- مصنف, سرگے مورفینوف
- عہدہ, بی بی سی یوکرین سروس
- ایک گھنٹہ قبل
روسی ٹیلی گرام چینلز میں متعدد ایسی ویڈیوز وائرل ہیں جن میں ایک ڈرون دوسرے ڈرون پر جال پھینک کر اسے پکڑ رہا ہے۔ ان ڈرونز کو ’نیٹ تھرور یا جال پھینکنے والے ڈرون‘ کہا جاتا ہے۔ٹیلی گرام پر ان پوسٹس میں دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ ڈرونز کو قابو کرنے کا یہ بہترین حل ہے، مگر ان جال پھینکنے والے ڈرونز کا مالک کون ہے؟ اس متعلق متضاد دعوے سامنے آ رہے ہیں۔یوکرین کی 92ویں بریگیڈ کے ایک ڈرون آپریٹر کا کہنا ہے کہ اس وقت ان جال پھینکنے والے ڈرونز کی افادیت کے متعلق حتمیٰ طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا اور ان کی کامیابی کا انحصار قسمت پر ہے۔تاہم یوکرینی ڈیزائنر طویل عرصے سے اسی قسم کے آئیڈیاز پیش کرتے آئے ہیں۔ تاہم وہ اسے ’نیٹ شوٹر‘ کے بجائے ’ڈرون فائٹر‘ کا نام دیتے ہیں۔
خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ آنے والے کچھ عرصے میں آسمانوں میں ڈورنز کی مدد سے لڑی جانے والے جنگ ایک نئی صورت اختیار کرلے گی، بالکل ویسے ہی جیسے 20ویں صدی میں طیارہ سازی کی صنعت نے شاندار ترقی کی تھی۔بی بی سی یوکرینین سروس نے جائزہ لیا ہے کہ کیا پائلٹ کی مدد کے بغیر کی جانے والی فضائی کارروائیوں میں جال پھینکنے والے ڈرونز اہم کردار ادا کر سکتے ہیں؟
جال پھینکنے والے روسی ڈرونز کیسے کام کرتے ہیں؟
اس سال جون کے بعد سے ٹیلی گرام چینلز نے کئی ویڈیوز شائع کی ہیں جس میں انھوں نے ان ڈرونز کو ’جال پھینکنے والے روسی ڈرونز‘ کا نام دیا ہے۔یہ پروپیلر یا پنکھے کی مدد سے چلنے والا ڈرون ہے، جو کہ دوسرے ڈرونز کو نشانہ بنانے کے لیے ایک چھوٹے جال نما ڈیوائس سے لیس ہے۔ویڈیوز میں جال پھینکنے والے ڈرونز کو دوسرے ڈرون (جنھیں مبینہ طور پر یوکرینی کہا جا رہا ہے) تک اڑ کر جاتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ یہ ڈرون دوسرے ڈرون پر جال پھینکتا ہے جو پنکھے سے لپٹ کر اس ڈرون کو گرانے کا سبب بنتا ہے۔،تصویر کا ذریعہTELEGRAM
- پلاسٹک کی وہ ’کینڈی‘ جس کے بغیر کوئی یوکرینی فوجی محاذ پر جانے کے لیے تیار نہیں16 جون 2024
- ایرانی حملے کو روکنے والا اسرائیل کا جدید ترین ’ایرو ایریئل ڈیفنس سسٹم‘ کیا ہے اور یہ کیسے کام کرتا ہے؟14 اپريل 2024
- انڈیا میزائل بردار امریکی ’پریڈیٹر ڈرون‘ حاصل کرنے والا پہلا غیر نیٹو ملک بن گیا: اس ڈورن میں خاص کیا ہے؟2 فروری 2024
’جال میں ڈرون پکڑنے کے امکانات ہزار میں سے ایک ہیں‘
یوکرینی فوج کی 92 برگیڈ میں فرسٹ اسالٹ بٹالین کے ڈرون پلٹون کے کمانڈر ڈمیتری نے بی بی سی کو بتایا کہ ان ’جال پھینکنے والے ڈرونز‘ کو وہ شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ ’دشمن کے ڈرون کو اس جال پھینکنے والے ڈرون سے پکڑنے کے امکانات ہزار میں سے صرف ایک ہیں۔ اسی دوران یہ بھی خطرہ ہوتا ہے کہ جال کھلے ہونے کی وجہ سے پرواز کے دوران آپ اپنا ہی ڈرون کھو دیں، یا آپ اسے ایک ہفتے تک اڑائیں اور پھر بھی کسی کو نہ پکڑ سکیں۔‘
ڈرون ٹیکنالوجی نے روس اور یوکرین جنگ کی شکل کیسے تبدیل کی؟
دنیا کی عسکری تاریخ میں متعدد ہتھیار بنائے جاتے رہے ہیں اور اس کے بعد ان کا توڑ ڈھونڈنے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔نئے ہتھیار اور جنگی حکمت عملی کے سبب فریقین کو میدانِ جنگ میں کامیابیاں ملتی رہی ہیں۔سلطنت روم میں بنائے گئے خنجروں، نیزوں اور منگولیا اور یورپ میں بنائے گئے تیر کمان جیسے ہتھیاروں نے ان کمانڈروں کو صدیوں تک جیت بخشی ہے جو انھیں استعمال کرنا جانتے تھے۔ تاہم بعد میں ان ہتھیاروں کو غیر مؤثر کرنے کے لیے بھی متعدد ہتھیار بنا لیے گئے۔روس کے حامی گروہوں نے یوکرین میں ڈرون کا استعمال 2014 میں ہی شروع کر دیا تھا اور پھر روس کی یوکرین پر چڑھائی کے بعد جاسوسی اور حملوں کے لیے بھی ان ڈرونز کا استعمال کیا گیا جس سے جنگ کی جارحانہ اور دفاعی شکل ہی تبدیل ہوگئی۔اسی کے سبب ان ڈرونز کو غیرمؤثر کرنے کے لیے دیگر ہتھیاروں کی تلاش شروع ہوگئی جو اب بھی جاری ہے۔ اس سمت میں پہلا قدم ایک ایسا ڈرون کش ہتھیار بنانے کی کوشش ہے جس میں جال پھینکنے کی صلاحیت ہو۔،تصویر کا ذریعہTELEGRAM
جال پھینکنا والا ڈرون کتنا کامیاب ہتھیار ہوگا؟
ڈرون کو غیرمؤثر بنانے والے ہتھیار پر تبصرہ کرتے ہوئے خودکار فائٹر ٹریننگ سسٹم بنانے کے ماہر پاؤلو لومیئر نے بی بی سی یوکرینین سروس کو بتایا کہ ’گرڈ کیا ہے؟ یہ ایک بڑا تباہ شدہ علاقہ ہے جہاں ہتھیار کے بالکل اچوک ہونے کی ضرورت کم ہوتی ہے۔‘اگر گرڈ کے کونوں پر وزن بڑھا دیا جائے تو یہ اپنے ہدف کو فضا میں ہی اپنے جال میں پھنسا سکتا ہے اور یہ پروپلر ڈرون کو قابو کرنے کے لیے ضروری بھی ہے۔پاؤلو کہتے ہیں کہ ’نیٹ یا جال پھینکنے والے ہتھیار کی ظاہری کمزوری یہ ہے کہ رینج کم ہوگی کیونکہ اسے تیز ہواؤں کا سامنا بھی ہوگا جس کی سبب اس کی رفتار کم ہو جائے گی۔ ہوا کے اثر کو کم کرنے کے لیے پتلے جال تیار کرنے ہوں گے۔‘پاؤلو کہتے ہیں کہ ’ہم نے سب سے پہلے یہ آئیڈیا سوچا تھا لیکن جب ہم اس پر ہنس رہے تھے اس وقت دشمن نے اس پر عمل درآمد بھی شروع کر دیا۔‘انھوں نے مزید کہا کہ ’روسی نیٹ شوٹر ڈراپر سائیڈوں سے وزنی دھات بھی فائر کرتے ہیں جو کہ کشش ثقل کا استعمال کرتے ہوئے نیچے گرتے ہیں۔ یہ کم فاصلے کے لیے بنائے گئے ہیں اور اسی سبب یہ مؤثر ثابت ہوسکتے ہیں۔‘
کیا ڈورن کو غیرمؤثر بنانے کے لیے جال کافی ہے؟
ڈیزائنرز اب ڈرون کش ہتھیاروں کو مزید مؤثر بنانے کے لیے مختلف آپشنز پر کام کر رہے ہیں۔ وہ اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ نئے ہتھیار کو بہتر بنانے کے لیے پُرانی تکینک کا استعمال کیا جائے جیسے کہ 17ویں اور 19ویں صدی میں بحری جہازوں سے دو گولے فائر کیے جاتے تھے جن کے درمیان ایک زنجیر بندھی ہوتی تھی۔جیسے کہ جنگِ ٹریفالگر میں یہ گولے جہازوں کے ڈھانچے کو نقصان پہنچاتے تھے ویسے ہی ’ڈورن جنگ‘ میں گولوں کے درمیان لگا کوئی تار ڈورن کے نازک حصوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔لیکن یہاں سوال یہ اُٹھتا ہے کہ ڈرون کے خلاف یہ طریقہ کامیاب ہوگا یہ نہیں؟پاؤلو کہتے ہیں کہ ’ابھی ہمارا مخالف (روس) صرف نیچے کی طرف جال پھینک رہا ہے جس سے وہ ڈرون کو پکڑ لیتے ہیں، لیکن نیٹ شوٹر ہتھیار اڑتی ہوئی چیز کو بھی قابو کرسکے گا یا اس کا پیچھا کر سکے گا، تاہم ایسی تکنیک کو بہتر کرنے اور اسے چلانے والے کی صلاحیتیں بڑھانے میں وقت لگے گا۔‘،تصویر کا ذریعہTELEGRAM
آسمانی حدود کی حفاظت
تاہم پاؤلو کہتے ہیں کہ انھیں نہیں لگتا کہ ’نیٹ شوٹرز‘ ایسے ڈرونز کے خلاف کارگر ثابت ہوں گے جو کہ ہتھیاروں کو چکمہ دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ وقت کے ساتھ ایسی ٹیکنالوجی ایجاد ہو جائے گی جو کہ روسی جاسوس ڈرونز ’اورلان‘ اور ’ژالہ‘ کے خلاف مؤثر ثابت ہو سکیں۔پاؤلو کہتے ہیں کہ ڈرونز کو تکنیکی طور پر بہتر کرنے کے علاوہ میدان جنگ میں یہ بات بھی معنی رکھتی ہے کہ انھیں استعمال کس حکمت عملی کے تحت کیا جاتا ہے۔وہ مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’نیٹ تھرور‘ کے لیے یہ تقریباً ناممکن ہے کہ وہ بغیر اپنی موجودگی کا احساس دلائے ایک سے زائد ڈرونز ی طرف لپک سکے۔یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ ڈرونز میں لگے کیمرے اور دیگر ہتھیاروں کو مفلوج کرنے کی صلاحیت رکھنے والے سینسرز بھی ’نیٹ تھرور‘ کو تھوڑا غیرمؤثر بنا سکتے ہیں۔پاؤلو اپنی بات کا اختتام کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان تمام چیزوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے یوکرینی فوج کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ’نیٹ تھرور‘ اور دیگر ڈرون مخالف ہتھیار، چاہے وہ کتنے ہی جدید کیوں نہ ہوں، آسمانی حدود کی حفاظت کرنے کا صرف ایک طریقہ ہے اور انھیں ایسے مزید طریقے ڈھونڈنے ہوں گے۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.