وزیرِ اعظم ہاؤس سے 12 گھنٹوں میں 2 آڈیو لیکس نے سلامتی کے معاملات پر سوال اُٹھا دیے۔
وزیرِ اعظم ہاؤس سے وزیرِ اعظم شہباز شریف، وفاقی وزراء اور ن لیگی رہنماؤں کے اجلاس کی آڈیو لیک ہوئی ہے۔
مبینہ آڈیو میں وزیرِ اعظم شہباز شریف، رانا ثناء اللّٰہ، ایاز صادق، خواجہ آصف اور دیگر رہنما پی ٹی آئی کے استعفوں کی منظوری پر مشاورت کر رہے ہیں۔
مبینہ آڈیو لیک میں پی ٹی آئی ارکان کے استعفوں کی منظوری پر وفاقی وزراء کی مختلف آراء سامنے آئیں۔
آڈیو میں استعفوں کی منظوری کے لیے لندن سے اجازت لینے کا بھی ذکر ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز بھی وزیرِ اعظم شہباز شریف کی مبینہ آڈیو ٹیپ سامنے آئی تھی جس میں ایک شخص شہباز شریف کو بتا رہا ہے کہ مریم نواز اپنے داماد کے لیے بھارت سے پاور پلانٹ درآمد کرنے کا کہہ رہی ہیں، آدھا پلانٹ بھارت سے آچکا تھا، آدھا باقی ہے۔
اس پر دوسرا شخص شہباز شریف کو مشورہ دیتا ہے کہ یہ کام اسحاق ڈار سے کر والیں وہ سمجھا دیں گے۔
1: کیا وزیرِ اعظم ہاؤس اتنا غیرمحفوظ ہے کہ وہاں ہونے والی گفتگو کہیں اور سنی جا سکتی ہے؟
2: آڈیو لیک سامنے آنے کے بعد کیا وزیرِ اعظم ہاؤس میں قومی سلامتی کے معاملے پر کوئی اجلاس ہو سکتا ہے؟
3: کیا حکومت اور وزیرِ اعظم پالیسی سازی کے لیے ان کیمرا اجلاس کر کے مطمئن ہو سکتے ہیں؟
4: کیا وزیرِ اعظم ہاؤس میں ایسے خفیہ ریکارڈنگ سسٹم ہیں جنہیں حکومتی ارکان بھی نہیں جانتے؟
Comments are closed.