آل پاکستان پیپر مرچنٹ ایسوسی ایشن اور پاکستان پبلشرز اینڈ بک سیلرز ایسوسی ایشن نے کہا ہے کہ سستا اور اچھا کاغذ ہمارے طلبہ کی ضرورت ہے، جبکہ کاغذ کی قیمت بہت زیادہ بڑھ گئی ہیں، چھ ماہ میں تین بار کاغذ کی قیمت بڑھائی گئی ہے جس کے سبب ہم کتابوں کی قیمتوں کا تعین ہی نہیں کر پا رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ مسئلہ پورے پاکستان کا ہے ہر سال درآمدی کاغذ پر ڈیوٹی بڑھائی جارہی ہے اس لیے ہم معیاری کاغذ کی کتابیں نہیں چھاپ پا رہے، 200 روپے کی کتاب اب 500 روپے تک پہنچ سکتی ہے۔
پاکستان میں الٹی گنگا بہہ رہی ہے، فنشنگ و پبلشنگ آئٹم پر ڈیوٹی نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ کاغذ بنانے کے خام مال جس پر ڈیوٹی نہیں ہونی چاہیے اس پر 70 فیصد ڈیوٹی ہے۔
ایسوسی ایشنز کے رہنماؤں نے یہ باتیں کراچی پریس کلب میں مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران کہیں۔ اس موقع پر معروف ماہر معاشیات قیصر بنگالی بھی موجود تھے۔
پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان پبلشرز اینڈ بک سیلرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین عزیز خالد نے کہا کہ اگر کاغذ نہیں ملا تو کتابیں کیسے چھاپیں گے۔ کاغذ کے مقامی تیار کنندگان اپنی من مانی کررہے ہیں اور اس کے معیار پر بھی سمجھوتا ہورہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ہر کتاب کا ٹائٹل پیج درآمدی کاغذ کا ہوتا ہے، یہ پیپر ڈیوٹی لگنے کے بعد اس قدر مہنگا ہے کہ ہم اسے نہیں منگواسکتے، اگر لوکل پیپر پر چھاپ دیں گے تو پھر پرنٹنگ کے معیار پر سمجھوتا کرنا پڑے گا۔
اسکی وجہ یہ ہے کہ مقامی سطح پر تیار کیا گیا کاغذ اس قابل نہیں کہ اس پر کتاب اور اس کا سرورق چھاپا جاسکے، پاکستان میں لاکھوں لوگ پرنٹنگ کی صنعت اور اس سے منسلک دیگر صنعتوں سے وابستہ ہیں۔ پرنٹنگ پریس بند ہونے سے یہ لوگ بے روزگار ہوجائیں گے۔
انہوں نے بتایا کہ ملک کے تمام بڑے شہروں کے اردو بازاروں میں ٹیکسٹ بک موجود نہیں ہیں، کیونکہ کاغذ مہنگا ہونے کے سبب کتابیں چھپ نہیں سکیں۔ اگر مسئلہ فوری حل نہ ہوا تو یکم اگست سے بازار میں درسی کتابیں موجود نہیں ہوں گی۔
آل پاکستان پیپر مرچنٹ ایسوسی ایشن کے سلیم بیکیا نے کہا کہ پاکستان میں کتابوں کے لیے منگوائے جانے والے کاغذ پر 30 فیصد ڈیوٹی دی جارہی ہے، جب اتنی ڈیوٹی اور ٹیکسز ہوں گے تو اچھا کاغذ کیسے بنائیں گے۔
درآمدی کاغذ 190 روپے کلو ہے، بھارت میں فوٹو کاپی پیپر 500 روپے کا رم اور پاکستان میں لوکل انڈسٹری یہی رم 900 روپے کا دے رہی ہے۔ ہمارے بچوں کے لیے فوٹو کاپی بک پڑھنا بھی مشکل ہونے جارہا ہے۔
سلیم بیکیا نے کہا کہ پاکستان میں 95 فیصد کاغذ لوکل ملز کا جبکہ 5 فیصد درآمدی کاغذ استعمال ہورہا ہے، تاہم سارا ٹیکس اور ڈیوٹی ہم دیتے ہیں ہماری گزارش یہ ہے کہ لوکل ملز مقابلے کا رجحان پیدا کریں اور ٹیکس نہ بچائیں۔
Comments are closed.