یوگینڈا کا رولیکس کوئی گھڑی نہیں بلکہ ایک پراٹھا رول ہے
- امینوئل اوانگا اور میریم وٹسمبا
- بی بی سی نیوز
آپ نے پاکستان میں ناشتے میں انڈا پراٹھا تو کھایا ہی ہوگا، اور رول پراٹھے کا نام بھی سنا ہوگا۔ مگر کیا آپ جانتے ہیں کہ افریقی ملک یوگینڈا اسی قسم کی ایک سوغات کا چیمپیئن بن گیا ہے۔
اوپر سے ایک اور مزے دار بات یہ ہے کہ انھیں رولیکس کہا جاتا ہے۔ جی یہ دنیا کی مہنگی گھڑی نہیں بلکہ پراٹھے میں لپٹے انڈے کے اوملیٹ کی بات ہو رہی ہے۔
یوگینڈا میں دنیا کا سب سے بڑا رولیکس بنایا گیا ہے جس کا وزن 204.6 کلوگرام اور لمبائی 2.32 میٹر ہے۔ یوگینڈا میں کہا جاتا ہے، ہمیں رولیکس پہننے کا نہیں بلکہ کھانے کا شوق ہے۔
یہ مقبول سوغات ملک بھر میں سڑک کنارے ٹھیلوں پر ملتی ہے، اور اس میں سبزیوں سے بھرا ایک اوملیٹ ہوتا ہے جسے چپاتی یا پراٹھے میں رول کیا جاتا ہے۔
یہ مزے دار ڈش یوگینڈا کے باہر بھی معروف ہو رہی ہے اور گینز ورلڈ ریکارڈز نے حال ہی میں یوگینڈا کو دنیا کا سب سے بڑا رولیکس بنانے کا اعزاز دیا ہے۔
دنیا کا سب سے بڑا رولیکس بنانے میں 1200 انڈے، 90 کلو سبزیاں (پیاز، ٹماٹر، گوبی، گاجر، اور مرچیں)، 72 کلو آٹا، اور 40 کلو تیل استعمال ہوا۔
اور ظاہر ہے یہ کوئی ایسی چیز نہیں تھی جو کسی سڑک کنارے بن سکتی۔ بلکہ اس کو بنانے میں 60 لوگوں کی ٹیم نے کام کیا۔
یوگینڈا میں یوٹیوب سٹار ریمنڈ کاہوما نے دارالحکومت کمپالا میں اس پر کام کرنے کے لیے باورچیوں اور بیکروں کو اکھٹا کیا جنھوں نے 14 گھنٹے لگا کر آٹا گوندھا، سبزیاں کاٹیں اور ان سب چیزوں کو فرائی کیا۔
اس چیلنج میں کھانا پکانے کے ہنر کے علاوہ فزکس کی سمجھ بوجھ بھی درکار تھی۔ اس پراٹھے کو فرائی کرنے کے لیے توے پر لے جانے اور پھر وزن کرنے کی مشین پر منتقل کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔
گینز ورلڈ ریکارڈز نے کہا کہ ‘ریمنڈ اور ان کی ٹیم ریکارڈ کی تیاری پر مہینوں سے کام کر رہی تھی تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ اس دن سب کچھ ٹھیک رہے۔
کاہوما کے مطابق، 2020 میں بھی ریکارڈ کی اسی طرح کی کوشش میں 3,000 ڈالر لگائے گئے تھے مگر کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔
اس 24 سالہ یوٹیوبر کا کہنا تھا کہ ‘ایسا لگتا تھا جیسے یہ تجربہ نہیں بلکہ میں ناکام ہو گیا تھا۔‘
خیال ہے کہ رولیکس سوغات کو سب سے پہلے ایک ٹھیلے والے نے کمپالا کی مشہور میکریری یونیورسٹی کے طلبا کے لیے بنانا شروع کیا تھا۔ اس کے بعد ڈش دوسرے شہروں میں پھیل گئی۔
اس سنیک کو اب یوگینڈا کے لوگوں کا پسندیدہ فاسٹ فوڈ سمجھا جاتا ہے اور پارکنگ لاٹس اور سڑک کے کنارے معمول کے مطابق شام کو کھانے کے سٹالز لگتے ہیں جہاں یہ بیچا جاتا ہے۔
چارکول کے چولہوں کے گرد گپیں مارتے ان لوگوں کا منظر جو اپنے رولیکس آرڈرز کے تیار ہونے کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں، اب ایک معمول کی بات ہے۔
ہارون اوڈیکے نے ایک دہائی قبل صرف 12 سال کی عمر میں کوئی اور نوکری نہ ملنے کے بعد رولیکس کا کاروبار شروع کیا تھا۔
ان کا سٹال یوگینڈا کے مشرقی قصبے ایمبیلے میں اسلامی یونیورسٹی کے باہر رولیکس فروشوں کی قطاروں کے درمیان ہے۔ وہ روزانہ تقریباً 100 رولیکس 2,000 یوگینڈا شلنگ یعنی 0.57 ڈالر میں فروخت کرتے ہیں۔
وہ پیاز، ٹماٹر، ہری مرچ اور گاجر کے ساتھ تیزی سے کام کرتے ہیں، اور بعض اوقات اگر گاہک کچھ سپیشل چاہے تو اس میں گوشت کے ٹکڑے ڈال دیتے ہیں۔
سڑک کے پار، 28 سالہ سنڈے بیڈومبا کا کہنا ہے کہ رولیکس تیار کرنے کے دو اہم طریقے ہیں: پیزا سٹائل، جس میں چپاتی کو ٹکڑوں میں کاٹ کر اسے انڈوں اور سبزیوں کے ساتھ ملانا اور ہلکی آنچ پر پکانا شامل ہے، اور روایتی انداز، چپاتی پر اوملیٹ ڈالنا۔
گاہکوں میں سے ایک، قانون کے طالب علم شبوگا مالے کا کہنا ہے کہ سستے تلے ہوئے کھانے سے انھیں وہی لذت ملتی ہے جو کہ ایک ریستوراں میں مکمل کھانا کھا کر ہوتی ہے۔
لیکن اس سٹریٹ فوڈ کی مقبولیت کی وجہ سے اب یہ اعلیٰ درجے کے ریستورانوں کے مینو میں بھی جگہ بنا چکا ہے مگر وہاں اس کی قیمت زیادہ ہے، کہیں تو تقریباً چار گنا زیادہ۔
اس کے باوجود، رولیکس کے شائقین کا کہنا ہے کہ ہوٹل کے رولیکس کا ذائقہ ٹھیلے والے کے ذائقے کے قریب بھی نہیں آتا ہے۔
اس کا راز شاید بنانے والے کی انفرادی مہارت ہو سکتی ہے۔ اسی لیے کچھ سٹالوں پر شاندار سوٹ پہننے امرا کو قدرے کم خوشحال لوگوں کے ساتھ ساتھ کھڑے دیکھنا عام ہے۔
اب گینز ورلڈ ریکارڈز کی جانب سے دنیا کے سب سے بڑے رولیکس کو تسلیم کرنے کا مطلب ہے کہ وقت آگیا ہے کہ دنیا یوگینڈا کی اس دعوت کو ضرور آزمائے۔
Comments are closed.