سپریم کورٹ آف پاکستان میں ریویو آف ججمنٹ اینڈ آرڈرز قانون کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے ریمارکس میں کہا ہے کہ ہم 184/3 کے خلاف کسی بھی ریمیڈی کو ویلکم کریں گے۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ سماعت کر رہا ہے، جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر اس بینچ کا حصہ ہیں۔
سماعت شروع ہوئی تو الیکشن کمیشن کے وکیل نے استدعا کی کہ مجھے 10 منٹ دیں، میں دلائل دینا چاہتا ہوں۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے کہا کہ ہم تو آپ کا کیس سن ہی نہیں رہے، اٹارنی جنرل کے بعد آپ کو سن لیتے ہیں۔
اٹارنی جنرل پاکستان منصور عثمان اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جب ہائی کورٹ کسی کیس کا فیصلہ کرتی ہے تو انٹرا کورٹ سمیت دیگر اپیل کے فورمز موجود ہیں، ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے بھی رجوع کیا جاتا ہے، جب سپریم کورٹ آرٹیکل 184/3 کے تحت کوئی کیس سنتی ہے تو یہ پہلا عدالتی فورم ہوتا ہے، آئین کے تحت ریاست کے تینوں ستونوں کے امور متعین ہیں، قانون ساز عہدِ حاضر کو سامنے رکھ کر قانون سازی کرتے ہیں، ریویو آف ججمنٹ اینڈ آرڈرز ایکٹ کے تحت آرٹیکل 184/3 کے فیصلے کے خلاف اپیل 5 رکنی بینچ سنے گا، اس 5 رکنی بینچ میں وہ 3 ججز بھی شامل ہوں گے جنہوں نے پہلے فیصلہ دیا ہو گا، جسٹس منیب اختر نے گزشتہ روز آبزرویشن دی کہ 184/3 کو دیگر کیسز سے الگ کیوں کر دیا، ہائی کورٹ کے کئی فیصلوں کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل اور سپریم کورٹ سے بھی اپیل کا حق ہوتا ہے، آرٹیکل 184/3 میں نظرِ ثانی کا دائرہ کار وسیع ہوتا ہے، آئین کے تحت ریاست کے تینوں ستونوں کے امور کو متعین کر دیا گیا ہے، سیکشن 3 میں کہیں نہیں لکھا کہ 5 رکنی لارجر بینچ میں مرکزی کیس کے بینچ کے ججز شامل نہیں ہوں گے، قانون آج کے تقاضوں کے مطابق بنایا جاتا ہے۔
اس موقع پر چیف جسٹس کچھ کہنے لگے تو جسٹس اعجازالاحسن نے اٹارنی جنرل کو دلائل جاری رکھنے کا کہہ دیا۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ عدالت آرڈر 26 تک خود کو محدود نہیں کرتی، آرٹیکل 188 نظرِ ثانی کے دائرہ کار کو محدود نہیں کرتا۔
اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل میں بھارتی سپریم کورٹ کا 2002ء کے کیوریٹیو ریویو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انصاف کی فراہمی کے لیے بھارتی سپریم کورٹ نے دوسری نظرِ ثانی کی اجازت دی۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ جی بالکل لیکن وہ محدود اختیار کے تحت دی گئی۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 188 سپریم کورٹ کے اختیارات کو محدود نہیں کرتا، اس آرٹیکل کے تحت سپریم کورٹ اپنے اختیارات کو وسیع کر سکتی ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ بھارتی سپریم کورٹ کے جس کیس کا حوالہ دے رہے ہیں اس میں نظرِ ثانی اور اپیل کا فرق برقرار رکھا گیا تھا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ الیکشن ٹریبونلز اور مسابقتی ٹریبونلز کے فیصلوں کے خلاف اپیلیں براہِ راست سپریم کورٹ آتی ہیں، سنگین غداری کیس کے فیصلے کے خلاف اپیل بھی سپریم کورٹ آ سکتی ہے، آرٹیکل 185 کے تحت ہائی کورٹ کے فیصلوں کے خلاف اپیل سپریم کورٹ میں دائر کی جا سکتی ہے، سپریم کورٹ اپنے اختیارات کو توسیع دے سکتی ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ کے دلائل آپ کی اپنی کہی باتوں سے متصادم نظر آتے ہیں، نظرِ ثانی تو نظرِ ثانی ہی رہتی ہے، اسے اپیل کا درجہ تو پھر بھی حاصل نہیں، ان تمام قوانین میں فیصلے کے خلاف اپیل کا ذکر ہے، یہاں اس قانون میں آپ نظرِ ثانی کو اپیل بنانے کی بات کر رہے ہیں، اپیل اور نظرِ ثانی میں زیرِ غور معاملہ الگ الگ ہوتا ہے، فیصلے کے خلاف اپیل کا حق دینا الگ چیز ہے، نظرِ ثانی کا دائرہ اختیار الگ ہے، سمجھنا چاہتا ہوں آپ کا پوائنٹ کیا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے کہا کہ ہمارے سامنے ایک مکمل انصاف کا ٹیسٹ ہے اور بھارتی قانون میں بھی یہی ہے، اپیل میں کیس کو دوبارہ سنا جاتا ہے، ہمیں اس مسئلے کو حل کرنا چاہیے، ہم 184/3 کے خلاف کسی بھی ریمیڈی کو ویلکم کریں گے، اگر اسے احتیاط کے ساتھ کیا جائے، سوال یہ ہے کہ نظرِ ثانی کس بنیاد پر ہونی چاہیے؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ نظرِ ثانی کے لیے بننے والے لارجر بینچ میں پہلے فیصلہ دینے والے جج بھی شامل ہو سکتے ہیں۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ آپ مزید کتنا وقت لیں گے؟
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ اگلی سماعت میں دلائل مکمل کرنے کے لیے 45 منٹ لوں گا، آئندہ سماعت پر نظرِ ثانی کے اسکوپ پر دلائل دوں گا۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ جو بنیادی سوال ہے اس پر بھی ہم آگے نہیں بڑھ رہے۔
اس کےساتھ ہی عدالتِ عظمیٰ نے مزید سماعت پیر تک کے لیے ملتوی کر دی۔
Comments are closed.