عمران خان کی نریندر مودی کو مناظرے کی پیشکش اور ٹیلی پرامپٹر کی بحث جو دو براعظموں میں سوشل میڈیا صارفین کی دلچسپی کا مرکز ہے
بعض اوقات سوشل میڈیا پر ایسے الفاظ ٹرینڈ کر رہے ہوتے ہیں کہ انھیں دیکھ کر آپ سوچ میں پڑ جاتے ہیں کہ آخر اس کے ٹرینڈ کرنے کی وجہ کیا ہو سکتی ہے۔
گذشتہ روز سے ’ٹیلی پرامپٹر‘ کے نام سے ایسا ہی ایک ٹرینڈ دنیا کے دو مختلف براعظموں میں صارفین کی دلچسپی کا باعث بنا ہوا ہے۔ اس کی ایک وجہ تو امریکہ کے صدر جو بائیڈن کا روس پر پابندیاں عائد کرنے کے حوالے سے قوم سے خطاب تھا۔
اس خطاب کے دوران جو بائیڈن کی نظریں ’ٹیلی پرامپٹر‘ پر مرکوز رہیں اور وہ انتہائی توجہ سے اپنی تقریر پڑھتے رہے، لیکن صارفین نے یہ محسوس کیا کہ جہاں روس کے اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے ان کے لہجے میں غصہ چھلکنا چاہیے تھا وہاں وہ بہت دھیمے انداز میں بات کر رہے تھے کیونکہ ان کی تمام تر توجہ ٹیلی پرامپٹر پر تھی۔
لیکن دوسری وجہ پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان کی جانب سے انڈین وزیرِ اعظم نریندر مودی کو دونوں ہمسائیوں کے درمیان موجود مسائل کے حل کے لیے براہ راست مناظرے کی پیشکش کرنا تھی۔
یاد رہے کہ ٹیلی پرامپٹر ایک الیکٹرانک مشین ہے جو اپنے استعمال کرنے والے کے لیے متن کو سکرین پر پیش کرتی ہے اور اسے دیکھ کر خطاب کرنے والا اپنے لہجے، انداز کو زیادہ درست انداز میں پیش کرنے کے قابل ہوتا ہے۔
عمران خان نے گذشتہ روز روسی ٹی وی چینل کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انڈین وزیرِ اعظم نریندر مودی سے براہ راست مناظرہ کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔
انھوں نے یہ بات ایک ایسے موقع پر دیے گئے انٹرویو میں کہی جب وہ روس کے دو روزہ دورے کے لیے ماسکو روانہ ہونے والے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ انڈین وزیرِ اعظم نریندر مودی کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ ٹی وی پر مباحثوں سے کتراتے ہیں اور انھوں نے سنہ 2014 سے اقتدار میں آنے کے بعد سے کبھی باقاعدہ نیوز کانفرنس نہیں کی اور ان کے ساتھ رواں برس ٹیلی پرامپٹر سے منسلک ایک واقعہ بھی پیش آ چکا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ انڈیا میں اکثر سوشل میڈیا صارفین یہ پوچھ رہے ہیں کہ عمران خان نے یہ پیشکش کر تو دی ہے لیکن کیا نریندر مودی ٹیلی پرامپٹر کے بغیر کچھ پڑھ پائیں گے۔
ایسی ہی تنقید امریکی صدر جو بائیڈن پر ہو رہی ہے جن سے ان کے حامی ایک نازک موقع پر ایک مضبوط انداز میں کی گئی تقریر کی امید کر رہے تھے۔
عمران خان نے کیا کہا اور ٹیلی پرامپٹر کیوں زیر بحث ہے؟
عمران خان نے روسی ٹی وی چینل ’آر ٹی‘ کو دیے گئے انٹرویو کے دوران ایک سوال کے جواب میں کہا کہ وہ اپنے انڈین ہم منصب سے بات چیت کے ذریعے مسائل کا حل چاہیں گے، انھوں نے کہا کہ ’مجھے نریندر مودی کے ساتھ بحث کر کے خوشی ہو گی۔‘
عمران خان نے مزید کہا کہ یہ برصغیر کی ایک ارب سے زیادہ آبادی کے لیے بہترین بات ہو گی اگر دو ہمسایہ ممالک اپنے اختلافات بات چیت کے ذریعے حل کر سکیں۔
یہ بھی پڑھیے
تاہم اس کے بعد ٹیلی پرامپٹر کی بحث شروع ہونے کی وجہ یہ تھی کہ صارفین کو نریندر مودی سے متعلق ایک اور واقعہ یاد آیا جس سے ان کی براہ راست تقریر کرنے سے کترانے کی بارے میں معلوم ہوتا ہے۔
رواں برس جنوری میں انڈین وزیر اعظم نریندر مودی، جنھیں اُن کی جماعت ’عظیم مقرر‘ قرار دیتی ہے، ورلڈ اکنامک فارم سے خطاب کر رہے تھے کہ اچانک اُن کے بولنے کی رفتار مدھم پڑ گئی اور بظاہر ایسا لگا کہ الفاظ نے اُن کا ساتھ دینا چھوڑ دیا ہے اور شاید وہ جس ٹیلی پرامپٹر سے دیکھ کر تقریر کر رہے تھے اس میں کوئی فنی خرابی واقع ہو گئی ہے۔
اس وقت بھی ان پر ایک انٹرنیشنل فورم پر تقریر کے دوران بات نہ کر پانے خاصی تنقید کی گئی تھی اور یہی وجہ تھی کہ وزیرِ اعظم عمران خان کی پیشکش کے بعد انڈین صارفین کو ٹیلی پرامپٹر کی یاد آ گئی۔
’یہ بہترین بحث ہو گی اگر مودی ٹیلی پرامپٹر سے پڑھنا سیکھ لیں‘
انڈیا اور پاکستان میں جہاں سوشل میڈیا صارفین اس چٹ پٹے مباحثے کا خواب دیکھ کر ہی خاصے محظوظ ہو رہے ہیں وہیں اکثر صارفین اس حوالے سے موجود مشکلات کا بھی ذکر کر رہے ہیں۔
انڈیا میں ایک صارف اشیس باسو نے اس مباحثہ کے بارے میں لکھا کہ ’یہ تمام مباحثوں کی ماں ہو گی اگر انڈین وزیرِ اعظم ٹیلی پرامپٹر کے بغیر پڑھنا سیکھ لیں تو۔‘
اس ٹویٹ کے جواب میں ایک صارف نے لکھا کہ ’پاکستان اور انڈیا کے لیے ’مباحثوں کی ماں‘ سے کیا فرق پڑے گا سوائے چند وائرل میمز اور سوشل میڈیا صارفین کے محظوظ ہونے کے علاوہ۔‘
صارف سبینا صدیقی نے لکھا کہ ’مجھے یقین ہے کہ دونوں کسی بھی بات پر اتفاق نہیں کریں گے لیکن اس دوران اربوں لوگ اس مباحثے کو ضرور دیکھ لیں گے۔‘
ایک انڈین صارف بریندرا شرما نے لکھا کہ ’مودی یہ چیلنج قبول نہیں کر سکتے۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں مودی ٹیلی پرامپٹر کے بغیر بات نہیں کر سکتے۔ مودی پریس کانفرنس نہیں کر سکتے اور یہ شخص (عمران خان) ان سے مباحثے کا مطالبہ کر رہا ہے۔‘
ایک اور صارف نے لکھا کہ ’عمران خان نے بھی ہمارے وزیرِ اعظم کے لائیو اور دو طرفہ بات چیت سے کترانے کا مذاق اڑانا شروع کر دیا ہے۔‘
صحافی مہرین زہرہ ملک نے لکھا کہ ’وزیرِ اعظم عمران نے انڈیا کے وزیرِ اعظم کو ٹیلی ویژن پر براہ راست مباحثے کا چیلنج دیا ہے، میں یہ دیکھنا چاہوں گی۔‘
تاہم ایک صارف نے اس بارے میں ایک اہم نقطہ بھی اٹھایا، انھوں نے لکھا کہ ’کیا عمران خان کی کوئی عزتِ نفس ہے؟ سنہ 2019 میں انھوں نے کہا تھا کہ ’انڈیا سے تب تک بات نہیں ہو گی جب تک نئی دہلی آرٹیکل 370 واپس نہیں لے لیتا اور اب وہ نریندر مودی سے لائیو مباحثہ چاہتے ہیں۔ کیا پاکستان کا واقعی میں کوئی مؤقف ہے بھی یا نہیں۔‘
دوسری جانب سے صدر جو بائیڈن پر تنقید کرتے ہوئے صارف ڈیرک ہنٹر نے لکھا کہ ’کیا وجہ ہے کہ خارجہ پالیسی کے نام نہاد ماہر کو ٹیلی پرامپٹر کو گھورنا پڑ رہا ہے حالانکہ وہ اس دوران بنیادی باتیں کر رہے ہیں۔‘
تاہم بحث کو واپس جو بائیڈن کی جانب لیے جاتے ہیں جو اس معاملے پر تنقید کی زد میں ہیں۔
ایک صارف نے لکھا کہ ’کیا اس وقت یہ زیادہ بہتر نہیں ہو گا کہ سکرین پر بائیڈن کی جگہ ٹیلی پرامپٹر نظر آئے اور ہم خود ہی اس سے دیکھ کر تقریر پڑھ لیں۔‘
رونی جیکس نے لکھا کہ ’بائیڈن کا قوم سے خطاب ایک المیے سے کم نہیں تھا۔ ان کی تقریر میں پورے الفاظ بھی نہیں بولے گئے اور وہ ٹیلی پرامٹر سے مشکل سے پڑھ پا رہے تھے۔ ہمیں اوول آفس میں تبدیلی درکار ہے، دنیا تبدیل ہو رہی ہے اور یہ ٹھیک نہیں ہے۔‘
نک ایڈمز نے لکھا کہ ’کیا کوئی شخص جو بائیڈن کی ٹیلی پرامپٹر سے پڑھنے میں مدد کر سکتا ہے؟ یہ انتہائی شرمندگی کا باعث ہے۔‘
Comments are closed.