یوکرین روس تنازع: یوکرین کی روس کو نیوٹرل ہونے کی پیشکش مگر نیوٹرل ملک ہوتا کیا ہے؟
- پابلو اوچاؤ
- بی بی سی ورلڈ سروس
ایک خاتون جنگ مخالف پوٹسر اٹھائے ہوئے
یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے کہا ہے کہ روس کے ساتھ جنگ ختم کرنے کے لیے جاری مذاکرات کے ایک حصے کے طور پر یوکرین شاید نیوٹرل (غیر جانبدار) ملک بننے کے لیے تیار ہو جائے۔
لیکن حقیقت میں نیوٹرل ملک ہونے کا مطلب کیا ہے؟
’مختلف تعریفیں‘
ایک غیر جانبدار ملک دو یا دو سے زیادہ ممالک کے درمیان جنگ میں کسی کا بھی فریق نہیں بنتا۔ وہ متحارب ریاستوں کی مدد کر سکتا ہے اور نہ ہی انھیں نقصان پہنچا سکتا ہے، اور نہ ہی انھیں اپنی سرزمین کو فوجی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی اجازت دے سکتا ہے۔
یورپ اور وسطی ایشیا کے ممالک کے آئین سمیت کئی ممالک کے آئین میں غیر جانبداری کا یہ ہی اصول لکھا ہوا ہے۔
دیگر ممالک نے اپنے آپ کو غیر منسلک قرار دیا ہوا ہے، جس کا مطلب ہے کہ تنازعہ میں شامل کسی بھی فریق کا ساتھ نہیں دیں گے۔
برطانیہ کی بریڈ فورڈ یونیورسٹی میں بین الاقوامی سلامتی اور ترقی کے پروفیسر اوون گرین کہتے ہیں کہ ’غیر جانبداری کے تصور کی ایک طویل تاریخ ہے، لیکن آخر میں، غیر جانبداری وہی ہے جو اس کے متعلق ریاستیں کہتی ہیں۔‘
لیکن وہ کہتے ہیں کہ ’یہ انتہائی وسیع ہے اور اس پر بہت بات ہوتی ہے۔‘
سوئس غیر جانبداری
سوئٹزرلینڈ کے سبھی مردوں کو فوجی تربیت دی جاتی ہے اور سبھی کو گھر پر رکھنے کے لیے بندوق دی جاتی ہے لیکن فوجی حساب سے ملک غیر جانبدار ہے
سوئٹزرلینڈ غیر جانبداری کی سب سے قدیم اور شاید سب سے مشہور مثال ہے۔ سنہ 1815 سے غیر جانبداری سوئس خارجہ پالیسی کا ایک سخت اصول رہا ہے۔
دوسری جنگ عظیم کے دوران بھی سوئٹزرلینڈ غیر جانبدار رہا تھا اور جنگ کے بعد اس پر الزامات لگتے رہے کہ یہ نازی مجرموں کی پناہ گاہ بنا رہا تھا۔ یہ کبھی بھی یورپی یونین میں شامل نہیں ہوا، اگرچہ اس نے یورپی یونین کے ساتھ تجارت اور نقل و حرکت کی آزادی سے متعلق معاہدے کیے ہیں۔ یہ کبھی مغربی فوجی اتحاد نیٹو کا حصہ نہیں رہا اور یہ اقوام متحدہ میں بھی 2002 میں شامل ہوا تھا۔
پروفیسر گرین کہتے ہیں کہ اس عالمی طور پر ایک ایک دوسرے سے منسلک دنیا میں سوئس طرز کی غیر جانبداری کو برقرار رکھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
کیونکہ یورپی اتحاد کی مشترکہ خارجہ پالیسی میں سلامتی اور دفاع بھی شامل ہے، اس لیے روس سوئٹزرلینڈ اور یورپی اتحاد کے درمیان قریبی تعلقات کی وجہ سے اسے مغربی بلاک کا اتحادی سمجھتا ہے۔
پروفیسر گرین کہتے ہیں کہ سوئٹزرلینڈ اپنی دیرینہ غیر جانبدارانہ پالیسی سے آہستہ آہستہ ’دور‘ ہو رہا ہے۔
اور اس کی ایک تازہ مثال یہ ہے کہ یوکرین پر روسی حملے کے بعد سوئس حکومت نے یورپی اتحاد کے ساتھ مل کر روسی کمپنیوں اور افراد کے خلاف پابندیاں عائد کیں۔
تناؤ کو کم کرنا
لیکن سوئٹزرلینڈ غیر جانبدار خارجہ پالیسی پر عمل کرنے والا واحد یورپی ملک نہیں ہے۔ دوسروں نے بھی ایسا کیا ہے تاکہ جیو پولیٹیکل تناؤ کو کم کیا جا سکے۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد آسٹریا پر سوویت یونین، امریکہ، برطانیہ اور فرانس قابض تھے۔ غیر جانبداری ایک پیشگی شرط تھی جو سوویت یونین کی طرف سے عائد کی گئی تھی تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ سوویت یونین اور مغرب کے درمیان بفر موجود رہے۔
ملک اس اصول پر قائم رہا اور 1955 میں اسے اپنے آئین میں ایک تاریخی معاہدے کے حصے کے طور پر شامل کیا تاکہ دوسری جنگ عظیم سے پہلے جرمنی کے ساتھ متحد ہونے اور پھر تنازعے کے اختتام پر اتحادی افواج کے قبضے کے بعد اس کی آزادی دوبارہ حاصل کی جا سکے۔
آسٹریا یورپی اتحاد کا تو حصہ ہے لیکن نیٹو کا رکن نہیں ہے
پروفیسر گرین کہتے ہیں کہ آسٹریا کی غیر جانبداری ’ایک مخصوص تنازعے کے نتیجے میں براہ راست آتی ہے‘ اور یہ سوئس غیر جانبداری کی طرح سخت نہیں ہے۔
اگرچہ آسٹریا نیٹو کا رکن نہیں ہے اور وہ اپنی سرزمین میں غیر ملکی فوجی اڈوں کی اجازت بھی نہیں دے گا، لیکن بطور یورپی یونین کے ایک رکن کے اس نے یوکرین پر حملے کے بعد روس کے خلاف پابندیاں عائد کی ہیں۔
آسٹریا کے وزیر خارجہ الیگزینڈر شیلنبرگ کہتے ہیں کہ ’اگرچہ آسٹریا فوجی نقطہ نظر سے ایک غیر جانبدار ریاست ہے، لیکن جب بات تشدد کی ہو تو ہم غیر جانبدار نہیں ہوتے۔‘
یورپی یونین کے چھ ممالک نیٹو کا حصہ نہیں ہیں: فن لینڈ، سویڈن، آئرلینڈ، مالٹا، قبرص اور آسٹریا۔
لیکن قبرص کے علاوہ یہ سب نیٹو کے ساتھ پارٹنرشپ فار پیس (شراکت داری برائے امن) پروگرام کے ذریعے تعاون کرتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ مغربی فوجی اتحاد کے ساتھ اپنے تعلقات کو حسب ضرورت قائم کر سکتے ہیں۔
بفرز
ٹوکیو میں واسیدا انسٹیٹیوٹ فار ایڈوانس سٹڈی میں غیر جانبداری پر تحقیق کرنے والے سوئس محقق پاسکل لوٹاز کہتے ہیں کہ اس کے باوجود غیر جانبدار ریاستیں اپنا جغرافیائی سیاسی مقصد پورا کرتی ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’وہ مخالفین کے درمیان ’فزیکل سپیس‘ رکھ کر کام کرتے ہیں اور اس طرح ’سکیورٹی کی مشکل کو کم کرتے ہیں۔‘
سابق سوویت جمہوریہ مالڈووا نے 1994 میں اپنے آئین میں مستقل غیر جانبداری کی شق لکھی تھی۔
ایک اور سابق سویت جمہوریہ ترکمانستان میں 12 دسمبر کو غیر جانبداری کا دن بڑے پیمانے پر منایا جاتا ہے، یہ 1995 میں اس کے مستقل طور پر غیر جانبداری کے اعلان کی سالگرہ کا دن ہے۔
منگولیا کے صدر ساخیا ایلبیگ دورج
منگولیا نے، جو اکثر سرد جنگ کے دوران چین اور سوویت یونین کے درمیان سفارتی تنازعات میں پھنسا رہتا تھا، 2015 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنی غیر جانبداری کا اعلان کیا تھا۔
اس وقت منگولیا کے سابق صدر ساخیا ایلبیگ دورج اقتدار میں تھے۔ انھوں نے کہا تھا کہ ’منگولیا کی تاریخ، ہمارا جغرافیائی محل وقوع اور ترقی کے ہمارے منتخب کردہ راستے کی انفرادیت غیر جانبداری کی روح اور اصولوں سے ہم آہنگ ہے۔‘
تاہم انھوں نے دوسرے ممالک کو یاد دلایا کہ جن غیر جانبدار ریاستوں پر حملہ ہوتا ہے انھیں اپنے دفاع کا ’مکمل حق‘ حاصل ہے۔
فوجی ساز و سامان میں سرمایہ کاری
پروفیسر گرین کہتے ہیں کہ یہ ایک غلط فہمی ہے کہ غیر جانبدار ریاستیں سلامتی کے سوال پر کم فکر مند ہوتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’درحقیقت، زیادہ تر غیر جانبدار ریاستیں اپنی فوج میں جانبدار ریاستوں کے مقابلے میں زیادہ سرمایہ کاری کرتی ہیں کیونکہ انھیں اپنے دفاع کے لیے خود پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔‘
سوئٹزرلینڈ کی مسلح افواج کو یورپ کی سب سے زیادہ صلاحیتوں والی فوج میں سے ایک شمار کیا جاتا ہے۔ تمام صحت مند سوئس مرد فوجی خدمات سر انجام دیتے ہیں اور سب کو گھروں میں رکھنے کے لیے بندوق جاری کی جاتی ہے۔
پروفیسر گرین کہتے ہیں کہ ’جدید دنیا میں ایک غیر جانبدار ریاست ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہمیں یقین نہیں ہے کہ جنگ کبھی ہو سکتی ہے۔ وہ صرف یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم اس میں اپنی مرضی سے حصہ نہیں لیں گے۔‘
لہٰذا غیر جانبداری فوج کے نہ ہونے سے بہت مختلف ہے۔
کوسٹاریکا کی پولیس فورس پڑوسی ملکوں کی فوج جتنی مضبوط ہے
کوسٹا ریکا نے 1949 میں اپنی فوج ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن کوسٹاریکا کے پاس اپنے پڑوسی ملکوں کی فوج جتنی مضبوط پولیس فورس موجود ہے۔
کوسٹکا ریکا اپنے آپ کو ایک ایسی ریاست گردانتا ہے جو اجتماعی مفادات کا تحفظ کرتی ہے۔ کوسٹاریکا نے خطے کے ممالک میں فوجی بغاوتوں کی وجہ سے فوج کو ختم کرنے کا سیاسی فیصلہ کیا تھا۔
پروفیسر گرین کا کہنا ہے کہ کوسٹا ریکا کا آئین بیرون ملک جنگوں سے منع کرتا ہے لیکن اگر کسی ملک نے اس پر حملہ کیا تو اسے بہت سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
جاپان کا آئین بھی اسے جنگوں میں شریک ہونے سے منع کرتا ہے لیکن جاپان کے پاس ایک مضبوط فوج ہے۔ اس کے علاوہ جاپان کا امریکہ کے ساتھ سیکورٹی اتحاد بھی ہے۔
آسٹریا اور سوئٹزرلینڈ کے درمیان ایک چھوٹا سا ملک لکٹنسٹائن واقع ہے جو اپنےدفاع کے لیے سوئٹزرلینڈ پر بھروسہ کرتا ہے۔ لکٹنسٹائن نے انیسویں صدی میں اپنی فوج کو ختم کر دیا تھا۔
توازن برقرار رکھنے کی کوشش
بعض ممالک عالمی معاملات میں غیرجانبداری کی پالیسی اپنانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔
سنگاپور اور تائیوان کا شمار ایسے ممالک میں ہوتا ہے جنھیں امریکہ، چین اور جاپان جیسے حریفوں کے درمیان توازن رکھنا ہوتا ہے۔ سنگاپور ایک لمبے عرصے سے کامیابی کے ساتھ امریکہ اور چین کے درمیان غیر جانبداری کی پالیسی پر گامزن ہے۔ لیکن چین کی جانب سے حملے کے خطرے کی وجہ سے تائیوان کے لیے غیر جانبداری کی پالیسی اپنانا کافی مشکل امر ہے۔
یہ بھی پڑھیے
سنگاپور ہمیشہ امریکی اسلحہ خریدتا ہے لیکن وہ چین یا امریکہ میں سے کسی ایک کی طرفداری سے گریز کرتا ہے
دنیا میں 120 ممالک اپنے آپ کو غیر وابستہ کہتے ہیں جو کسی بڑے بلاک کا حصہ نہیں ہیں۔ 1961 میں سابق یوگوسلاویہ سے ابھرنے والے غیر وابستہ سیاسی نظریے کے تحت غیر وابستہ ممالک کی تحریک عمل میں آئی تھی۔
سابق یوگوسلاویہ کے ایک حصے سربیا نے 2007 میں غیر جانبداری کا اعلان کیا ہے اور اب وہ یورپی یونین کا ممبر بننے کے لیے مذاکرات کر رہا ہے۔
افریقی ملک رونڈا میں 994 میں نسل کشی کے واقعات کے بعد 2009 سے مستقل غیر جانبداری کا اعلان کیا ہے اور اب وہ کامن ویلتھ کے حصہ بن چکا ہے۔.
نیوٹرل یوکرین کیسا ہو گا؟
اس کا انحصار روسی اور یوکرینی سفارت کاروں کے درمیان جاری مذاکرات پر ہے۔ سوئس محقق لوٹاز سمجھتے ہیں کہ روس کی یوکرین سے ‘غیرجانبداری’ کی شرط ایسی ہے جس پر روس کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔ وہ چاہے گا کہ غیر جانبداری کو یوکرین کے آئین میں بھی لکھا جائے۔
لیکن پروفیسر گرین کہتے ہیں کہ نیوٹریلٹی یا غیر جانبداری ایک ایسی مبہم سی چیز ہے۔ ’میں سمجھتا ہوں کہ یوکرینوں کے لیے غیر جانبدار ہونا غیر دانشمندانہ فیصلہ ہو گا۔‘
پروفیسر گرین کہتے ہیں کہ روس غیر جانبداری کی وہ تعریف کرے گا جو یوکرین کو ناقابل قبول ہو گی۔
یوکرین کی سرزمین پر نیٹو افواج کی موجودگی کسی صورت بھی قابل قبول نہیں ہو گی
یوکرین کے حوالے سے غیر جانبداری کی ایک ٹھوس تعریف یہ ہو سکتی ہے کہ وہ نہ تو نیٹو اتحاد کو جوائن کرے گا اور نہ نیٹو یا روسی افواج کو اپنے سرزمین پر آنے کی اجازت دے گا۔
لیکن معاملہ یوکرین کی یورپی یونین کی ممبرشپ پر معاملہ پھنس جائے گا۔ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ یوکرین بھی آسٹریا کی طرح نیٹو اتحاد کا حصہ نہ ہوتے ہوئے بھی یورپی یونین کا ممبر بن سکتا ہے۔ لیکن یورپی یونین کی ممبرشپ کے ساتھ تحفظ کی ضمانت بھی آئے گا اور روس اس کو غیر جانبداری کی پالیسی کی خلاف ورزی قرار دے گا۔
لیکن لوٹاز سمجھتے ہیں کہ دونوں ملک امن کے عمل کو شروع کرنے کے لیے یورپی یونین کی ممبرشپ کے معاملے کو مبہم ہی چھوڑ سکتے ہیں۔ روس کے صدر ولادیمیر پوتن کہتے ہیں کہ وہ یوکرین کو ‘غیر فوجی’ کرنا چاہتے ہیں لیکن انھوں نے کبھی اس کی وضاحت نہیں کی ہے۔
پروفیسر گرین سمجھتے ہیں کہ ’غیر فوجی‘ یوکرین اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکے گا۔ لیکن لوٹاز سجھتے ہیں کہ روس یوکرین سے اپنی فوج ختم کا مطالبہ نہیں کر رہا ہے۔
لوٹاز سمجھتے ہیں کہ دونوں ملک یوکرین کی فوجی کی تعداد، جوہری اور دوسرے مہلک ہتھیاروں کو ممنوعہ قرار دینے کے علاوہ نیٹو کے ساتھ کوئی معاہدہ نہ کرنے پر رضامند ہو سکتے ہیں۔
لوٹاز کا کہنا ہے کہ یوکرین کے غیر فوجی ہونے کا ایک پہلو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ جارحانہ ہتھیاروں کو حاصل نہیں کرے گا لیکن وہ یہ بھی مانتے ہیں اس کا انحصار سفارت کاروں پر ہے جو بات چیت کر رہے ہیں۔
Comments are closed.