یوکرین کے صدر کا بی بی سی کو انٹرویو: ’روس صرف ہتھیاروں کی زبان سمجھتا ہے‘

  • مصنف, جان سمسن اور جیمز واٹرہاؤس
  • عہدہ, بی بی سی نیوز، کیئو

زیلنسکی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے روس کے ساتھ ممکنہ امن معاہدے کے تحت اپنی سرزمین کا کوئی بھی حصہ چھوڑنے کو رد کر دیا ہے۔

روس اور یوکرین جنگ کے ایک سال کے موقع پر بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انھوں نے خبردار کیا کہ ’سرزمین چھوڑنے کا مطلب ہو گا کہ ’روس دوبارہ حملہ آور ہو سکتا ہے‘ جبکہ مغربی ہتھیاروں کی مدد سے امن ممکن بنایا جا سکتا ہے۔

صدر زیلنسکی نے یہ بھی کہا کہ پیش گوئی کی گئی موسم بہار کی لڑائی پہلے ہی شروع ہو چکی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ مختلف علاقوں میں روسی حملے پہلے ہی شروع ہو چکے ہیں۔‘

تاہم، ان کا خیال ہے کہ یوکرین کی فوج جب تک جوابی کارروائی کے قابل نہیں ہوتی وہ روس کی پیش قدمی کے خلاف مزاحمت جاری رکھ سکتی ہے۔ انھوں نے مغرب سے مزید فوجی امداد کے لیے اپنے مطالبات کو بھی دہرایا ہے۔

صدر زیلنسکی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یقیناً جدید ہتھیار جلد امن لا سکتے ہیں کیونکہ روس صرف ہتھیاروں کی زبان ہی سمجھتا ہے۔‘

انھوں نے بین الاقوامی حمایت حاصل کرنے اور اپنے ملک کے دفاع کے لیے جدید ہتھیاروں کی مانگ کرنے کے لیے گذشتہ ہفتے برطانیہ اور یورپی یونین کے رہنماؤں سے ملاقات کی تھی۔

اس موقع پر جب یوکرین کے صدر نے جدید لڑاکا طیاروں کی مانگ کی تھی تو برطانیہ کے وزیر اعظم رشی سونک نے کہا کہ ’ہر معاملے پر بات ہو سکتی ہے۔‘

مگر جس رفتار سے یوکرین کو مغربی ہتھیار فراہم کیے گئے ہیں اس سے کیئو میں بے چینی اور اضطراب بڑھا ہے۔ جرمنی، امریکہ اور برطانیہ نے گذشتہ ماہ جو جنگی ٹینک یوکرین کو دینے کا وعدہ کیا تھا اس بارے میں اب بھی ایسا خیال کیا جاتا ہے کہ انھیں میدان جنگ میں پہنچنے میں ہفتوں باقی ہیں۔

صدر زیلنسکی نے بیلاروس کے رہنما الیگزینڈر لوکاشینکو کی طرف سے دی گئی دھمکی کا بھی ذکر کیا۔ الیگزینڈر لوکاشینکو نے کہا تھا کہ اگر یوکرین کا ایک بھی فوجی سرحد پار کرتا ہے تو وہ روسی فوج کے ساتھ اپنی سرزمین سے جنگ چھیڑ دیں گے۔

صدر زیلنسکی نے اس بارے میں مزید کہا کہ ’میں امید کرتا ہوں کہ (بیلاروس) اس جنگ میں شامل نہیں ہو گا۔ اور اگر وہ ایسا کرتا ہے تو ہم اس کے خلاف بھی لڑیں گے اور جیتے گے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’روس کو بیلاروس کو دوبارہ حملے کا جواز بنانے کی اجازت دینا ایک سنگین غلطی ہو گی۔‘

روسی افواج نے 12 ماہ قبل بیلاروس سے یوکرین پر بھرپور حملہ شروع کیا تھا۔ روسی فوج نے یوکرین کے دارالحکومت کیئو کی جانب جنوب سے پیش قدمی کی تھی لیکن جوابی کارروائی میں بھاری جانی نقصان اٹھانے کے بعد اسے ہفتوں میں ہی پیچھے ہٹنا پڑا تھا۔

یوکرین جنگ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

یہ بھی پڑھیے

جب یوکرینی صدر زیلنسکی سے پوچھا گیا کہ کیا جنگ میں روسی حربوں نے انھیں حیران کیا تو انھوں نے اسے ’غیر اہم‘ قرار دیا۔

’جس طرح انھوں نے سب کچھ تباہ کر دیا ہے۔ اگر ان کے فوجی یہ احکامات موصول کرتے اور ان پر عمل کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ وہ بھی وہی اقدار رکھتے ہیں۔‘

یوکرین کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق رواں ماہ روسی فوجیوں کی ہلاکتوں کی تعداد جنگ کے آغاز سے لے کر اب تک سب سے زیادہ رہی ہیں۔

تاہم ان اعداد و شمار کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کی جا سکتی، لیکن برطانیہ کی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ یہ رحجانات ’ممکنہ طور پر درست‘ تھے۔

صدر زیلنسکی کا کہنا تھا کہ ’آج، ہماری بقا کی وجہ ہمارا اتحاد ہے۔‘

ان کے خیال میں جنگ کیسے ختم ہو گی، کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے یقین ہے کہ یوکرین اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ان کا ملک اقتصادی طور پر اور اپنی اقدار کے لحاظ سے یورپ کی طرف بڑھ رہا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ہم نے اس راستے کا انتخاب کیا۔ ہم تحفظ کی ضمانتیں چاہتے ہیں۔ کوئی بھی علاقائی سمجھوتہ ہمیں بطور ریاست کمزور کر دے گا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اس کا مطلب خود پر سمجھوتا نہیں، ہمیں اس کا خوف کیوں ہونا چاہیے ہمیں روزانہ لاکھوں سمجھوتے کرتے ہیں۔‘

’اور سوال یہ ہے کہ سمجھوتا کس کے ساتھ؟ پوتن کے ساتھ؟ بالکل نہیں کیونکہ اس پر بلکل اعتماد نہیں ہے، اس کے ساتھ مذاکرات؟ بلکل نہیں کیونکہ اس پر اعتبار نہیں ہے۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ