اہلیہ فدویٰ نے کہا کہ ’ان کے خلاف فرد جرم اس لیے نہیں لائی گئی کیونکہ انھوں نے یہ عمل اپنے ہاتھوں سے کیے بلکہ اس لیے کیونکہ وہ ایک رہنما تھے۔‘فدویٰ خود بھی ایک وکیل ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ تفتیش کے دوران مروان نے اپنے خلاف عائد کیے گئے تمام الزامات کو مسترد کیا اور ’انھوں نے اس الزام کی بھی تردید کی کہ انھوں نے کتائب شہدا الاقصیٰ کی بنیاد رکھی۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Images
،تصویر کا کیپشنمروان البرغوثی کی اہلیہ فدویٰ البرغوثی اپنے شوہر کی تصویر اٹھائے ہوئے

البرغوثی صدر کیسے بن سکتے ہیں؟

حماس کے نمائندے اسامہ حمدان کا خیال ہے کہ البرغوثی کی ساکھ انھیں اچھی جگہ پر کھڑا کرے گی۔ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ مروان البرغوثی جیسے انسان کی ایک انقلابی تاریخ ہے اور کچھ لوگوں کے نزدیک یہ انھیں رہنما بننے کا اہل بناتی ہے، اور ہم اس کا احترام کرتے ہیں لیکن بحیثیت ایک تحریک کے ہم نے اس معاملے پر اصولی طور پر بات چیت نہیں کی۔۔۔‘’ہمارا ماننا ہے کہ ہمارا مؤقف واضح ہے کہ فلسطینی عوام اپنی قیادت کا فیصلہ انتخابات کے ذریعے کرتے ہیں، جس میں وہ فیصلہ کرتے ہیں کون ان کی نمائندگی کریں گے، اور ہر کسی کو اس خواہش کا احترام کرنا چاہیے۔‘ فلسطینی اتھارٹی کے ووٹروں کے دسمبر 2023 کے سروے میں مروان البرغوثی مجموعی طور پر دوسرے امیدواروں کے مقابلے میں زیادہ مقبول تھے۔حماس کافی عرصے سے مروان البرغوثی کی رہائی کی کوششیں کر رہی ہے۔حماس میں عرب اور اسلامی تعلقات کے دفتر کے سربراہ خلیل الحیا کا ایک بیان نومبر 2021 میں تحریک کے ٹیلی گرام چینل پر شائع ہوا تھا جس میں انھوں نے کہا کہ ’تبادلے کے معاہدے کے ناموں کی فہرست میں ہم مروان البرغوثی اور احمد سعادت (سیکریٹری جنرل پاپولر فرنٹ فار دی لبریشن آف فلسطین) کو شامل کرنا چاہتے ہیں۔‘اسرائیل نے 2011 میں اسرائیلی فوجی گیلاد شالیت کو اپنی جیلوں میں قید فلسطینی قیدیوں کے ساتھ تبادلے کے معاہدے کے تحت البرغوثی کو رہا کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اس معاہدے میں غزہ میں حماس کے رہنما یحییٰ السنوار کی رہائی بھی شامل تھی۔،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشناسرائیلی فوجی گیلاد شالیت کو حماس نے 2011 میں اسرائیل کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے میں رہا کیا تھا
سیاسی تجزیہ کار اور محقق عريب الرنتاوی کہتے ہیں فلسطینی اتھارٹی کو ممکنہ طور پر مروان البرغوثی کے حوالے کرنے کا تعلق حماس اور اسرائیل کے درمیان ہونے والے تبادلے کے معاہدے سے ہو سکتا ہے۔حمدان کا کہنا ہے کہ اسرائیل اس طرح کے معاہدے میں رکاوٹیں ڈال رہا ہے۔

قیدیوں کا تبادلہ

الرنتاوی نے بی بی سی عربی کو بتایا کہ البرغوثی کی رہائی کا انحصار اس بات پر ہے کہ آیا اسرائیل ’رعایت دینے سے بچنے کے لیے یرغمالیوں کی قربانی دے گا اور حماس کے زیر حراست اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کو ترجیح دیے بغیر جنگ جاری رکھے گا۔‘تاہم ان کا ماننا ہے کہ ’امریکہ کی طرف سے اور اسرائیل کے اندر سے دباؤ نتن یاہو کے لیے اس راستے کو اختیار کرنا مشکل بنا دے گا، لہذا وہ قیدیوں اور یرغمالیوں کے تبادلے کے معاہدے کی طرف جا سکتے ہیں۔‘بنیامین نتن یاہو نے بڑی تعداد میں فلسطینیوں کی رہائی کے حماس کے مطالبات کو ’مبالغہ آمیز ‘ قرار دیا ہے۔

ممکنہ رہائی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنفتح تحریک البرغوثی کی گرفتاری کے بعد سے ان کی رہائی کے لیے مہم چلا رہی ہے
سنہ 2009 میں البرغوثی نے جیل سے اپنی امیدواری کے امکان کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے لکھا ’جب قومی مفاہمت ہو جائے گی اور انتخابات کے انعقاد کا معاہدہ ہو جائے گا تب میں مناسب فیصلہ کروں گا۔‘سنہ 2021 میں قید کے باوجود انھوں نے فلسطینی صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کیا تاہم انتخابات منسوخ کر دیے گئے تھے۔تاہم الرنتاوی نے کہا حماس مروان اور ان کے ساتھیوں کے رہائی کے مطالبے بر اصرار کرے گا۔یروشلم کی ہیبرو یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر اور اسرائیلی لیبر پارٹی کی سینٹرل کمیٹی کے رکن مئیر مصری نے بی بی سی عربی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی حکومت کی جانب سے ایسا قدم اٹھانے کا تصور کرنا مشکل ہے۔ انھوں نے یحییٰ السنوار کی رہائی کا حوالہ دیتے ہوئے ماضی کی مثال دی۔ان کی بتائی ہوئی وجوہات میں یہ بات شامل تھی کہ ’البرغوثی کو متعدد عمر قید کی سزا ہوئی ہے‘ اور اس کے ساتھ ساتھ اسرائیل کی دائیں بازو کی جماعتیں بھی ان کی رہائی کے خلاف ہیں۔

دو ریاستی حل

،تصویر کا ذریعہGetty Imagesاسرائیلی مصنف گیرشون باسکن نے جنوری میں ہاریٹز میں لکھا تھا کہ غزہ جنگ کے بعد کے عبوری دور میں ’ایک ایسے فلسطینی رہنما کی ضرورت ہے جو فلسطینی اتحاد کو فروغ دینے اور خطے میں تخفیف اسلحہ کا عزم کرنے کا اہل ہو۔ یہ رہنما البرغوثی ہو سکتے ہیں۔‘باسکن کہتے ہیں کہ مروان البرغوثی اب بھی دو ریاستی حل کے حق میں ہیں۔مڈل ایسٹ پالیسی کونسل کی صدر اور امریکی سفارتکار جینا ونسٹنلے نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اسرائیل کی موجودہ حکومت نے واضح کر دیا ہے کہ وہ اس وقت دو ریاستی حل پر آگے بڑھنے کا ارادہ نہیں رکھتی۔ انھیں وہاں تک پہنچانے کے لیے بین الاقوامی برادری کو بہت زیادہ کوششیں کرنا پڑیں گی۔ تاہم فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان تشدد کے اس خوفناک چکر کو توڑنے کا یہ واحد راستہ ہے۔‘جینا ونسٹنلے نے مزید کہا اگر مروان البرغوثی کو رہا بھی کر دیا جائے تو بھی ’دو ریاستی حل کا کوئی واضح راستہ نہیں ہے۔۔۔ موجودہ اسرائیلی وزیراعظم طویل مدت کے لیے اقتدار میں نہیں رہ سکتے لیکن کسی بھی اسرائیلی رہنما کو مذاکرات کی طرف لے جانا ضروری ہے، لیکن یہ آسان نہیں ہو گا۔‘

مروان البرغوثی ایک آپشن کیوں ہیں؟

،تصویر کا ذریعہGetty Imagesنیشنل سینٹر آف مڈل ایسٹرن سٹڈیز میں اسرائیلی سٹڈیز یونٹ کے ڈائریکٹر طارق فہمی کا خیال ہے کہ اسرائیل کی جانب سے البرغوثی کو آزاد کرنے کا امکان نہیں ہے۔انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’مروان کی ایک عظیم انقلابی تاریخ ہے، لیکن اسرائیل اس وقت (فلسطینی) اتھارٹی کی قیادت سنبھالنے کے لیے ان کی رہائی کی اجازت نہیں دے گا۔ ان کے علاوہ دیگر شخصیات کی بھی تجویز دی جا سکتی ہیں، لیکن عملی طور پر وہ صدر نہیں ہوں گے۔‘تاہم ونسٹنلے کا استدلال ہے کہ ’مروان البرغوثی کی رہائی اسرائیل کی جانب سے ایک سٹریٹیجک اقدام ہو گا کیونکہ انھیں فلسطینیوں کے لیے غیر حماس قیادت کے لیے ایک قابل عمل آپشن تصور کیا جاتا ہے۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Imagesعريب الرنتاوی کا خیال ہے کہ البرغوثی کی رہائی حماس کے مفاد میں ہو گی۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے فتح تحریک کی تعمیر نو، فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کی بحالی اور مفاہمت پیدا کرنے میں مدد ملے گی۔لیکن کیا مروان البرغوثی جیل میں رہ کر فلسطینی اتھارٹی چلا سکتے ہیں؟الرنتاوی کا کہنا ہے کہ ایک تجویز یہ ہے کہ البرغوثی جیل کی کوٹھڑی سے صدارت سنبھالیں گے۔ یہ سوچا جا رہا ہے کہ نائب صدر حقیقی کردار ادا کریں گے اور اس کے بعد اسرائیل پر دبائو ڈالا جائے گا کہ وہ برغوثی کو رہا کرے تاکہ وہ مؤثر طریقے سے حکومت کریں۔دوسری جانب مئیر مصری کا خیال ہے کہ البرغوثی کا جیل کے اندر سے اقتدار سنبھالنا ایک حقیقت سے دور کی تجویز ہے۔مصری کا کہنا ہے کہ اسرائیل مروان البرغوثی کو رہا کرنے کے حوالے سے دباؤ محسوس نہیں کرے گا اور وہ مواسلات تک بہت کم رسائی کی وجہ سے قید تنہائی سے حکومت کرتے ہوئے یکسر غیر موثر ہوں گے۔الرنتاوی کا خیال ہے کہ بعض دیگر فلسطینی رہنماؤں کے مقابلے میں البرغوثی ’نسبتاً اعتدال پسند‘ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی ’قومی اور متحد کرنے والی شخصیت، فلسطینی قومی تحریک کے اندر انتہاپسندانہ دھاروں سے وابستہ نہیں، وہ اکثریتی دھڑوں میں مقبول ہیں اور انھیں قبول کیا جاتا ہے۔‘فلسطینی اتھارٹی نے اس معاملے پر تبصرے کی درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}