یوکرین کے پائلٹوں کو ایف 16 طیاروں کی تربیت دینے کا اعلان متوقع لیکن یہ طیارے دے گا کون؟
مغربی ممالک اب یوکرین کے پائلٹوں کو ایف 16 پر تربیت دینے کا ارادہ رکھتے ہیں لیکن اب بھی اہم سوال یہ ہے کہ یوکرین کو ایف سولہ طیارے کون دے گا؟
- مصنف, جوناتھن بیل
- عہدہ, دفاعی نامہ نگار، ناروے
مغربی اتحادی آج برسلز میں ہونے والی ملاقات کے دوران یوکرین کے پائلٹوں کو امریکی ساختہ ایف 16 طیارے اڑانے کی تربیت دینے کے منصوبے کا اعلان کریں گے۔
لیکن ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ کون سے ممالک یوکرین کو ایف 16 طیارے فراہم کرنے کے لیے تیار ہوں گے اور کتنے طیارے کب تک دے پائیں گے۔
ناروے کی فضائیہ کے سربراہ کا کہنا ہے کہ یوکرین کو ایف 16 لڑاکا طیارے فراہم کرنا مسئلے کا فوری حل نہیں ہو گا۔
میجر جنرل رولف فولینڈ کا کہنا ہے کہ یوکرین کو مغربی ممالک کے طیاروں کے پیچیدہ نظام کو سمجھنے اور استعمال کرنے میں مہارت حاصل کرنے میں وقت درکار ہو گا۔
’ہم اتحادی ناروے، فن لینڈ اور سویڈن میں ہونے والی ایک بڑی فضائی مشق میں مل رہے ہیں۔ اس مشق میں 150 لڑاکا طیارے شامل ہیں جو پوری یوکرینی فضائیہ سے کہیں زیادہ ہیں۔‘
جنرل فولینڈ کا کہنا ہے کہ تربیت کا مقصد فضا میں برتری حاصل کرنا ہے تاکہ اس صورتحال سے بچا جا سکے جو یوکرین میں ہو رہی ہے۔
فضاؤں میں غلبہ حاصل کرنے کے لیے پائلٹ کو مہارت کے اعلی معیار تک پہنچنا ہوتا ہے جو یوکرین کے لیے فی الحال حاصل کرنا ممکن نہیں ہو گا۔
انھوں نے کہا ایف سولہ طیاروں کا ایک چھوٹا سا بیڑا فراہم کرنا بھی ایک چیلنج ہو گا۔
بیلجیئم کے پائلٹ پلس کو اپنے ایف 16 لڑاکا طیارے میں مہارت حاصل کرنے میں تین سال لگے۔ ہمیں بیلجیئم کے پائلٹ کو اس کے اصل نام سے نہیں بلکہ کال سائن استعمال کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔
وہ ہمیں اپنا ایف 16 طیارہ دکھاتے ہیں جو پلس کی پیدائش سے پہلے 1970 کی دہائی کے اواخر میں ڈیزائن کیا گیا تھا۔
پلس کہتے ہیں: ’یہ بہت ہی اعلیٰ اڑتا ہے۔ لیکن طیارہ اڑانا پرواز کا سب سے آسان حصہ ہے. باقی سب زیادہ مشکل ہے
جس میں ایف 16 کے ریڈار، سینسر اور ہتھیار وں کو چلانا سیکھنا بھی شامل ہے۔‘
’طیارہ اڑانا پرواز کا سب سے آسان حصہ ہے، باقی سب زیادہ مشکل ہے‘
یوکرین، جس کے پاس فی الحال طیاروں کے مقابلے میں پائلٹ زیادہ ہیں، چاہتا ہے کہ پائلٹوں کی تربیت کو سالوں کے بجائے مہینوں میں مکمل کیا جائے۔
پلس یوکرین کو مغربی طیارے فراہم کرنے کی منطق کو سمجھتے ہیں۔ اپنے ایف 16 طیارے کے ہتھیاروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پلس بتاتے ہیں کہ یہ دشمن کے طیاروں کو تباہ کرنے کے لیے فضا سے فضا میں مار کرنے والے میزائل، اور زمین پر اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے بم ہیں۔
پلس کا کہنا ہے کہ ‘یہ بہت اہم ہے کیونکہ آپ اس جیٹ طیارے کے ساتھ نیٹو کے اسلحے کے ذخیرے سے کوئی بھی ہتھیار استعمال کر سکتے ہیں۔‘
لیکن پھر یہاں ان طیارہ کی دیکھ بھال کا سوال ابھرتا ہے۔
ناروے کی فضائیہ، یورپ کے دیگر ممالک کی طرح زیادہ جدید ایف 35 میں منتقل ہو گئی ہے. لہذا اصولی طور پر یوکرین کے لیے ایف 16 دستیاب ہونا چاہیے۔
اورلینڈ ایئر بیس پر وہ ہوائی جہاز کے انجینیئروں کو تربیت دینے کے لیے اپنے دو پرانے ایف 16 طیارے استعمال کرتے ہیں۔ اس میں ایک سال لگ سکتا ہے، ایک سینیئر ہوائی جہاز کے تکنیکی ماہر کے لیے شاید اس سے بھی زیادہ۔
بیس کمانڈر اور ایف سولہ کے سابق پائلٹ کرنل مارٹن ٹیسلی کہتے ہیں کہ ’آپ لڑاکا طیارے کسی کے حوالے کر کے یہ نہیں کہہ سکتے کہ لے جاؤ۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ان طیاروں کو پرواز کے قابل رکھنے کے لیے کچھ ضروریات ہوتی ہیں جیسے سپیئر پارٹس، سافٹ ویئر اور ہتھیار وغیرہ۔
لیکن کرنل مارٹن ٹیسلی یوکرین کی ایئرفورس کو جدید بنانے کی ضرورت کو سمجھتے ہیں۔
’ایک خاص وقت تک اگر انھیں دوسرا طیارہ فراہم نہیں کیا جاتا ہے، تو ان کے پاس اپنے دفاع کے لیے فضائیہ نہیں ہو گی.‘
آپ لڑاکا طیارے کسی کے حوالے کر کے یہ نہیں کہہ سکتے کہ لے جاؤ: کرنل مارٹن ٹیسلی
رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹیٹیوٹ کے جسٹن برونک کا کہنا ہے کہ یوکرین کو کسی بھی ایف 16 طیارے کو اڑانے کے لیے ممکنہ طور پر مغربی ٹھیکیداروں کی مدد کی ضرورت ہو گی۔ سوال یہ ہے کہ کون سا ملک اپنے لوگوں کو جنگ کے دوران یوکرین میں بھیجنے کے واضح خطرات کو قبول کرنے کو تیار ہے؟
پروفیسر برونک کا مزید کہنا ہے کہ اگر یوکرین کو مغربی طیارے فراہم کیے گئے تو روس کی جانب سے یوکرین کے فضائی اڈوں کو نشانہ بنانے کا زیادہ امکان ہے۔ یہ سنگل انجن والے ایف 16 کے لیے خطرہ ہے۔
یہی وہ وجوہات ہیں جن کی بنا پر امریکہ ایک طویل عرصے سے یوکرین کو ایف سولہ طیارے فراہم کرنے سے گریزاں ہے۔
یوکرین کو ایف سولہ طیارے نہ مہیا کرنے کی وجہ روس سے کشیدگی بڑھنے کے خوف سے زیادہ ان طیاروں کو چلانے اور برقرار رکھنے کے عملی پہلوؤں کے بارے میں زیادہ ہے۔ پینٹاگون نے متنبہ کیا ہے کہ یوکرین کو ایف سولہ طیارے فراہم کرنا مہنگا اور پیچیدہ عمل ہو گا۔
اگر یوکرین کو ایف سولہ طیارے مل بھی جائیں تو زمین پر لڑائی میں نمایاں تبدیلی کا امکان نہیں ہے۔
رائل نیدرلینڈز ایئر فورس کے سابق ایف 16 پائلٹ لیفٹیننٹ کرنل نیلس وان حسین کا کہنا ہے کہ ’ہتھیاروں کا ایک نظام کسی بڑی جنگ کو تبدیل نہیں کر سکتا۔‘
وہ سمجھتے ہیں کہ ایف 16 طیارے یوکرین کو اس کی موجودہ صلاحیت کو برقرار رکھنے میں مدد کر سکتا ہے۔
اس جنگ کی حقیقت یہ ہے کہ روس بھی اپنی بڑی فضائیہ کے ساتھ آسمانوں پر غلبہ حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔ زمین پر نصب فضائی دفاعی نظام ایسا ہونے سے روکنے میں مدد کر رہے ہیں۔
یوکرین کو مزید فضائی دفاع فراہم کرنا مغرب کی فوری ترجیح رہے گی لیکن اس کی فضائیہ کی تعمیر نو ایک طویل المدتی منزل ہے۔
Comments are closed.