14 سالہ عبادہ کا انگلینڈ جانے کے لیے موت کا سفر: ’اُس نے بتایا کہ اس کے والدین اسے ایسا کرنے پر مجبور کر رہے ہیں‘
- مصنف, اینڈریو ہارڈنگ
- عہدہ, بی بی سی نیوز
- 47 منٹ قبل
جس رات 14 سالہ عبادہ عبد ربوہ ڈوبا تھا اسے خود پر بھروسہ نہیں تھا اور وہ شکوک شبہات میں مبتلا تھا۔جب وہ برفیلی لہروں کی جانب گھپ اندھیرے میں ہاتھ پاؤں مار رہا تھا تو وہ اپنے ساتھ چینل عبور کرنے والوں سے کہتا رہا کہ ’میں تیر نہیں سکتا۔‘لیکن عبادہ کے بڑے بھائی 24 سالہ ایسر نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا تھا۔نو ماہ قبل شام چھوڑنے کے بعد سے یہ تیسرا موقع تھا جب وہ سمندر کی طرف روانہ ہوئے تھے اور ہر بار عبادہ یہی کہتا رہتا تھا کہ وہ خوفزدہ ہے، اسے تیرنا نہیں آتا اور یہ کہ وہ اس سفر کے بارے میں مطمئن نہیں ہے۔
عبادہ اور ایسر ان پانچ لوگوں میں شامل تھے جو اس رات شمالی فرانس کے ساحل سمندر پر ساحل سے چند میٹر کے فاصلے پر ڈوب گئے تھے۔ یہ لوگ نئے سال کی پندرہویں شب ایک چھوٹی کشتی میں برطانیہ جانے کی کوشش کے دوران ہلاک ہونے والے پہلے چند افراد میں شامل تھے۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے کہ ایک بچے کو اس قسم کی صورت حال میں کیونکر اور کس طرح ڈالا جا سکتا ہے بی بی سی نے شام سے عبادہ کے سفر کو دوبارہ ترتیب دیا ہے۔ اس کے لیے ہم نے عبادہ کے رشتہ داروں اور ان کے ساتھ آنے والے دیگر افراد کے ویڈیوز، پیغامات اور انٹرویوز کا استعمال کیا ہے۔ ہمارا مقصد ہر مرحلے میں شامل پریشان کن فیصلوں کو تلاش کرنا تھا۔ہم نے اس غیر معمولی دباؤ سے پردہ اٹھایا ہے کہ کس طرح کچھ بچوں پر والدین، رشتہ داروں اور سمگلروں کی طرف سے دباؤ ڈالا جاتا ہے۔ اور اسی تلاش میں ہمیں برطانیہ پہنچنے کی چاہ رکھنے والے ان لوگوں کے مقاصد اور حکمت عملیوں کے بارے میں ایک وسیع کہانی ملی اور ان رکاوٹوں کے اثرات بھی ہم پر کھلے جو برطانوی اور دیگر حکومتوں نے ایسی تمام کوششوں کو روکنے کے لیے متعارف کرائی ہیں۔
عبادہ کی حوصلہ افزائی
پچھلے مہینوں کے دوران برطانیہ پہنچنے کی تاک میں لگے لوگ عبادہ کی حوصلہ افزائی کر رہے تھے اور اسے تیار کر رہے تھے۔ ان لوگوں میں سے تقریباً ایک درجن تو جنوبی شام میں ان کے شہر درعا میں ان کے محلے سے تعلق رکھنے والے ہی تھے۔ وہ عبادہ کو مضبوط بنانے کی کوشش کر رہے تھے کہ ’تم اب بڑے ہو گئے ہو، اپنا خیال خود رکھ سکتے ہو، مرد بنو‘ وغیرہ۔ لیکن اس سے عبادہ کی کوئی مدد نہیں ہو رہی تھی۔مردوں کے لیے اس قسم کے سفر کی کوشش کرنا معمول کی بات تھی اور اس کے لیے خواتین کو نسبتا کمزور سمجھا جاتا ہے کہ کیونکہ انھیں جنگ زدہ لیبیا سے گزرنا ہوتا تھا۔ لیکن اس رات نوعمر بچوں کے ساتھ دو مائیں بھی تھیں جو سرحد عبور کرنے کی کوشش کر رہی تھیں۔اب تک کشتی چپکے سے نکلنے کے لیے پانی میں تھی اور کچھ لوگ اس پر چڑھ رہے تھے۔ ان کے ارد گرد بھیڑ میں مجموعی طور پر 60 سے زیادہ افراد اس کشتی میں جگہ پانے کی امید میں تھے۔ یہ اتنے لوگ تھے کہ ان کی اس کشتی میں گنجائش نہیں تھی۔سمگلروں نے موٹرسائیکل کی ٹیوبیں پھلا کر بچنے کے لیے دی تھیں لیکن یہ ہدایت کی گئی تھی کہ جب تک کشتی انگلینڈ کے لیے روانہ نہ ہو جائے تب تک ان کو نہ پھلائیں۔اٹھتی لہروں نے تیزی سے کشتی کو کھینچنا شروع کر دیا اور اسے سلپ وے سے ہٹا کر گہرے پانیوں کی طرف لے گئی۔ یہ 14 جنوری بروز اتوار کی دیر رات یا پہلی صبح کا وقت تھا اور سمگلروں کے لیے نئے سال 2024 کی پہلی کھیپ کو انگلینڈ کے اندر لے جانے کی کوشش کرنے لیے ہوا کی رفتار بھی کافی کم ہو چکی تھی۔جیسے ہی کشتی ساحل سے نکلی وہاں ایک خوفناک ہنگامہ آرائی ہونے لگی کیونکہ لوگ کشتی پر سوار ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔ اور اس بڑھتی ہوئی افراتفری کی وجہ سے کنفیوژن پیدا ہو گئی۔یہ وہ عام چوڑا ساحل نہیں تھا جسے انھوں نے شمالی فرانسیسی ساحل کے ساتھ دیکھا تھا۔ اس کے بجائے سمگلرز انھیں بولون کی بندرگاہ کے شمال میں واقع ایک چھوٹے سے ریزورٹ قصبے ویمیریو کے بیچ سے لے جا رہے تھے اور بچ کر نکلنے کا یہ راستہ اونچی لہروں کی زد میں تھا۔وہاں سے گزرنے کے لیے کوئی اتھلا سمندر نہیں تھا بلکہ ایک گہرا سمندر تھا جبکہ لوگ اندر جانے والی کشتی پر سوار ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔
وہم و گمان سے پرے
زندہ بچ جانے والوں میں سے ایک نے کہا کہ ’ہمیں اس کا گمان بھی نہیں تھا۔‘مغربی لندن میں اپنے بستر پر عبادہ کے ایک اور بھائی 25 سالہ ندا اپنے فون کو دیکھ رہے ہیں۔ اور یہ لندن میں رات کے ایک بجے کا جبکہ فرانس میں دو بجے کا وقت ہے۔اس سے چند گھنٹے پہلے ندا نے اپنے پورے گروپ کو بلایا تھا اور وہ سب فرانس میں کیلیس میں ایک نہر کے پل کے نیچے اپنے عارضی کیمپ میں آگ کے ارد گرد بیٹھے تھے۔ وہ آگے کے سفر کے بارے میں پراعتماد دکھائی دے رہے تھے۔ یہاں تک کہ سیاہ بنی ہوئی ٹوپی اور نیلے رنگ کے سکارف پہنے ہوئے عبادہ بھی پرعزم نظر آ رہا تھا اور اس نے کیمرے میں دیکھتے ہوئے دو انگلیوں سے وی یعنی وکٹری کی علامت بنائی اور وہ مسکرایا تھا کیونکہ ان کا طویل اور مشکل سفر تقریباً ختم ہو رہا تھا۔ندا نے دو سال قبل اپنے والد کی باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے خطرناک سفر اختیار کیا تھا۔ ندا کے والد نے انھیں صبر سے درعا میں ہی رہنے کی بات کہی تھی کیونکہ ان کے خیال میں جنگ جلد ہی ختم ہونے والی تھی۔ندا نے کہا: ’لیکن ہم نے 12 سال انتظار کیا لیکن جنگ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ کوئی حفاظت نہیں ہے۔ پناہ حاصل کرنے کا کوئی (دوسرا) طریقہ نہیں۔‘ ندا کے مطابق انھوں نے یہ باتیں اپنے والد سے کہی تھیں۔ندا اپنے تمام بھائیوں کی طرح دراز قد ہیں۔ ان کی داڑھی ہے اور وہ نرم گفتار ہیں۔ندا نے انگلینڈ کے سفر کا انتخاب کیا تھا کیونکہ ان کے ایک چچا تقریباً ایک دہائی پہلے ہی یہ سفر کر چکے تھے اور انھیں برطانیہ میں رہنے کی اجازت مل گئی تھی۔ بہر حال دونوں غیر قانونی طور پر آئے تھے کیونکہ ندا کے مطابق ان کے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں تھا۔پناہ کے متلاشی افراد کو ماہرانہ قانونی مشورہ فراہم کرنے والی ایک خیراتی تنظیم اسائلم ایڈ کے مطابق شام کے شہریوں کے لیے برطانیہ کا ذاتی سفر کیے بغیر سیاسی پناہ کے لیے درخواست دینے کا عملی طور پر کوئی طریقہ نہیں ہے۔اور شاید اسی لیے اکثریت غیر قانونی طور پر سرحد پار کرنے کی کوشش کرتی ہے کیونکہ سیاسی پناہ کی درخواست کے لیے کوئی ویزا سسٹم نہیں ہے۔ خاندان کے افراد سے ملنا چند قانونی راستوں میں سے ایک ہے لیکن اس کی وضاحت کم ہے اور اکثر اس بنیاد پر ویزا دینے سے انکار کر دیا جاتا ہے جبکہ کبھی کبھی کسی کسی کو یہ مل بھی جاتا ہے۔اس کے علاوہ ایک چھوٹی سی تعداد کو آبادکاری کی سکیموں کے ذریعے داخلے کی اجازت دی گئی ہے اور ہوم آفس کے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ ستمبر 2023 کو ختم ہونے والے سال میں تقریباً 325 شامیوں کو اس سکیم کے تحت برطانیہ میں داخلے کی اجازت دی گئی ہے۔برطانیہ میں پناہ کے لیے درخواست دینے والے 90 فیصد سے زیادہ شامی کامیاب ہو گئے ہیں کیونکہ ان کے ملک میں ابھی بھی تنازع جاری ہے۔
ندا کا انگلینڈ پنچنا
انگلینڈ پہنچ کر ندا نے حکام کو بتایا تھا کہ انھیں دمشق میں اپنی یونیورسٹی میں حکومت سے بے وفائی کے الزام کے تحت جان سے مارنے کی دھمکیاں ملی ہیں اور وہ فوج میں بھرتی ہونے سے بچنا چاہتے ہیں۔انھوں نے بتایا کہ ’وہ محفوظ نہیں ہے۔ آپ فوج میں جاؤ اور 10 سال رہو۔ آپ یا تو مارو یا پھر مر جاؤ اور ہم یہ نہیں چاہتے۔‘گذشتہ سال اکتوبر میں ندا کو پناہ گزین کا درجہ اور پانچ سال تک برطانیہ میں رہنے کی اجازت دی گئی تھی۔ انھیں حال ہی میں ویمبلے کے قریب ایک گودام کی نوکری ملی ہے۔ وہ اب انگریزی زبان سیکھنے کا کورس کر رہے ہیں اور انھیں امید ہے کہ وہ جلد ہی اپنی بیوی کو شام سے نکال لائيں گے۔ اس کے لیے انھین پناہ گزین کے طور پر درخواست دینے کی اجازت دی گئی ہے۔ اس کے ساتھ وہ انگلینڈ میں اپنی قانون کی تعلیم دوبارہ شروع کرنا چاہتے ہیں۔برطانیہ پہنچنے کے فوراً بعد ندا نے اپنے بھائیوں کو، جو ابھی بھی درعا میں ہیں، انھیں اپنے ساتھ شامل ہونے کی ترغیب دی۔انھوں نے کہا کہ انھوں نے عبادہ کو فون پر کہا تھا کہ ’تم جوان ہو، تم یہاں پڑھ سکتے ہو۔‘شام کی خانہ جنگی کے آغاز کے بعد سے ان کے کئی کزنز بھی برطانیہ پہنچ چکے ہیں۔ یہاں درعا کے لوگوں کا ایک پورا نیٹ ورک موجود ہے۔ درعا ایک ایسا شہر ہے جس کی شہرت اسد حکومت کے خلاف انقلاب کی جائے پیدائش کے طور پر ہے۔ندا نے اپنے بھائی کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’آپ یہاں ایک نئی زندگی بنا سکتے ہو۔‘درعا میں عبادہ سکول میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ ان کے بھائیوں کا خیال ہے کہ وہ ’بہت اچھا اور بہت ہوشیار‘ تھا اور انھیں امید تھی کہ وہ ڈاکٹر بنے گا۔ وہ فٹ بال کا شوقین اور اچھا کھلاڑی تھا اور انگلینڈ میں مانچسٹر سٹی کا کھیل دیکھنے کے بارے میں ندا سے پرجوش انداز میں بات کرتا تھا۔شام میں اسے جاننے والے ایک دوست نے کہا: ’وہ بس ایک بچہ تھا۔‘ لیکن ایسے اشارے ملے ہیں کہ عبادہ پر اس مایوس والدین کی طرف سے سفر کرنے کے لیے حوصلہ افزائی کے ساتھ دباؤ بھی تھا۔ اس کے والد، ابو ایسر کو صحت کے متعدد مسائل تھے اور اب وہ برطانیہ میں علاج کی امید کر رہے ہیں۔ ان کی والدہ ام ایسر کے ایک ویڈیو پیغام سے ہماری تصدیق ہوئی جس میں انھوں نے کہا کہ ’میرا چھوٹا بیٹا اس لیے چلا گیا تاکہ وہ مستقبل میں ہمارے ساتھ دوبارہ مل سکے۔‘
دوبارہ ملن کی آس
درعا میں ان کے ایک پڑوسی نے، جو عبادہ کے ڈوبنے کی رات اس کے ساتھ تھا، ان کی والدہ کی بات کی تصدیق کی۔’وہ برطانیہ پہنچ کر اپنے بھائی کے ساتھ دوبارہ مل جائے گا اور جلد ہی اپنی والدہ اور والد کو بھی بلا لے گا۔ یہ اس کے جانے کا پورا مقصد تھا کہ اس کے بعد اس کے والد بیرون ملک علاج کروا سکتے ہیں۔ اس پڑوسی نے ہمیں یہ باتیں بتاتے ہوئے کہا کہ ان کی شناخت کو ظاہر نہ کیا جائے۔‘ درحقیقت یہ منصوبہ شروع سے ہی بیکار تھا کیونکہ ان کا ایک بھائی پہلے سے ہی لندن میں تھا اور عبادہ اگر لندن پہنچ بھی جاتا تو نابالغ ہونے کی حیثیت سے اپنے والدین کو قانونی طور پر وہاں بلانے کی پوزیشن میں نہیں ہوتا۔عبادہ ابھی 13 سال کا ہی تھا جب وہ اور اس کا بھائی ایسر گذشتہ سال مئی میں دمشق سے لیبیا کے شہر بن غازی کے لیے ہوائی جہاز میں سوار ہوئے تھے۔ لیبیا جانے کے لیے شامیوں کو ویزے کی ضرورت نہیں ہے اور دبئی میں کام کرنے والے ایک چچا نے پیسے دے کر ان کی مدد کی تھی لیکن انھوں نے خلیج میں اپنے چچا کے ساتھ شامل ہونے پر غور ہی نہیں کیا کیونکہ دبئی میں پناہ کا کوئی نظام نہیں ہے۔ عبادہ وہاں اسکول جانے سے قاصر رہتے اس لیے خاندان برطانیہ کے لیے پرعزم نظر آتا تھا۔اگرچہ عبادہ اپنے والدین کے زور دینے اور اپنے بڑے بھائی کے جوش و جذبے کی وجہ سے تیار اور پر عزم ہو گیا تھا لیکن اسے اس سفر میں شامل خطرات کی پوری سمجھ نہیں تھی لیکن یہ جلد ہی ہونے والی تھی۔اکتوبر 2023 میں لیبیا میں مہینوں تک انتظار کے بعد دونوں بھائیوں نے دارالحکومت طرابلس سے روانہ ہوتے ہوئے ایک سمگلر کی کشتی میں بحیرہ روم کو عبور کرنے کی کوشش کی۔ لیکن انھیں تیونس کی ایک گشتی کشتی نے پکڑ لیا اور لیبیا واپس لے گئے جہاں وہ ایک مقامی ملیشیا کے ہاتھ لگ گئے۔درعا کے 23 سالہ فارس نامی ایک پڑوسی نے کہا: ‘ہمیں ایک ماہ تک قید میں رکھا گیا اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ فارس شام سے سفر کے دوران اکثر ان کے ساتھ رہے تھے۔ وہ ننگے فرش پر سوتے تھے، اور اکثر انھیں دن میں صرف ایک بار پاستے کا ایک چھوٹا سا پیالہ کھانے کو دیا جاتا تھا۔ بالآخر، دبئی میں اپنے چچا کی مزید مالی مدد سے، دونوں بھائیوں نے 900 ڈالر میں ملیشیا سے آزادی حاصل کی۔حیرت انگیز طور پر اس موقع پر عبادہ نے سفر جاری رکھنے کے بارے میں سنگین شکوک و شبہات کا اظہار کرنا شروع کر دیا تھا۔
’وہ خوفزدہ تھا‘
فارس یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’وہ خوفزدہ تھا۔ ہم اسے مضبوط بنانے کے لیے اس سے بات کرتے تھے اور اسے کہتے تھے کہ وہ کسی چیز کی فکر نہ کرے۔ لیکن اسے اس کی دیکھ بھال کرنے کے لیے کسی کی ضرورت تھی۔‘پھر جب عبادہ کے گروپ نے اعلان کیا کہ انھیں ایک اور سمگلر ملا ہے جو انھیں اٹلی لے جانے کے لیے تیار ہے تو عبادہ نے اپنے والدین کو فون کیا اور بتایا کہ یہ بحیرہ روم کو عبور کرنے کی اس کی آخری کوشش ہوگی۔ اگر یہ کام نہیں کرتا تو وہ گھر لوٹ آئے گا۔فارس نے یاد کرتے ہوئے کہا کہ جب دسمبر میں دوسری کشتی پر سوار ہو رہے تھے تو ’ہم نے اس کا ہاتھ تھام لیا تھا اور ہم نے اسے کہا کہ ’ہم آپ کے ساتھ ہیں، ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔‘ اور اس بار، وہ کسی طرح سے کامیاب رہے۔ 22 گھنٹے سمندر میں رہنے کے بعد انھیں اطالوی کوسٹ گارڈز نے لیمپیڈوسا جزیرے سے بچایا۔ انھیں مقامی حکام نے رجسٹر کیا تھا، جس کی وجہ سے ان کے لیے اٹلی کے علاوہ یورپی یونین کے کسی دوسرے ملک میں پناہ کی درخواست دینا مشکل ہو تھا۔ اس کے باوجود ایک بار جب انھیں آزادی ملی تو وہ اطالوی سرزمین پر بولوگنا سے پہلے میلان گئے اور پھر سرحد پار فرانس کی طرف روانہ ہوئے۔اس دوران ندا کو اپنے آپ پر شک ہونے لگا تھا۔ برطانیہ میں سیاسی پناہ کے متلاشیوں کے لیے قوانین سخت ہوتے جا رہے تھے۔ اس نے اپنے بھائیوں کو دوبارہ فون کیا۔’میں نے انھیں جرمنی، یا اٹلی جانے کو کہا۔ کیونکہ یہاں مشکل قوانین ہیں۔ نئے قوانین پناہ کے متلاشیوں کے لیے بہت مشکل ہیں۔‘ لیکن بھائیوں نے انکار کر دیا۔اصولی طور پر گذشتہ سال جولائی میں متعارف کرایا جانے والا برطانیہ کا نیا غیر قانونی مائیگریشن ایکٹ اب عبادہ جیسے غیر قانونی طور پر داخل ہونے والوں کے پناہ کے دعویٰ اور برطانیہ میں رہنے کے کسی بھی حق سے منکر ہے۔ لیکن اس کے باوجود حقیقت یہ ہے چھوٹی کشتیوں سے آنے والوں کو کہاں بھیجنا ہے اس پر ابھی تک کوئی معاہدہ نہ ہونے کی وجہ سے عبادہ غالباً دسیوں ہزار دوسرے لوگوں میں شامل ہو جاتے جنھیں پناہ گزینوں کی کونسل نے ’لمبو یا التوا کی حالت‘ کے طور پر بیان کیا ہے۔
پیرس کا سفر
ندا کے بھائی ٹرین کے ذریعے پیرس کے سفر پر نکل پڑے۔ وہ اس سرزمین پر کسی کو نہیں جانتے تھے۔ اور بہت سے دوسرے رشتہ داروں کی طرح ندا انگلینڈ میں تھے۔ لیکن ان سب کے باوجود ان کے سفر کا مشکل ترین حصہ ضرور ختم ہو چکا تھا۔ندا یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ عبادہ نے ان سے کہا تھا کہ ’میں یہاں (برطانیہ) اس لیے آنا چاہتا ہوں کیونکہ آپ وہاں ہو۔‘ وہ اپنے اصل منصوبے پر قائم رہے۔ اور اس طرح جنوری کے اوائل میں عبادہ، ان کے بھائی ایسر اور نصف درجن ان کے شامی دوست کیلیس پہنچے۔ انھوں نے ایک پل کے نیچے خیمے لگائے اور اس دوران فرانسیسی پولیس سے بچنے کی کوشش کرتے رہے جو کبھی کبھی ان کے خیمے لے جاتی تھی اور ان سے وہاں سے ’آگے بڑھنے‘ کا حکم دیتی تھی۔بی بی سی نے ایک مقامی خیراتی ادارے سے بات کی جس نے کیلیس میں اس گروپ کی مدد کرنے کی کوشش کی تھی۔ عبادہ کو نابالغ ہونے کی وجہ سے پناہ کی پیشکش کی گئی تھی، لیکن اس نے کہا کہ وہ اپنے بھائی کے ساتھ رہنا چاہتا ہے۔ تنظیم کا نام اس کے کام کی حساسیت کی وجہ سے نہیں لیا جا رہا ہے۔ وہ کم از کم دو دیگر نوعمر لڑکوں سے بھی رابطے میں تھی جو اسی کشتی پر سوار ہونے والے تھے جس میں عبادہ سوار ہونے والے تھے۔خیراتی ادارے کے ایک نمائندے نے ہمیں بتایا کہ کیلیس میں سمگلروں نے ان میں سے کچھ دوسرے لڑکوں کو اپنا فیصلہ ’خود کرنے‘ سے روکا کیونکہ وہ بھی ان کے ’خاندانوں کے دباؤ میں‘ تھے۔دوسرے لڑکوں میں سے ایک کے بارے میں بات کرتے ہوئے نمائندے نے کہا: ’اس نے ہمیں یہ بتانے کے لیے فون کیا کہ وہ خوفزدہ ہے۔ اس نے ہمیں بتایا کہ اس کے والدین اسے ایسا (عبور کرنے کی کوشش) کرنے پر مجبور کر رہے ہیں۔‘ایک ہفتے سے زیادہ عرصے کے بعد عبادہ کے گروپ کو شامی سمگلروں نے تیار ہونے کو کہا۔ ان لوگوں نے برطانیہ لے جانے کے لیے انھین فی کس دو ہزار یورو ادا کیے تھے۔ پیشن گوئی اچھی تھی۔ وہ ہفتے کی رات روانہ ہو جائیں گے۔
سازگار ماحول
ساحل پر ہوا تھم چکی تھی لیکن درجۂ حرارت بس نقطۂ انجماد سے تھوڑا اوپر تقریبا سات ڈگری سینٹی گریڈ رہا ہوگا۔ویمیریو میں اندھیرے میں عبادہ کشتی پر سوار ہونے کی جدوجہد کرنے والوں میں شامل تھا کیونکہ کشتی سلپ وے سے نکل رہی تھی۔ لیکن فوراً ہی عبادہ اور ایسر نے پایا کہ وہ گہرائی میں سمندر کے ٹھنڈے پانی میں ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔فارس نے بتایا کہ ’وہ چیخ پکار کرنے لگے اور مدد مانگنے لگے۔‘ فارس پہلے ہی سلپ وے یعنی پھسلن والے راستے پر چڑھنے میں کامیاب ہو گئے تھے اور پہلے ہی لوگوں کو پانی سے باہر نکالنے میں مدد کر رہے تھے۔ لیکن اندھیرے میں وہ یہ نہیں جان سکے کہ عبادہ کہاں ہے۔فارس نے کہا: ’اب میں انھیں نہیں دیکھ پا رہا تھا۔ وہ پانی میں غائب ہو گئے تھے۔ پانی نے انھیں کھینچ لیا تھا، اور میں ان تک نہیں پہنچ سکا۔ ہمیں نہیں معلوم تھا کہ یہ اتنا زیادہ گہرا ہوگا۔‘ فرانسیسی پولیس قریب ہی گشت پر تھی۔ برطانیہ کی طرف سے اضافی فنڈنگ نے فرانس کو خطے میں افسران کی تعداد بڑھانے کے قابل بنایا ہے۔ لیکن اس کے باوجود ان کی تعداد سمگلروں کے زیر استعمال ساحلی پٹی کے تقریباً 150 کلومیٹر کے ہر حصے کی نگرانی کے لیے کافی نہیں ہے۔بحریہ کا ایک ہیلی کاپٹر اور ایک گشتی کشتی سوا دو بجے جائے وقوعہ پر پہنچی۔ امدادی کارکنوں نے 20 تارکین وطن کے علاج میں مدد کی جو ہائپوتھرمیا (یخبستہ ہونے جانے کی حالت) میں مبتلا تھے۔ لیکن عبادہ ان میں شامل نہیں تھا۔سارجنٹ میجر میکسم مینو نے یاد کرتے ہوئے کہا کہ ’میں اب بھی ان کی آوازیں اپنے سر میں گونجتی سن سکتا ہوں، آپ کہہ سکتے ہیں کہ وہ موت کی چیخ تھی۔‘ وہ جو اسی رات اسی علاقے میں ایک اور ریسکیو مشن میں منجمد پانی میں لوگوں کو بچانے کے لیے کود پڑے تھے۔چند منٹ بعد لندن میں ندا کو ایک فون آیا۔’وہ دونوں جا چکے ہیں۔‘یہ فون عبادہ کے گروپ میں شامل ایک دوسرے شامی کا تھا۔ اس نے پہلے تو ایسر کو پانی سے نکالا تھا لیکن بہت دیر ہو چکی تھی۔ اور پھر عبادہ کی لاش ساحل پر لائی گئی۔ تیرنے سے قاصر وہ دونوں سلپ وے سے شاید دس میٹر کے فاصلے پر ڈوب گئے تھے۔فون کا جواب دیتے ہوئے ندا اپنے بستر میں ہی رو پڑے۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر روئے۔ پھر انھوں نے اپنی نم آنکھیں صاف کیں۔میں نے اس سے پوچھا کہ اگر آپ کو معلوم ہوتا کہ کیا ہونے والا ہے تو کیا آپ شام میں ہی رہتے؟ندا نے جواب دیا: ’جی ہاں، ایسر اور عبادہ کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کے بعد میں شام میں ہی رہتا۔‘ کیا آپ چاہتے کہ عبادہ بھی شام میں ہی رہتا؟’جی ہاں۔‘کیا آپ اسے سفر کرنے کی ترغیب دینے کے لیے احساس جرم میں ہیں؟انھوں نے کہا: ’ہاں۔۔۔ ہاں۔‘
آخری دیدار
اگلی شام کیلیس کے تقریباً 100 مقامی لوگ اور مٹھی بھر مہاجرین ٹاؤن سینٹر میں جمع ہوئے تاکہ ہلاک ہونے والے پانچوں افراد کے لیے ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی جا سکے۔ عبادہ اور ایسر کے نام اس طویل فہرست میں شامل ہو گئے جو حالیہ برسوں میں چینل کو عبور کرنے کی کوشش میں مر گئے تھے۔ایک مقامی فرانسیسی خاتون نے خوفزدہ ہجوم کو بتایا: ’سب سے بڑا قصور یورپ کے قوانین کا ہے جو مہاجرین کی زندگی کو ناممکن بنا دیتے ہیں، جو انھیں کوئی حق نہیں دیتے، جو یہاں کیلیس اور تمام سرحدوں پر ان کی زندگی کو ناممکن بنا دیتے ہیں۔ سارا قصور یورپی قوانین کا ہے۔‘واپس درعا آتے ہیں جہاں سے عبادہ کے والدین نے ہمیں اپنے بیٹے کے خالی کمرے کی ویڈیو بھیجی۔والدہ ام عیسر نے سسکیوں کے درمیان کہا: ’ہم اپنے بچوں کو آخری بار دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ میری ایک درخواست ہے۔ چھوٹا بچہ 14 سال کا تھا۔ میں اسے دفن کرنے سے پہلے اسے دیکھنا چاہتی ہوں۔‘عبادہ کے والد ابو عیسر نے کہا: ’میں ایک بیمار آدمی ہوں۔ مجھے سانس لینے کے لیے آکسیجن کی ضرورت ہے۔‘عبادہ کی کہانی کو کیسے پرکھا جائے؟ایسے خطرناک سفر پر بچے کی جان کو خطرے میں ڈالنے پر بہت سے لوگ اس کے والدین اور خاندان پر تنقید کریں گے۔ دوسرے ایسے لوگ جو کم از کم شام جیسے جنگی علاقوں میں زندگی کا براہ راست تجربہ رکھتے ہیں وہ یہ دلیل دے سکتے ہیں کہ اس سے اس خاندان کی مایوسی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ ایسا قدم اٹھانے پر مجبور ہوئے۔ایسا لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں عبادہ کی لاش، اس کے بھائی کی لاش کے ساتھ، کیلیس میں دفن کی جائے گی۔ فرانسیسی حکام نے کہا کہ انھیں برطانیہ پہنچانا ممکن نہیں ہو گا، اور ندا کے مطابق شام واپس بھیجنے کے اخراجات بہت زیادہ ہیں، جن پر غور نہیں کیا جا سکتا۔کیتھی لونگ، فراس کواف اور میریانی بیسنی کی اضافی تحقیق پر منبی رپورٹ
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.