’یوکرین کے مقابلے میں غزہ میں زیادہ ملبہ ہے‘: خان یونس سے ان بموں کو ہٹانے کی دوڑ جو ابھی پھٹے ہی نہیں
- مصنف, نروانا السعید
- عہدہ, بی بی سی عربی، ٹرینڈنگ
- ایک گھنٹہ قبل
اپریل کے اوائل میں اسرائیلی فوج کی جانب سے اپنے زیادہ تر فوجیوں کے انخلا کے بعد سے جنوبی غزہ کے شہر خان یونس کے کھنڈرات پر بمباری کی تصاویر دنیا بھر میں نشر اور شیئر کی گئی ہیں۔بے گھر ہونے والے فلسطینی اپنے گھروں کو لوٹ رہے ہیں اور جو کچھ ممکن ہے اسے بچانے کی کوشش کر رہے ہیں، انھیں ایک اور خطرہ درپیش ہے۔۔۔ وہ گولہ بارود جو ابھی پھٹا نہیں ہے۔اقوام متحدہ کے دفتر برائے رابطہ انسانی امور (یو این او سی ایچ اے) نے خان یونس کا جائزہ لیا۔ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ خان یونس کی سڑکیں اور عوامی مقامات ایسے گولہ باورد سے بھرے ہوئے ہیں جو ابھی پھٹے نہیں ہیں اور ان سے شہریوں کو شدید خطرات لاحق ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ٹیم کو 450 کلوگرام وزنی بم مرکزی چوراہوں اور سکولوں کے اندر پڑے ہوئے ملے۔ فوجی ماہرین کا اندازہ ہے کہ اسرائیل کی دفاعی افواج (آئی ڈی ایف) نے تنازعے کے آغاز سے اب تک دسیوں ہزار بم گرائے ہیں۔،تصویر کا ذریعہUNOCHA/Themba Lindenغزہ میں اقوام متحدہ کی ایک خصوصی ٹیم موجود ہے جو ریاست فلسطین میں اقوام متحدہ کی مائن ایکشن سروس کے نام سے جانا جاتا ہے۔چارلس برچ اقوام متحدہ کے اس ادارے کے سربراہ ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ’یوکرین کے مقابلے میں غزہ میں زیادہ ملبہ ہے۔‘انھوں نے کہا کہ بڑے پیمانے پر طیاروں کی جانب سے پھینکے گئے بموں سے لے کر دیسی ساختہ راکٹوں تک ہر چیز ہر قسم کا دھماکہ خیز ہتھیار موجود ہے۔برچ نے کہا کہ ان کا اندازہ ہے کہ 10 فیصد گولہ بارود پھٹتا نہیں ہے۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ اسرائیل فضائی حملوں کا استعمال زیر زمین ڈھانچوں یا سرنگوں کو نشانہ بنانے کے لیے کرتا ہے۔اسرائیل پر حماس کے حملے سے قبل یو این ایم اے ایس نے غزہ کی پٹی سے ’21 دفن شدہ بموں‘ کو ہٹانے کا کام تقریباً مکمل کر لیا تھا، جو عسکریت پسند گروپ اور اسرائیل کے درمیان گذشتہ تنازعات کی باقیات ہیں۔ہر بم کو ہٹانے میں ایک مہینہ لگا لیکن پھر سب کچھ بدل گیا۔برچ سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے کے وقت شمالی غزہ میں تھے۔ عسکریت پسندوں نے کم از کم 1200 اسرائیلیوں کو ہلاک کیا اور 250 سے زائد افراد کو یرغمال بنا کر غزہ واپس لے گئے۔اسرائیل کی جوابی کارروائی تیز تھی۔ وزیر دفاع یواو گالنٹ نے کہا کہ جنگ کے پہلے 26 دنوں کے دوران آئی ڈی ایف نے غزہ شہر پر 10 ہزار بم اور میزائل گرائے۔برچ نے کہا کہ ’یہ ایک بہت ہی سنگین صورتحال تھی۔ مارچ کے اواخر میں انسانی حقوق کے گروہوں اور صدر جو بائیڈن کی جماعت کے مطالبوں کے باوجود واشنگٹن پوسٹ اور خبر رساں ادارے روئٹرز نے خبر دی تھی کہ امریکہ نے 1800 ایم کے 84 کے 900 کلو گرام سے زائد بم اور 500 ایم کے-82 کے تقریباً 500 پاؤنڈ بم اسرائیل کو منتقل کرنے کی منظوری دی ہے۔ان بڑے بموں کو پہلے بھی غزہ میں فضائی حملوں سے جوڑا جاتا رہا ہے جن میں بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہوتی رہی ہیں۔ حماس کے زیرِ انتظام وزارت صحت کے مطابق غزہ میں اب تک کم از کم 33 ہزار 970 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔
بمباری کی شدت
اسرائیلی فضائیہ یا آئی ڈی ایف نے کبھی یہ نہیں بتایا کہ وہ حملوں میں کون سے ہتھیار استعمال کرتے ہیں۔تاہم یہ نتیجہ اخذ کرنا غلط نہیں کہ ہوائی جہازوں پر ہتھیاروں کی جو تصاویر وہ سوشل میڈیا پوسٹس میں شیئر کرتے ہیں وہ وہی ہتھیار ہیں جو وہ اس جنگ میں حملوں میں استعمال کر رہے ہیں۔ایمنسٹی انٹرنیشنل سے تعلق رکھنے والے ہتھیاروں کے ماہر برائن کاسٹنر کا کہنا ہے کہ تباہی کے پیمانے کے مطابق اسرائیل نے غزہ میں 900 کلو گرام وزنی ایم کے-84 بم گرائے ہیں۔انھوں نے کہا کہ ’ایم کے 84 بموں کا وزن تقریباً 900 کلوگرام ہے، جس میں سے نصف دھماکہ خیز مواد ہے اور باقی آدھا سٹیل ہے، اور وہ سینکڑوں میٹر دور شہریوں کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ لہٰذا انھیں کسی دوسری جگہ لے جایا جائے اور انھیں بحفاظت ٹھکانے لگایا جائے۔‘غزہ جغرافیائی لحاظ سے چھوٹا ہے اس لیے یہ بہت مشکل ہو سکتا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ پرہجوم علاقوں میں بغیر پھٹنے والے بموں کو محفوظ طریقے سے ٹھکانے لگائے بغیر ملبے تلے چھوڑنا ایک بڑا خطرہ ہے۔بی بی سی عربی ٹرینڈنگ نے آئی ڈی ایف سے پوچھا کہ ’انھوں نے غزہ کے کن علاقوں کو بغیر پھٹنے والے بموں سے پاک کیا ہے۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ ’معذرت لیکن ہم تفصیلات میں نہیں جائیں گے۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Images
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.