یو ایس ایس جارجیا: کروز میزائلوں سے لیس جوہری آبدوز جسے ایران اسرائیل تناؤ کے درمیان مشرقِ وسطیٰ بھیجا گیا
ایران نے ہنیہ کے قتل کا الزام اسرائیل پر عائد کرتے ہوئے بدلہ لینے کا اعلان کیا ہے۔ اسرائیل نے اس حوالے سے اب تک کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے لیکن خیال کیا جاتا ہے کہ اس قتل کے پیچھے اسرائیل کا ہی ہاتھ ہے۔پینٹاگون کی طرف سے اتوار کو جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ سیکرٹری آسٹن نے یو ایس ایس جارجیا گائیڈڈ میزائل لانچر (آبدوز) کو خطے میں بھیجا ہے۔یو ایس ایس جارجیا جوہری آبدوز ہے جو کروز میزائلوں سے لیس ہے۔ یہ آبدوز 154 ٹوماہاک کروز میزائل لے جانے کی صلاحیت رکھتی ہے جو زمینی اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ یو ایس ایس ابراہم لنکن جنگی جہاز پر ایف 35 سی لڑاکا طیارے موجود ہیں، اسے بھی جلد از جلد مشرق وسطیٰ پہنچنے کا حکم ملا ہے۔ یہ بحری جہاز اس خطے کی جانب رواں ہے اور یہاں پہلے سے تعینات ایک اور امریکی جنگی بحری جہاز کی جگہ لینے جا رہا ہے۔یہ واضح نہیں ہے کہ ایران کیا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔،تصویر کا ذریعہGetty Imagesایرانی حمایت یافتہ گروہ حزب اللہ کی جانب سے اسرائیل پر ایک اور حملے کا خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے۔حزب اللہ نے اسرائیلی حملے میں اپنے کمانڈر فواد شکر کی ہلاکت کا بدلہ لینے کا اعلان کیا ہے۔ ہنیہ کے قتل سے چند گھنٹے قبل فواد شکر بیروت میں ایک فضائی حملے میں مارے گئے تھے۔ یہ حملہ بیروت کے علاقے دحیہ میں ہوا جسے حزب اللہ کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔
قطر کی جارج ٹاؤن یونیورسٹی سے منسلک پروفیسر مہران کامروا کا کہنا ہے کہ امریکہ کی جانب سے الإعلان آبدوز بھیجنے کا مقصد ایران اور حزب اللہ کو خبردار کرنا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ شاید امریکہ کو کچھ ایسے اشارے ملے ہوں کہ ایران حملہ کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔اس پیش رفت کے بعد متعدد مسافر ایئر لائنز نے خطرے کے پیش نظر خطے کے ہوائی اڈوں کے لیے پروازیں منسوخ کر دی ہیں۔جرمن ایئرلائن نے پیر کے روز کہا کہ وہ سکیورٹی خدشات کے پیشِ نظر اسرائیل میں تل ابیب، لبنان کے دارالحکومت بیروت، اردن کے دارالحکومت عمان، عراق میں اربیل اور ایرانی دارالحکومت تہران کے لیے پروازیں 21 اگست تک معطل کر رہی ہے۔سوئس ایئر نے بھی اسی دورانیے کے لیے تل ابیب اور بیروت جانے والی اپنی پروازیں منسوخ کر دی ہیں۔فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی نیوز ایجنسی کے مطابق ایئر فرانس نے بیروت کے لیے اپنی پروازوں کی معطلی میں توسیع کر دی ہے۔ایئر بالٹک اور ایزی جیٹ سمیت دیگر ایئر لائنز نے پہلے ہی کہا ہے کہ وہ خطے کے لیے پروازیں معطل کر رہے ہیں۔ اس سے قبل اپریل میں شام میں اپنے قونصل خانے پر حملے کے بعد جب ایران نے اسرائیل پر حملہ کیا تھا تو اس وقت اس نے سینکڑوں فضائی ڈرونز اور میزائلوں کا استعمال کیا تھا۔،تصویر کا ذریعہReutersبائیڈن انتظامیہ کا خیال ہے کہ غزہ میں ایسی جنگ بندی جس کے نتیجے میں اسرائیلی یرغمالی رہا ہو سکیں، خطے میں کشیدگی کو کم کرنے کا بہترین طریقہ ہو گا۔ امریکہ نے جمعرات کو دوبارہ مذاکرات شروع کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ تاہم اتوار کی رات حماس نے جنگ بندی مذاکرات کو بحال کرنے کی امریکی کوششوں کا جواب یہ کہہ کر دیا کہ جو معاہدہ پہلے ہی پیش کیا جا چکا ہے، اسرائیل کو اس پر عمل درآمد کرنے پر مجبور کیا جانا چاہیے۔حماس کا کہنا ہے کہ غزہ کے تنازعے کے بارے میں جنگ بندی پر کسی بھی کسی بھی قسم کی بات چیت کا دوبارہ آغاز مذاکرات کے نئے دور سے پہلے والی پوزیشن پر ہونا چاہیے۔تاہم اس بیان سے مذاکرات میں حصہ لینے کا اشارہ ملتا ہے۔ واشنگٹن پہلے بھی حماس کو مذاکرات کی ناکامی کا ذمہ دار ٹھہراتا رہا ہے۔لیکن اسرائیلی پریس رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ امریکہ اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو کو مذاکرات کی ناکامی کا ذمہ دار سمجھتا ہے۔ ان پر اپنے اتحاد کے انتہائی دائیں بازو کے ارکان کو خوش کرنے کا الزام ہے۔ یہ اراکین حماس کے ساتھ معاہدے کے مخالف ہیں۔گذشتہ ہفتے پہلی مرتبہ وائٹ ہاؤس نے ان اتحادی رہنماؤں میں سے ایک وزیر خزانہ بیزلیل سموتریچ پر کھل کر تنقید کی۔سموتریچ نے اسرائیل پر زور دیا تھا کہ وہ جنگ بندی مذاکرات کے لیے امریکی دباؤ کو مسترد کردے، ان کا کہنا تھا کہ یہ حماس کے سامنے ہتھیار ڈالنا کے مترادف ہے۔ وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی نے سموتریچ کے بیان کو انتہائی غلط قرار دیا اور ان پر جھوٹے دعوؤں کا الزام لگایا۔ برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے رہنماؤں نے بھی جنگ بندی کے مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے مطالبات دہرائے ہیں۔برطانیہ کے وزیر اعظم سر کیر سٹارمر، فرانسیسی صدر ایمانوئل میخواں اور جرمن چانسلر اولاف شولز کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ہم مزید تاخیر کے متحمل نہیں ہو سکتے۔‘’ہم تمام فریقین کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں اور کشیدگی کو کم کرنے اور امن کا راستہ تلاش کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.