’19 لاکھ روپے خرچ کر کے آیا لیکن کالج میں کلاس روم ہے نہ عملہ‘ کینیڈا کے سٹوڈنٹ ویزا پر ایجنٹ کیسے فراڈ کرتے ہیں؟،تصویر کا ذریعہTRUNPAL SINGH
،تصویر کا کیپشن23 سالہ سہج پریت سنگھ کا تعلق پنجاب کے پٹیالہ ضلع سے ہے اور وہ 19 لاکھ روپے خرچ کر کے ایک ایجنٹ کی مدد سے نومبر 2023 میں سٹوڈنٹ ویزے پر کینیڈا آئے تھے

  • مصنف, سربجیت سنگھ دھالیوال
  • عہدہ, بی بی سی نامہ نگار
  • ایک گھنٹہ قبل

’میرا کینیڈا کا خواب چھ بار ٹوٹا، ساتویں بار جب میں کینیڈا پہنچا تو بھی یہ خواب اب تک نامکمل ہے۔‘ یہ الفاظ سہج پریت سنگھ کے ہیں جو ایک بین الاقوامی طالب علم کے طور پر کینیڈا آئے تھے۔دراصل سہج پریت سنگھ کا سٹوڈنٹ ویزا سفارت خانے نے چھ بار مسترد کر دیا تھا۔سہج پریت کے مطابق چندی گڑھ کے ایجنٹ نے کینیڈا میں ان کا ایک پرائیویٹ کالج میں داخلہ کرایا جس کی بنیاد پر انھیں مستقبل میں ورک پرمٹ نہیں مل سکتا۔یہ بات سہج پریت کو کینیڈا آنے کے بعد معلوم ہوئی۔ سہج پریت کے مطابق کالج اب ان کی کسی بھی طرح سے مدد کرنے کو تیار نہیں۔

سہج پریت سنگھ کا کہنا ہے کہ نہ تو ایجنٹ فون اٹھاتا ہے اور نہ ہی کالج اس معاملے میں کوئی ٹھوس جواب دے رہا ہے۔ ان کے مطابق، چندی گڑھ میں مقیم ایجنٹ نے خود ان کے کورس اور کالج کا فیصلہ کیا تھا اور انھیں ویزے کی ٹینشن نہ لینے کو کہا تھا۔جب سہج پریت کا ویزا آیا تو متعلقہ ایجنٹ نے اپنی پروموشن کے لیے ان کی ایک ویڈیو بنائی، جس میں وہ بتاتے ہیں کہ چھ بار ویزا مسترد ہونے کے بعد اس (ایجنٹ) نے انھیں کینیڈا کا ویزا کیسے دلوایا۔ یہ ویڈیو متعلقہ ایجنٹ کے سوشل میڈیا پر تاحال موجود ہے۔سہج پریت سنگھ کا دعویٰ ہے کہ ایجنٹ نے ان سے 12 لاکھ روپے لیے، جس میں کالج کی فیس کی مد میں 14,000 ڈالرز بھی شامل تھے جبکہ اس کے علاوہ جی آئی سی اور باقی اخراجات انھوں نے خود اٹھائے تھے۔سہج پریت کا کہنا ہے کہ ’ایجنٹ نے فیس کے بارے میں ان سے جھوٹ بھی بولا کیونکہ فیس 8000 ڈالر تھی اور ایجنٹ نے خود باقی رقم رکھ لی۔‘اس معاملے میں بی بی سی نے چندی گڑھ میں مقیم سہج پریت سنگھ کے ایجنٹ سے کئی بار فون پر رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن اس نے ہم سے بات نہیں کی۔23 سالہ سہج پریت سنگھ کا تعلق پنجاب کے پٹیالہ ضلع سے ہے اور وہ 19 لاکھ روپے خرچ کر کے ایک ایجنٹ کی مدد سے نومبر 2023 میں سٹوڈنٹ ویزے پر کینیڈا آئے تھے۔ وہ ہاسپیٹیلٹی اینڈ منیمجمنٹ کے دو سالہ کورس کے لیے یہاں آئے ہیں۔والدین کے اکلوتے بیٹے سہج پریت سنگھ کا کہنا ہے کہ وہ پچھلے تین ماہ میں ایک بار بھی پڑھائی کے لیے کالج نہیں گئے۔ کالج سرے میں ہے اور وہ برامپٹن میں رہتے ہیں۔سہج پریت سنگھ نے بتایا کہ ایک دن وہ کالج دیکھنے گئے لیکن وہاں جانے کے بعد کالج کی جو تصویر سامنے آئی وہ چونکا دینے والی ہے۔سہج پریت سنگھ کے مطابق وہ کالج جس عمارت میں قائم ہے اس کے اوپر پبلک پارکنگ تھی اور کالج عالیشان عمارت کی بجائے وہ صرف دو کمروں پر محیط تھا۔وہاں اندر ایک استقبالیہ تھا جس کے ساتھ دو کمرے خالی تھے۔ استقبالیہ پر دو خواتین تھیں، اس کے علاوہ نہ کوئی کلاس روم تھا اور نہ ہی کوئی عملہ۔سہج پریت سنگھ کہتے ہیں کہ ’سب کچھ آن لائن ہے، کالج جانے کی ضرورت نہیں۔ یہاں تک کہ حاضری بھی آن لائن ہیں۔‘میرے سامنے وہ اپنا لیپ ٹاپ کھول کر کالج کا پورٹل دکھاتے ہیں جس میں 97 فیصد حاضری ہوتی ہے۔پھر وہ بتاتے ہیں کہ وہ اسائنمنٹ خود نہیں بناتے بلکہ 500 روپے دے کر انڈیا سے تیار کرواتے ہیں اور پھر اس پورٹل پر اپ لوڈ کرتے ہیں۔ ہر ماہ پرچے ہوتے ہیں، جن میں سے سہج پریت نے 80 فیصد نمبر حاصل کیے، جو پورٹل پر دکھائی دے رہے تھے۔سہج پریت سنگھ بتاتے ہیں کہ ان کی کلاس میں 40 طلبا ہیں اور یہ سب انڈین ہیں جن میں اکثریت کا تعلق پنجاب اور ہریانہ سے ہے۔

،تصویر کا کیپشنسمرن جیت کور کا کہنا ہے کہ انھوں نے یونیورسٹی میں سکالر شپ بھی حاصل کی تھی لیکن ایک مضمون میں فیل ہونے پر وہ پریشان ہو گئیں
انھوں نے کہا کہ تین ماہ کے دوران انھیں کلاس میں انگریزی بولنے کی ضرورت نہیں تھی بلکہ تمام گفتگو ہندی اور پنجابی میں ہوتی تھی۔سہج پریت سنگھ کا دعویٰ ہے کہ ان کا آئلٹس سکور 10 میں سے چھ تھا۔میرے سامنے، سہج پریت فون پر اپنی کلاس لیتے ہیں، مائیک بند کرتے ہیں اور اپنا کام کرنے لگتے ہیں۔ وہ فی الحال ایک کار ورکشاپ میں کام کرتے ہیں اور یہاں سے آن لائن پڑھتے ہیں۔بی بی سی کی ٹیم نے سہج پریت سنگھ کے ساتھ تقریباً دو گھنٹے گزارے اور اس دوران آن لائن کلاس چلتی رہی، استاد لیکچر دیتے رہتے ہیں اور آخر میں شکریہ کہہ کر چلے جاتے ہیں۔دریں اثنا، سہج پریت سنگھ کچھ علم نہیں کہ استاد نے کیا سکھایا اور نہ ہی انھوں نے ایک لفظ سننے کی زحمت کی۔ وہ صرف آن لائن کالز کی بنیاد پر حاضری لگاتے ہیں۔سہج پریت سنگھ نے کہا کہ یہاں تعلیم صرف نام کی ہے، استاد سے ملنے کا معاملہ تو دوسری طرف انھوں نے اب تک کوئی پریکٹیکل بھی نہیں کیا۔سہج پریت سنگھ کی ہفتے میں تین دن آن لائن کلاسز ہوتی ہیں۔

سہج پریت کے ساتھ دھوکے کا ذمہ دار کون؟

سہج پریت سنگھ کا کہنا ہے کہ ایجنٹ اور کالج دونوں نے انھیں دھوکہ دیا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس کے باوجود وہ کسی کے خلاف کارروائی نہیں کرنا چاہتے۔اس بارے میں ان کا کہنا ہے کہ ان کا مقصد کسی بھی طریقے سے کینیڈا آنا تھا۔ وہ فی الحال اس بارے میں غیر یقینی کا شکار ہیں کہ کینیڈا میں ان کا مستقبل کیا ہو گا۔ان کا کہنا ہے کہ ان کی کوشش ہے کہ وہ کسی اور کالج میں داخلہ لیں جہاں وہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد کینیڈا میں ورک پرمٹ حاصل کر سکیں۔پیسے اور ایک سال کے ضیاع کے بارے میں سہج پریت کا کہنا ہے کہ ’کینیڈا جانے کا بھوت اتنا شدید تھا کہ میں کسی بھی طریقے سے یہاں پہنچنا چاہتا تھا، دوستوں اور دوسرے جاننے والوں نے بہت سمجھایا تھا کہ کینیڈا نہ آؤ لیکن میں نے ان کی ایک نہ سنی اب یہاں آ کر دیکھا تو حقیقت کچھ اور نکلی۔‘

،تصویر کا کیپشنسمن رائے ستمبر 2023 میں اپنی اہلیہ کے ساتھ سٹوڈنٹ ویزا پر کینیڈا آئے تھے اور ان کا تعلق نیپال سے ہے

سمن رائے کی نیپال میں جدوجہد کی کہانی

سمن رائے ستمبر 2023 میں اپنی اہلیہ کے ساتھ سٹوڈنٹ ویزا پر کینیڈا آئے تھے اور ان کا تعلق نیپال سے ہے۔کینیڈا میں نیپالی طلبا کی تعداد گذشتہ چند سال میں تین گنا بڑھ گئی ہے۔ سمن رائے ہمیں اپنے گھر بھی لے گئے جہاں وہ نیپالی نژاد دیگر طلبا کے ساتھ رہ رہے تھے۔زمین پر پانچ گدے تھے۔ گھر اور باورچی خانے میں بکھرا سامان ان کے معیار زندگی کی نشاندہی کرنے کے لیے کافی تھا۔کینیڈا میں تعلیم کے بارے میں بات کرتے ہوئے سمن رائے کا کہنا ہے کہ ان کی کلاس میں 95 فیصد انڈین طلبا ہیں اور یہاں کے پرائیویٹ کالجوں میں تعلیم کا معیار اتنا اچھا نہیں۔کینیڈا کی موجودہ صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے سمن رائے کہتے ہیں کہ ’میں نے یہاں آنے کا فیصلہ بہت جلد بازی میں کیا۔‘مستقبل کے بارے میں سوچتے ہوئے سمن رائے کا کہنا ہے کہ انھیں فی الحال اس بارے میں کچھ سمجھ نہیں آ رہا، اس وقت ملک کے حالات بہت اچھے نہیں۔انھوں نے کہا کہ اس وقت کینیڈا میں رہنے کے لیے نوکریاں نہ ملنا، رہائش اور بڑھتی ہوئی مہنگائی سب سے بڑے مسائل ہیں۔سمن رائے کا کہنا ہے کہ ’وہاں ایجنٹوں کی بھی بہت زیادہ آمد ہے جس کی وجہ سے ماضی میں نیپالی طالب علم بڑی تعداد میں کینیڈا آئے ہیں۔‘ان کا کہنا ہے کہ کینیڈا آنے سے پہلے یہاں کے حالات کے بارے میں معلومات حاصل کرنا ضروری ہے، ایجنٹوں کی باتوں پر آنکھیں بند کرکے یقین نہ کریں کیونکہ ان کا کام پیسہ کمانا ہے۔،تصویر کا ذریعہTRUNPAL SINGH

،تصویر کا کیپشندیپ کے مطابق پہلے اور موجودہ حالات میں بڑا فرق ہے

ماضی کے مقابلے موجودہ صورتحال میں فرق؟

دیپ ہزارہ، جو برامپٹن میں اپنا کاروبار چلاتے ہیں، تقریباً 12 سال قبل ایک بین الاقوامی طالب علم کے طور پر کینیڈا آئے تھے۔ دیپ کے مطابق پہلے اور موجودہ حالات میں بڑا فرق ہے۔ اس سے قبل زیادہ تر طلبا گریجویشن کے بعد کینیڈا آتے تھے اور اچھے کالجوں میں داخلہ لیتے تھے۔دیپ ہزارہ نے اپنی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ان کے کالج کا کیمپس بہت بڑا تھا اور اساتذہ باقاعدگی سے آتے تھے لیکن اب یہ کام صرف آن لائن کلاسز سے شروع ہوا۔دیپ کے مطابق گزشتہ چند سال سے جب کینیڈا نے آؤٹ کلاس کے بعد ڈپلومہ کورسز کا پروگرام شروع کیا تو یہاں پر فوری طور پر بین الاقوامی طلبا کا رش لگ گیا۔انھوں نے کہا کہ طلبا کا بہت زیادہ استحصال کیا جا رہا ہے۔ پہلے استحصال انڈیا میں کچھ ایجنٹ کرتے ہیں پھر یہاں کچھ پرائیویٹ کالج آتے ہیں اور اس کے بعد کبھی ہوٹل یا فیکٹری والے، جہاں وہ کام کرتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ پچھلے سال ویزے پر کینیڈا آنے والے کئی انڈین طلبا کو پنجاب کے ایک ایجنٹ نے کینیڈا کے کالجوں کے جعلی آفر لیٹرز کے نام پر دھوکہ دیا۔ٹورنٹو میں طلبا نے کئی دن تک احتجاج کیا جس کے بعد کینیڈین بارڈر ایجنسی نے سینکڑوں طلبا کو جعلی دستاویزات پر داخلہ لینے کے بعد ملک بدر کرنے سے روک دیا۔بعد ازاں کینیڈا کی پولیس نے وہاں سے ایک مبینہ ٹریول ایجنٹ ورجیش مشرا کو گرفتار کیا، جس پر ان طلبہ کو جعلی دستاویزات فراہم کرنے کا الزام تھا، جس کے بعد وہ کینیڈا کے سٹوڈنٹ ویزا پر پہنچے تھے۔اس وقت کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹرڈو نے پارلیمنٹ میں اس معاملے پر بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہمارا مقصد فراڈ کے شکار افراد کو سزا دینا نہیں بلکہ مجرموں کی نشاندہی کرنا ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے

یونیورسٹیوں اور کالجوں کا استحصال

اس سال جنوری کے مہینے میں کینیڈا کی الگوما یونیورسٹی کے برامپٹن کیمپس میں کھلبلی مچ گئی تھی۔تقریباً 130 بین الاقوامی طلبا جن میں زیادہ تر پنجابی اور گجراتی تھے، ایک مضمون میں فیل ہو گئے۔ اس کے بعد طلبا نے سخت سردی میں یونیورسٹی کے باہر کئی دن اور راتوں تک دھرنا دیا۔طلبہ کا الزام تھا کہ ایک استاد نے جان بوجھ کر اتنی بڑی تعداد میں طلبہ کو فیل کیا۔ان مظاہرین میں ایک سمرن جیت کور بھی تھی۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سمرن جیت کور نے کہا کہ وہ مئی 2022 میں دو سال تک ہیومن ریسورس اور بزنس مینجمنٹ کی تعلیم حاصل کرنے کینیڈا آئی تھیں۔ان کے انڈین ایجنٹ نے انھیں ایک نجی ادارے الگوما یونیورسٹی میں داخلہ لینے کا مشورہ دیا۔سمرن جیت کور کہتی ہیں کہ ’یونیورسٹی میں زیادہ تر بین الاقوامی طلبا انڈین نژاد ہیں۔ یونیورسٹی میں صرف کینیڈا کے مقامی طلبا ہی نہیں۔‘اصل میں اتراکھنڈ کے ہریدوار سے تعلق رکھنے والی سمرن جیت کور کا کہنا ہے کہ انھوں نے یونیورسٹی میں سکالر شپ بھی حاصل کی تھی لیکن اس سال جنوری میں ایک مضمون میں فیل ہونے پر وہ پریشان ہو گئیں۔ان کا کہنا تھا کہ ’جب ہم نے متعلقہ مضمون کے پروفیسر سے بات کرنے کی کوشش کی تو انھوں نے کسی سے ملنے سے انکار کر دیا، اس کے بعد ہم نے یونیورسٹی کے ڈین سے رابطہ کیا لیکن کوئی جواب نہیں ملا جس کے بعد ہمیں احتجاج کرنے پر مجبور کیا گیا۔‘وہ کہتی ہیں کہ ’احتجاج کے بعد طلبا کے مطالبات مان لیے گئے، ان میں سے کچھ کو پاس کر دیا گیا اور کچھ کو دوسرا موقع دیا گیا۔‘،تصویر کا ذریعہTRINPAL SINGH

کینیڈا میں طلبہ تنظیموں کا وجود

کینیڈا میں بین الاقوامی طلبہ کے استحصال کے خلاف آواز اٹھانے کے لیے ماضی میں کئی طلبہ تنظیمیں تشکیل دی گئی ہیں۔ ان میں سے ایک یوتھ سپورٹ نیٹ ورک ہے جسے دو سال قبل قائم کیا گیا۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس تنظیم کے رکن بکرم جیت سنگھ نے کہا کہ ان کی تنظیم سوشل میڈیا کے ذریعے کام کرتی ہے اور کینیڈا میں رجسٹرڈ نہیں۔بکرم جیت سنگھ نے کہا کہ ابتدائی طور پر انھیں ہوٹلوں، بیکری مالکان کی جانب سے بین الاقوامی طلبہ کے استحصال کی شکایات موصول ہوئی تھیں جن میں سے اکثر کو کامیابی سے حل کر لیا گیا تھا۔پنجاب کے ضلع ہوشیار پور سے تعلق رکھنے والے بکرم جیت سنگھ کا کہنا ہے کہ جب تنظیم کو کسی بین الاقوامی طالب علم کے استحصال کی کوئی شکایت ملتی ہے تو اس کی چھان بین کی جاتی ہے اور ثبوت ملنے کے بعد متعلقہ شخص کو نوٹس بھیجا جاتا ہے اور اپنا موقف پیش کرنے کے لیے 15 دن کا وقت دیا جاتا ہے۔بکرم جیت سنگھ کے مطابق اگر وہ نہیں مانتے تو ان کے گھر یا کام کی جگہ پر عوامی مقام پر کھڑے ہو کر احتجاج کیا جاتا ہے۔تنظیم کے ٹوئٹر ہینڈل کو دیکھا جائے تو ایسے مظاہروں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’ہم طلبہ کو ساتھ لاتے ہیں اور انھیں حقوق سے آگاہ کرتے ہیں۔‘یہ تنظیم طلبہ کی ملک بدری کو روکنے اور الگوما یونیورسٹی انتظامیہ کے خلاف ہونے والے مظاہرے میں کافی سرگرم رہی ہے۔بکرم جیت سنگھ نے کہا کہ ذہنی استحصال کے علاوہ بین الاقوامی طلبہ کو اس وقت کینیڈا میں کئی دیگر مسائل کا بھی سامنا ہے اور ان کی تنظیم کو ایسی شکایات کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔بکرم جیت سنگھ کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی طلبا اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے خلاف قانونی کارروائی کیوں نہیں کرتے۔ ’یہ عمل بہت طویل ہے اور کینیڈا جیسے ملک میں کسی کے پاس وقت نہیں۔‘انڈیا کی مرکزی اور ریاستی حکومتیں حالیہ برسوں میں طالب علموں کے ساتھ دھوکہ دہی کے کئی واقعات کے بعد وقتاً فوقتاً بیداری مہم چلاتی رہی ہیں۔2022 میں کینیڈا میں انڈین ہائی کمیشن نے بھی ایک ایڈوائزری جاری کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ فیس ادا کرنے سے پہلے تعلیمی اداروں کا صحیح طریقے سے معائنہ کیا جائے۔

کینیڈا کے تعلیمی اداروں میں ہیرا پھیری

گذشتہ سال اکتوبر میں کینیڈا کے امیگریشن منسٹر مارک ملر نے بھی اعتراف کیا تھا کہ یہاں بین الاقوامی طلبہ دھوکہ دہی کا شکار ہوئے ہیں۔اس کے بعد ان بین الاقوامی طلبہ کو اس طرح کے فراڈ سے بچانے کے لیے، کالجوں، یونیورسٹیوں سے موصول ہونے والے قبولیت خط کے لیے آئی آر سی سی سے منظوری لینا لازمی قرار دیا گیا۔اس کے علاوہ وزیر امیگریشن نے تسلیم شدہ تعلیمی اداروں کو بھی ایک مخصوص فریم ورک بنانے کا حکم دیا۔کینیڈا کی حکومت نے بھی اعتراف کیا کہ پچھلے کچھ سال میں بہت سے تعلیمی اداروں نے پیسہ کمانے کی نیت سے ضرورت سے زیادہ غیر ملکی طلبہ کو داخلہ دیا۔حکومت کا کہنا ہے کہ فیسوں کی وصولی کے تناظر میں کچھ تعلیمی اداروں نے ماضی میں ان کی تعداد میں اضافہ کیا۔کینیڈا میں بین الاقوامی طلبا کو درپیش مسائل اور ملک کے بنیادی ڈھانچے پر پڑنے والے بوجھ کے پیش نظر رواں سال جنوری سے دو سال کے لیے غیر ملکی طلبا کی تعداد میں 35 فیصد کمی کا اعلان کیا گیا۔کینیڈا کی حکومت نے سال 2024 کے لیے تقریباً 3,60,000 طلبا کو اجازت نامے دینے کا ہدف مقرر کیا، جس کا مقصد بین الاقوامی طلبہ کی آبادی کو کم کرنا اور اسے مستحکم رکھنا ہے۔اس کے علاوہ حکومت نے ایک اور بڑی تبدیلی کی ہے۔ ستمبر سے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت چلنے والے کالجوں سے فارغ التحصیل طلبا کو ورک پرمٹ نہیں دیا جائے گا۔سہج پریت سنگھ جس کالج کی بات کر رہے ہیں وہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت آتا ہے۔یاد رکھیں کہ کینیڈا میں تعلیم صوبائی حکومت کے تحت آتی ہے، وفاقی حکومت کے نہیں۔اس کے بعد کینیڈا کی برٹش کولمبیا حکومت نے نئی یونیورسٹیوں، کالجوں اور دیگر اداروں میں بین الاقوامی طلبہ کے نئے داخلوں پر دو سال کے لیے پابندیاں عائد کر دی ہیں۔برٹش کولمبیا کی حکومت نے یہ قدم تعلیمی شعبے میں اداروں کی جانب سے کیے جانے والے گھپلوں کے پیش نظر اٹھایا ہے۔ریاست کی پوسٹ سیکنڈری ایجوکیشن منسٹر سیلینا رابنسن نے تسلیم کیا کہ ان کے محکمے نے گزشتہ مارچ میں ریاست کے نظام کا جائزہ لینا شروع کیا تھا اور اس میں پایا گیا تھا کہ ’غیر معیاری تعلیم، اساتذہ کی کمی‘ اور یہاں تک کہ کچھ نجی ادارے طلبہ کو واپس بھیج رہے ہیں۔ سی بی سی کے مطابق برٹش کولمبیا میں 150 سے زائد ممالک کے 1,75,000 بین الاقوامی پوسٹ سیکنڈری طلبہ میں سے تقریباً 54 فیصد نجی اداروں میں داخل ہیں۔ریاست میں ان میں سے 280 پرائیویٹ سکول ہیں اور ان میں سے 80 فیصد لوئر مین لینڈ میں ہیں، یعنی کم آبادی۔،تصویر کا ذریعہGetty Images

ماہرین کی رائے

برامپٹن میں وکیل ہرمیندر ڈھلوں کا کہنا ہے کہ ماضی میں ایسے کالج تھے جہاں ڈگریوں کی کوئی اہمیت نہیں تھی اور ان کی بنیاد پر کوئی نوکری نہیں مل سکتی تھی۔ہرمیندر کے مطابق ’شاپنگ مالز میں بہت سے کالج چل رہے ہیں۔ بہت سے کالج صرف ایک کمرے سے چل رہے ہیں۔ طلبا کو ان کے لیے بھی ویزے مل گئے۔‘ہرمندر کے مطابق ایجنٹوں اور کالجوں کے فراڈ کا شکار ہونے والے طلبہ کو کینیڈا چھوڑنا پڑ سکتا ہے اور ان کی تعداد بہت زیادہ ہو سکتی ہے۔انھوں نے کہا کہ کینیڈا سٹوڈنٹ ویزا پر آنے والے بین الاقوامی طلبہ کو شہریت کی کوئی ضمانت نہیں دیتا۔حکومتی قوانین کے مطابق اگر آپ تمام شرائط پوری کرتے ہیں تو ہی آپ پی آر کے لیے درخواست دے سکتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ’کینیڈا کو ہنرمند کارکنوں کی ضرورت ہے لیکن بین الاقوامی طلبا کی آمد کے باوجود یہ کمی پوری نہیں ہو رہی کیونکہ طلبا اپنی تعلیم کے بعد دوسری نوکریاں کرنا شروع کر دیتے ہیں۔‘دوسری جانب ٹورنٹو میں بطور صحافی کام کرنے والے جسویر سنگھ کا کہنا ہے کہ یہاں بین الاقوامی طلبا کے استحصال کی وجہ یہ ہے کہ انھیں کینیڈا کے قانون کا علم نہیں ہوتا۔ ’بین الاقوامی طلبا شکایت کرنے سے ڈرتے ہیں کیونکہ انھیں لگتا ہے کہ انھیں واپس بھیجا جا سکتا ہے۔‘ان کا کہنا ہے کہ انڈیا میں والدین کو نہیں معلوم کہ ان کے بیٹے اور بیٹیاں کتنی مشکل میں ہیں اور اگر انھیں حقیقت کا علم ہو جائے تو وہ انھیں کبھی نہ بھیجیں۔انھوں نے کہا کہ طلبا کے کینیڈا پہنچتے ہی ان کا استحصال شروع ہو جاتا ہے، جیسے لیبر مارکیٹ امپیکٹ اسیسمنٹ (ایل یم آئی اے) کے لیے طلبہ سے ہزاروں ڈالر تک وصول کیے جاتے ہیں۔ یہ ایسی دستاویز ہے جسے کینیڈا میں بطور غیر ملکی کام کرنے کے لیے آجر کو جمع کرایا جاتا ہے۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}