20 گھنٹے تک یرغمال رہنے والی 65 سالہ دادی جنھوں نے حماس کے حملہ آوروں کو چائے، بسکٹ پیش کیے
،تصویر کا ذریعہGetty Images
ریچل کے بیٹے بھی اسرائیلی پولیس کے اہلکار ہیں
ریچل ایدری نے یاد کرتے ہوئے بتایا کہ ’ایک دہشت گرد نے مجھ سے کہا آپ کی صورت مجھے اپنی ماں کی یاد دلوا رہی ہے۔‘
’میں نے اسے جواب دیا کہ میں واقعی تمہاری ماں کی طرح ہوں۔ میں تمہاری مدد کروں گی، میں تمہارا خیال رکھوں گی۔ تم بتاؤ تمہیں کس چیز کی ضرورت ہے؟‘
جواب تھا ’چائے اور بسکٹ۔‘
یہ جواب ملنے کی دیر تھی کہ 65 سالہ دادی (ریچل) نے غزہ کے قریب اسرائیلی حدود میں واقع ’آفاقم قصبے‘ میں اپنے گھر پر حملہ کرنے والے حماس کے پانچ حملہ آوروں کو پُرسکون رکھنے کے لیے بسکٹ پیش کیے۔
ریچل نے اسرائیلی میڈیا کو بتایا کہ وہ حملہ آوروں کو بات چیت میں مصروف رکھ کر صرف اتنا وقت حاصل کرنا چاہتی تھیں جس کے دوران انھیں اور ان کے شوہر کو بچانے کے لیے اسرائیلی فورسز ان کے گھر پہنچ سکیں۔
اور حملہ آوروں سے ہونے والی اُن کی اس ابتدائی بات چیت نے واقعی بہت بڑا فرق ڈالا۔
7 اکتوبر کو یہ وہ روز تھا جب حماس کے جنگجو جنوبی اسرائیل میں ریچل کے گھر کے اطراف موجود گھروں اور علاقے میں پہلے ہی درجنوں اسرائیلیوں کو ہلاک کر چکے تھے۔ اسی کارروائی کے دوران وہ ریچل کے گھر داخل ہوئے اور انھیں اور ان کے شوہر کو یرغمال بنا لیا۔
تاہم ریچل اپنے صبر اور حملہ آوروں کی مہمان نوازی کے ذریعے اپنے آپ کو اور اپنے شوہر کو بچانے میں کامیاب رہیں۔ یہ اطلاعات سامنے آنے کے بعد انھیں اسرائیل میں ایک قومی ہیرو جیسا درجہ ملا اور یہاں تک کہ 18 اکتوبر کو تل ابیب کے دورے کے دوران امریکی صدر جو بائیڈن نے بھی اُن سے ملاقات کی۔
عربی اور عبرانی گانے
،تصویر کا ذریعہReuter
صدر بائیڈن نے گلے لگا کر ریچل کا شکریہ ادا کیا تھا
ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں انھوں نے اس وقت کی تفصیلات بتائی ہیں جب بھاری ہتھیاروں سے لیس حماس کے پانچ عسکریت پسند ان کے کمرے میں موجود تھے۔
’وہ (حملہ آور) میرے گھر میں موجود تھے، اسی دوران شام کے چار بج گئے۔ میں نے سوچا کہ انھیں دوپہر کا کھانا کھانے کی ضرورت ہے، مجھے ڈر لگ رہا تھا کیونکہ جو لوگ بھوکے ہوتے ہیں وہ اپنے آپ پر قابو کھو دیتے ہیں۔‘
’جب انھوں نے کھا پی لیا تو وہ کافی پرسکون ہو گئے۔‘
لیکن چائے اور بسکٹ ہی وہ سب کچھ نہیں تھا جو ایدری نے حماس کے پانچ عسکریت پسندوں کو پیش کیا جو انھیں گذشتہ 20 گھنٹوں سے بندوق کی نوک پر رکھے ہوئے تھے۔
ریچل نے انھیں پرسکون رکھنے کے لیے عربی میں گانے بھی سنائے، اور وہ کہتی ہیں، کہ حملہ آوروں نے بھی جواباً عبرانی زبان میں گانے سنائے۔
ایدری نے اسرائیلی نیوز ویب سائٹ کو بتایا کہ ’میں نے ان سے بات چیت شروع کر دی، اور ایک موقع پر میں یہ بھی بھول گئی کہ وہ دہشت گرد ہیں۔‘
ریسکیو مشن
،تصویر کا ذریعہDowning Street
مقابلے کے بعد ریچل کے گھر کی صورتحال جہاں گولیوں کے نشان جا بجا نظر آ رہے ہیں
بلآخر اس دوران اسرائیلی پولیس کی ایک ٹیم اُن کے گھر کے باہر انھیں بچانے کی تیاری کر رہی تھی۔
تقریباً 20 گھنٹے کے بعد پولیس ٹیم گھر میں داخل ہوئی اور عسکریت پسندوں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔
ایدری کے بیٹے خود بھی پولیس اہلکار ہیں اور اس ریسکیو آپریشن میں وہ خود بھی شامل تھے۔ انھوں نے اپنے گھر کا ایک خاکہ بنا کر پولیس اہلکاروں کو دیا جس سے کافی مدد ملی۔
اسی آپریشن کے دوران چونکہ ایدری کے گھر کو بُری طرح نقصان پہنچا تھا اسی لیے ریسکیو کے بعد انھیں اور ان کے شوہر کو وسطی اسرائیل کے ایک ہوٹل میں لے جایا گیا۔
ان کی کہانی اتنی دلچسپ تھی کہ کچھ ہی وقت میں یہ دنیا بھر میں پھیلنا شروع ہو گئی۔ اور جب بدھ کو امریکی صدر جو بائیڈن نے اسرائیل کا دورہ کیا تو ان کی دیگر بچ جانے والوں کے علاوہ ریچل ایدری سے بھی ملاقات کروائی گئی۔
جب امریکی صدر نے انھیں گلے سے لگایا تو وہ دھیرے سے مسکرائیں، اور اس دوران صدر بائیڈن نے ان کا چائے، بسکٹ اور اور پُرسکون گفتگو کے ساتھ ’ملک کا دفاع‘ کرنے پر شکریہ ادا کیا۔
Comments are closed.