یہودی عالم جو افغانستان میں خطرہ میں محسوس کرنے والے کئی لوگوں کے کام آئے؟
رِبی موشے مارگریٹن کا کہنا ہے کہ انھیں خوفزدہ افغانوں نے آدھی رات کو فون کیا اور مدد کی درخواست کی
افغانستان کے دارالحکومت کابل کے ایک اپارٹمنٹ میں طالبان کے ڈر سے چھپے چار بچوں کی کہانی نے ہزاروں میل دور بروکلین، نیویارک میں بیٹھے ایک یہودی عالم کو ایک اہم فون کال کرنے پر مجبور کر دیا۔
اس سے کچھ دن قبل 15 اگست کو طالبان کے آنے کے بعد کابل ایئر پورٹ پر افغان شہریوں کا ایک ہجوم تھا جو ملک چھوڑ کر جانا چاہتا تھا۔
41 سالہ یہودی عالم رِبی موشے مارگریٹن نے بی بی سی کو بتایا ’میں نے ان چاروں بچوں کے بارے میں سوچا جن کی عمریں 18 سال سے کم ہیں، میں نے سوچا پتا نہیں وہ زندہ بھی ہیں یا نہیں، مجھے ان تک پہنچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔‘
جب انھیں یہ علم ہوا کہ ان کے والد کی گمشدگی کے بعد ان کی والدہ برسوں پہلے امریکہ چلی گئی تھیں اور یہ بچے اپنے رشتہ داروں کے ساتھ رہ رہے تھے تو انھوں نے اس خاندان کے وکیل کو تلاش کیا۔
’میں نے ان سے کہا، یقین کریں نہ کریں لیکن میں ان بچوں کے ہوائی اڈے تک پہنچنے میں مدد کر سکتا ہوں۔‘
ان بچوں کو امریکہ میں ان کی والدہ سے ملانا بی مارگریٹن کا وہ مشن تھا جسے وہ جلد از جلد انجام دینا چاہتے تھے۔
اپنی تنظیم کے ذریعے تزیدک ایسوسی ایشن اور خطے میں مقیم لوگوں کے ایک نیٹ ورک کے ذریعے انھوں نے کوششیں شروع کر دیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے اپنے لوگوں کو بچوں کا خیال کرنے کے لیے وہاں بھیجا اور ایک گھنٹے بعد وہ ہوائی اڈے کے اندر تھے۔ اس کے بعد وہ قطر کے راستے اپنی منزل امریکی ریاست نیویارک میں البانی کی جانب رواں دواں تھے۔ ‘
مارگریٹن کہتے ہیں وہ اس خاندان کے پھر سے یکجا ہونے جانے کے بعد جب ان سے ملے تو وہ بہت جذباتی ہو گئے۔
رِبی مارگریٹن ان چار افغان بچوں اور ان کی ماؤں کے ساتھ جنھیں انھوں نے افغانستان سے نکلنے میں مدد دی
ربی کی تنظیم کا کہنا ہے کہ انھوں نے اب درجنوں کارکنوں، ججوں اور دیگر کی مدد کی ہے جو یا تو سابق افغان حکومت کے ساتھ کام کرتے تھے یا پھر ملک میں برطانوی اور امریکی افواج کے ترجمان کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے۔
’آخر بروکلین کا یہ آرتھوڈوکس یہودی افغانستان میں مسلمانوں کی مدد کیوں کر رہا ہے؟ ان کا کہنا ہے کہ ’جواب بہت آسان ہے، میرے والدین اور دادا دادی سب ہولوکاسٹ سے بچ گئے تھے۔‘
مارگریٹن کے دادا دادی کا تعلق ہنگری سے تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ جب دوسری جنگ عظیم میں ان کا خاندان بھی نازیوں کے خوف کا شکار تھا تو افغانستان میں پیش آنے والے واقعات کو دیکھ کر انھیں یہ احساس ہوا کہ کچھ نہ کرنا کوئی آپشن نہیں تھا۔
وہ کہتے ہیں، ’ہمارے والدین اپنی زندگی بچانے کی غرض سے بھاگنے پر مجبور ہوئے اور وہ اسی طرح کے درد سے گزرے۔‘
اگست میں سمینٹوف نامی افغان قالینوں کے یہودی تاجر سے رابطہ ہونے سے پہلے تک مارگریٹن کا افغانستان سے براہ راست کوئی تعلق نہیں تھا۔
سیمنٹوف، جن کی کہانی بڑے پیمانے پر افغانستان کے آخری یہودی کے طور پر سنائی گئی ملک چھوڑنے کے لیے بے چین تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ملک دو دہائی قبل طالبان کنٹرول میں ہونے سے بھی زیادہ خطرناک تھا۔
’جب سے میں نے زابلون کو وہاں سے نکالا، میں نے وہاں لوگوں سے بات کرنا شروع کی اور انھوں بتایا کہ بہت سارے لوگ خطرے میں ہیں۔‘
مارگریٹن نے بروکلین کی یہودی برداری سے امداد جمع کرنی شروع کی تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو تحفظ فراہم کیا جا سکے۔
ان کی تنظیم نے افغانستان کی جونیئر فٹ بال ٹیم کی اراکین کو محفوظ راستہ فراہم کرنے میں مدد دی اور ان کو خاندان سمیت سرحد پار کروائی۔
ان میں سے کئی کھلاڑیوں کو، جن کی عمر 13 سے 19 ہیں، کئی ہفتے تک پاکستان میں پناہ لینے کے بعد برطانیہ میں رہنے کی اجازت مل گئی۔
افغان خواتین کی جونئیر نیشنل فٹبال ٹیم کے ارکان ستمبر میں ملک سے نکل گئے تھے
یہودی پیشوا کو دوسرے لوگوں نے بھی مدد کے لیے پکارا کیونکہ ان کی شہرت پھیل چکی تھی۔
ان کے بقول یہ فیصلہ کرنا دشوار تھا کہ کس کو زیادہ خطرہ ہے۔
’ایک جانب تو مجھے خوشی ہے کہ میں کچھ لوگوں کی مدد کر سکا، مگر دوسری جانب دل اداس ہے کہ اس سلسلے میں میری استطاعت محدود تھی۔‘
’وہ 24 گھنٹے کے اندر مجھے نکال کر لے گئے‘
ربی مارگریٹن سے مدد مانگنے والوں میں عورتوں اور بچوں کے حقوق کی علمبردار فریدہ (فرضی نام) بھی ہیں۔
فریدہ کی عمر 25 سال ہے۔ وہ کہتی ہیں ’جب طالبان نے کنٹرول حاصل کیا تو میں نے سب کچھ کھو دیا، میری امیدیں، میرے خواب، میری آزادی، میں باہر نہیں جا سکتی تھی، میں کام پر یا یونیورسٹی نہیں جا سکتی تھی، میری شخصیت مسخ ہوگئی۔‘
وہ کہتی ہیں کہ انھوں نے ’حقوق کے لیے برسوں جد و جہد کی‘، مگر طالبان کے اقتدار حاصل کرنے سے سب کچھ ملیامیٹ ہوگیا۔
’میں نے احتجاجی مظاہرے کیے اور طالبان سے کہا کہ وہ ہمارے حقوق ہم سے نہ چھینیں۔‘ فریدہ نے سوشل میڈیا پر پروٹیسٹ کی تصاویر شیئر کیں جن میں سے بعض میں طالبان کو گولیاں، ڈنڈے اور کوڑے مارتے دکھایا گیا تھا۔
بعد میں ان تصویروں کو ان کی شناخت کے لیے استعمال کیا گیا۔
’وہ ہمارے محلے میں آئے اور مجھے چھپنا پڑا۔‘
اس سے ڈر کر فریدہ نے مدد مانگی اور جلد ہی ان کا رابطہ یہودی پیشوا مارگریٹن سے کروا دیا گیا۔
وہ کہتی ہیں: ’وہ 24 گھنٹے کے اندر مجھے اور میرے خاندان کو افغانستان سے نکال کر لے گئے۔ میں بہت خوش ہیں۔‘
امریکی فوج کے طبی عملے کے دو افسران دارالحکومت کابل میں ایک ترجمان سے بات کرتے ہوئے (فائل فوٹو)
ایک افغان ترجمان عالم (فرضی نام) نے بھی یہودی پیشوا سے رابطہ کیا۔
ان کی عمر 36 سال ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنی ملک کے مستقبل کے لیے خوفزدہ ہیں اور مطمئن ہیں کہ وہ وہاں سے بھاگ آئے۔ ’میں ان ایکٹیوِسٹ میں سے تھا جو وہاں سے بھاگ نکلا۔ حکومت کی تبدیلی سے میرے لیے خطرہ پیدا ہوگیا تھا۔ سابق ترجمانوں کے لیے بہت خطرہ ہے۔ افعانستان اب رہنے کی جگہ نہیں ہے۔‘
طالبان کی فتح کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے طیاروں نے 123,000 سے زیادہ عام شہریوں کو افغانستان سے نکالا، تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ ان میں سے کتنے افغان شہری تھے۔
اب بھی ہزاروں افراد وہاں سے نکلنے کی کوشش میں ہیں۔ رِبی مارگریٹن کا کہنا ہے کہ ’میں ان کی مدد کرنے کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھوں گا۔
Comments are closed.