پیر کو سماعت کے دوران عدالت میں گرفتھ کے جرائم کا نشانہ بننے والے افراد اور ان کے خاندان بھِی موجود تھے۔ اے بی سی نیوز کے مطابق عدالت میں جب متاثرہ بچوں کے نام پکارے گئے تو کچھ والدین روتے ہوئے نظر آئے۔وہاں موجود ایک بچی کی والدہ کا کہنا تھا کہ ’ہم جب بھی لوگوں کو اس چائلڈ کیئر سینٹر میں جاتا ہوا دیکھتے ہیں تو ہمیں یاد آتا ہے کہ میرے بچے کے ساتھ یہاں یہ ہوا تھا۔‘’یہ خوف و دہشت کا کمرہ ہے۔‘اسی بچی کے والد نے کہا کہ یہ ان کی سمجھ سے بالاتر ہے کہ گرفتھ کیسے 20 برس تک اپنے جرائم پر پردہ ڈالتے رہے۔اے بی سی نیوز کے مطابق ان والدین نے اپنی بیٹی کو بتا دیا کہ اس کے ساتھ کیا ہوا لیکن وہ کم عمری کے سبب پوری طرح سمجھ نہیں پائی کہ اس کے ساتھ ہوا کیا۔ان کے والد کا کہنا تھا کہ ’جب وہ بڑی ہو گی تو ہم اسے سنبھال لیں گے لیکن ہمیں اس سب سے زندگی بھر ہی نمٹنا پڑے گا۔‘آسٹریلیا کی پولیس نے گرفتھ کو اگست 2022 میں گرفتار کیا تھا۔ پولیس کو ڈارک ویب پر ہزاروں بچوں کی تصاویر اور ویڈیوز ملی تھیں۔ان ویڈیوز اور تصاویر میں چہروں کو چھپا دیا گیا تھا لیکن پھر بھی پولیس نے ویڈیوز میں نظر آنے والی بیڈشیٹ کی مدد سے گرفتھ کی شناخت کرلی تھی۔پولیس کا ماننا ہے کہ گرفتھ نے اپنے تمام جرائم کی تصاویر اور ویڈیوز اپنے کیمروں اور موبائل فون سے بنائی تھی۔ملزم پر گذشتہ سال نومبر میں 1600 سے زائد بچوں کے جنسی استحصال کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔ گرفتھ اب بھی پولیس کی حراست میں ہیں اور انھیں اگلی تاریخ پر سزا سنائے جانے کا امکان ہے۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.