18 سالہ طالبہ جنھیں ’50 کالجوں سے 13 لاکھ ڈالرز کے سکالر شپس کی آفرز‘ ہوئیں: مگر یہ ممکن کیسے ہوا؟

Daya Brown

،تصویر کا ذریعہDaya Brown

،تصویر کا کیپشن

کالج کی فیس ادا کرنا ان کے لیے کبھی بھی ممکن نہیں تھا

دنیا بھر میں ہائی سکول کے لاکھوں طالب علموں کی طرح جارجیا کے شہر اٹلانٹا کے ویسٹ لیک ہائی سکول سے تعلق رکھنے والی دیا براؤن بھی عالمی وبا کے دوران گھر میں رہ کر آن لائن کلاسیں لے رہی تھیں۔

لیکن پھر انھوں نے ان کالجوں کی ایک فہرست بنانے کا فیصلہ کیا جن میں وہ داخلہ لینا چاہتی ہیں۔

براؤن نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں نے خود سے کہا: چلو نیٹ فلکس کو بند کر دیتے ہیں اور مستقبل کی منصوبہ بندی شروع کرتے ہیں کہ ہمیں کیا کرنے کی ضرورت ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ہائی سکول میں صحافت، شاعری اور مباحثے سے محبت کی وجہ سے وہ غیر نصابی سرگرمیوں میں شامل رہتی تھیں جس کی وجہ سے انھیں جلد منصوبہ بندی شروع کرنے میں مدد ملی۔

’اس نے مجھے اپنی جڑیں مضبوط رکھنے اور یہ سوچنے میں مدد کی: دنیا رُک رہی ہے، لیکن آپ کے پاس اب بھی ایک مستقبل ہے۔‘

ممکنہ یونیورسٹیوں کی فہرست بنانے کے ساتھ ساتھ، وہ سکالرشپ کی تلاش اور درخواستیں بھی دے رہی تھیں۔

براؤن کا کہنا تھا کہ ’کالج کی فیس ادا کرنا میرے لیے کبھی بھی ممکن نہیں تھا۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ وہ اپنے والدین کی یہ فکر بھی دور کرنا چاہتی تھیں کہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے وہ ان کے اخراجات برداشت کریں۔

انتظار کا کھیل

Daya Brown at Westlake High School in Atlanta Georgia at the Senior Awards Ceremony

،تصویر کا ذریعہDaya Brown

،تصویر کا کیپشن

دیا اپنے خاندان والوں کے ساتھ

چار مہینے کے بعد، ان کو یونیورسٹیوں کی جانب سے قبولیت کے خطوط موصول ہونے لگے۔

براؤن کا کہنا تھا کہ ’50 سے زائد کالجوں میں ان کے داخلے کی درخواستیں منظور ہو گئیں جن میں مختلف سکالرشپس کی مد میں 13 لاکھ ڈالرز شامل تھے۔‘

لیکن جب انھیں اپنی پسندیدہ یونیورسٹی کی طرف سے ایک خط موصول ہوا تو ان کو یہ سب آفرز واپس کرنا پڑیں۔

’میں نے 70 سے زیادہ سکولوں میں درخواست دی تھی، لیکن ڈیوک یونیورسٹی میں ابتدائی داخلے کے بعد مجھے بہت سے سکولوں کی جانب سے کی گئی آفرز سے دستبردار ہونا پڑا۔‘

آخر میں، 18سالہ لڑکی نے ڈیوک یونیورسٹی کی جانب سے ایک سال کی مالی امداد کی سکالرشپ قبول کی جہاں وہ موسم خزاں 2023 میں بصری اور میڈیا سٹڈیز میں اپنے پہلے سال کا آغاز کریں گی۔

وہ گیٹس سکالرشپ کی فائنالسٹ بھی ہیں جو موسم گرما میں امریکہ میں اقلیتی ہائی اسکول کے 300 نمایاں طالب علموں کو دیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ ذاتی طور پر میرے لیے بہت اہم ہے کیونکہ یہ ملک کی سب سے بڑی سکالرشپس میں سے ایک ہے اور یہ وہ جگہ ہے جہاں وہ آپ کے چار سالہ ٹیوشن کے لیے ادائیگی کرتے ہیں۔‘

تو، اتنی بڑی تعداد میں سکالرشپ کے لیے درخواست دینے کے بارے میں سب سے مشکل حصہ کیا ہے؟

حیرت انگیز طور پر براؤن کے لیے یہ مشکل کام فارم بھرنا نہیں تھا۔

انھوں نے کہا ’مجھے لگتا ہے کہ یہ انتظار کا کھیل ہے، یہ یقینی طور پر سب سے مشکل تھا. لیکن اس نے مجھے صبر کرنا سکھایا۔‘

اب براؤن دوسرے طالب علموں کو ان کے تعلیمی اہداف تک پہنچنے میں مدد کرنا چاہتی ہیں۔

انھوں نے کہا، ’مجھے امید ہے کہ میں دیگر خواتین اور دیگر اقلیتی طالب علموں کے لیے یہ کہنے کے لیے مثال بنوں گی کہ اگر میں یہ کر سکتی ہوں تو وہ بھی یہ کر سکتے ہیں۔‘

Silhouette of Two College Graduates Climbing Steps

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

دیا نے ان تین باتوں کی نشاندہی کی ہے جن سے انھیں داخلہ حاصل کرنے میں مدد ملی

یہ بھی پڑھیے

چند مفید مشورے

براؤن تین چیزوں کا مشورہ دیتی ہیں جو ان کے لیے درخواست دیتے وقت مددگار ثابت ہوئیں۔

  • مدد طلب کریں: ان کا کہنا ہے کہ ’سرپرستوں اور کیریئر کوچز سے بات کریں۔ طلبا اپنے پاس دستیاب وسائل کے بارے میں پوچھنے سے ڈرتے ہیں لیکن سکولوں میں لوگ موجود ہیں اور ان کا واحد کام آپ کی مدد کرنا ہے۔‘
  • منظم رہیں: ’یہ ایک بہت ہی زبردست، مشکل، افراتفری کا عمل ہو سکتا ہے۔ ایک پلیٹ فارم بنائیں جہاں آپ اپنی تمام درخواستوں کی فہرست بنا سکیں۔‘ ’یہاں تک کہ آپ ان ہی مضامین کو دوبارہ استعمال کر سکتے ہیں اور اسے اس کالج میں ایڈجسٹ کر سکتے ہیں جس میں آپ درخواست دے رہے ہیں۔‘
  • اپنے آپ کو قابل قبول بنانے کے لیے غیر نصابی سرگرمیوں کا استعمال کریں: ’غیر نصابی سرگرمیاں اس کہانی کو پینٹ کرنے میں مدد کرتی ہیں کہ آپ کالج کے بعد کیا کریں گے۔‘ ’اس کے علاوہ اپنی سرگرمیوں کا استعمال اس بارے میں مزید جاننے کے لیے کریں کہ آپ کون ہیں اور آپ کیا کرنا چاہتے ہیں۔‘

جیسے ہی براؤن کالج شروع کرنے کے لیے تیار ہوتی ہیں، وہ فارغ نہیں بیٹھیں گی۔

وہ فی الحال اپنی پروڈکشن کمپنی پر کام کر رہی ہے جسے وہ ہائی سکول میں رہتے ہوئے بنانے میں کامیاب رہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ان کی کمپنی کا مقصد نوجوانوں اور نوجوانوں کی تخلیق کردہ شاعری، موسیقی، آرٹ اور فلم کو فروغ دینا ہے۔

’کبھی کبھی آپ اپنے آپ سے پوچھتے ہیں: میں یہ کیوں کر رہا ہوں؟ لیکن یاد دہانی یہ ہے کہ ارے، آپ لوگوں کی زندگیوں کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اور آپ کو اس کے لیے محنت کرتے رہنا ہو گا۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ