یوکرین کی جنگ: ‘ابھی تو یہ صرف شروعات ہے، ابھی تو سب کچھ آنا باقی ہے’
- جیریمی بووین
- بی بی سی نیوز، ڈنپرو
باخموت کے قصبے پر شدید بمباری کی گئی ہے
روسی حملے کے بعد کئی مایوس کن ہفتوں کے بعد یوکرین کی فوج اب تک کے سب سے زیادہ دباؤ میں ہے اور یوکرینی فوج ڈونباس خطے کے شمالی حصے لوہانسک میں بظاہر ایک ہاری ہوئی جنگ لڑ رہا ہے۔
یوکرین کے فوجی سربراہ کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ روس اپنی فوج کو ایک اور دباؤ بنانے کے لیے مرکوز کر رہا ہے۔
گذشتہ چند روز میں روسی فوج نے ڈونباس کے محاذ پر اپنے حملوں کو تیز کر دیا ہے اور حتمی حملے سے پہلے 80 ہزار کی آبادی والے شہر سیویرودونتسک کا محاصرہ کرنے کے قریب پہنچ رہے ہیں۔
ہمیشہ کی طرح یوکرینی شہری اپنے سخت عزائم کے ساتھ لڑ رہے ہیں، انھیں اس جنگ کے لیے کمک پہنچ رہی ہے۔
صرف چند منٹوں کے دوران میں نے فوجیوں سے بھری تقریباً 20 بکتر بند گاڑیاں محاذ کی جانب جاتے دیکھیں۔ ان گاڑیوں میں ٹینکس اور متعدد راکٹ لانچرز بھی تھے۔
انھوں نے روسیوں کی پیش قدمی کو سست تو کر دیا ہے لیکن ان کو آگے سے نہیں روک پائے ہیں۔ روسی بھاری جانی نقصان پہنچا رہے ہیں۔
57 ویں بریگیڈ کے ایک فوجی ذرائع نے مجھے بتایا کہ ان کی ایک یونٹ 240 جوانوں کے ساتھ محاذ پر گئی لیکن صرف تقریباً 140 جوانوں کے ساتھ باہر آئی، باقی یا تو مارے گئے، یا زخمی ہوئے اور پکڑے گئے۔
ڈونباس میں یوکرینی فوجیوں کو کمک پہنچ رہی ہے
یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے کہا ہے کہ روسی ڈونباس میں روزانہ تقریباً 100 یوکرینی فوجیوں کو ہلاک کر رہے ہوں گے۔
سیویرودونتسک کے قریب ہی باخموت نامی ایک ایسا قصبہ ہے جو آہستہ آہستہ جنگ کی نذر ہو رہا ہے۔ رواں ہفتے روسی فوجی اس قصبے سے تقریباً تین میل دور ہیں لیکن یہ علاقہ ان کی زد میں ہے۔ اگلے ہفتے وہ اور بھی قریب ہوسکتے ہیں۔
جن شہریوں کے پاس کہیں جانے کا آپشن تھا وہ چلے گئے ہیں۔مارچ کے مہینے میں کیئو میں نظر آنے والا فتح کا جوش، شان و شوکت اور قربانی ڈونباس کے کھنڈرات میں دور دور تک محسوس نہیں ہوتی ہے۔
باخموت پر شدید گولہ باری کی گئی ہے۔ اپنے تباہ شدہ گھر کے سامنے کھڑے اپنی عمر کی چوتھی دہائی والے میتری نامی ایک شخص نے اپنی مزاحمت، خوف اور مایوسی کا اظہار کیا۔ انھیں اندازہ نہیں کہ وہ اپنے شہر سے کیا توقع رکھیں۔
’میں نوسترڈیمس نہیں ہوں۔ پوتن نے حملہ کیوں کیا؟ یہ سب سیاسی کھیل ہے۔‘
میتری نے کہا کہ صدر زیلنسکی کے پیشرو پیترو پوروشینکو اب تک جنگ بندی کے کسی معاہدے پر پہنچ چکے ہوتے۔
انھوں نے کہا ’کم از کم پہلے امن تھا، وہ مذاکرات کر رہے تھے۔ یہ مرنے والوں کے لیے افسوس کا مقام ہے۔ یہ واقعی شرم کی بات ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ یہ صدر زیلنسکی کی غلطی ہے۔ انھوں نے موقع گنوا دیا۔
اب بھی ہزاروں شہری سیورودونتسک میں موجود ہیں
جب میں نے میتری سے پوچھا کہ کیا وہ اس معاہدے کو قبول کریں گے جس میں روس کو حملے سے پہلے اس کے زیر کنٹرول تقریباً ایک تہائی علاقے کے مقابلے میں تمام ڈونباس پر کنٹرول کی اجازت مل جائے تو اس سوال پر میتری نے کندھے اچکا کر غصے سے سگریٹ کا کش لیا۔
انھوں نے کہا ‘میں نہیں جانتا۔ اس سے میرے لیے کیا بدل جائے گا؟ اہم چیز زندہ رہنا ہے۔ یہ تو صرف شروعات ہے، ابھی سب کچھ آنا باقی ہے۔ اگر ہم زندہ رہے تو دیکھیں گے کہ یہ آگے کیا ہوتا ہے۔‘
اب بھی ہزاروں شہری سیورودونتسک میں موجود ہیں، کیونکہ روسی ڈونباس کے شمالی حصے میں لوہانسک کے ضلعے میں آخری یوکرینی فوجیوں کو گھیرے میں لینے کے لیے لڑ رہے ہیں۔
جنگ سے محفوظ فاصلے پر پوکرووسک کے ریلوے سٹیشن پر میں نے ایک بزرگ خاتون لیڈا سے بات کی جو ویل چیئر کا استعمال کرتی ہیں اور وہ ابھی ابھی سیورودونتسک سے باہر لائی گئيں ہیں۔
دیگر معذور اور زخمی شہریوں کے ساتھ انھیں ایک خصوصی ٹرین سے نسبتا محفوط یوکرینی علاقوں میں منتقل کیا جا رہا ہے۔ یہ ریل ایک قسم کی ایمبولینس میں تبدیل ہو چکی ہے جہاں ایم ایس ایف کے ڈاکٹرز وداؤٹ بورڈرز طبی امداد فراہم کر رہے ہیں۔
لیڈا کے سیگریٹ کے دھوئيں سے مزاحمت پھوٹی پڑتی ہے۔ انھیں اور دیگر شہریوں کو بھاری گولہ باری والے علاقوں سے نکالا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
وہ کہتی ہیں: ‘انھوں نے ہر چیز پر بمباری کی، ہم بمشکل بچ نکلے۔ شیشے ٹوٹ گئے، ہر چیز ادھر ادھر بکھر گئی۔ اور میں کہ چلنے پھرنے کے بھی قابل نہیں، معذور ہوں۔ ایسا ہی ہے۔
‘نو منزلہ عمارتوں کی بالائی منزلیں تباہ ہو گئین، سب برباد
‘پوتن ایک بدمعاش ہے۔ ہم امن سے رہتے تھے۔ ایک سوویت یونین ہوا کرتا تھا اور یہ بھی ایسا ہی ہے۔ انھوں نے یوکرین اور روس کو تقسیم کیا۔ اسی وجہ سے مسائل شروع ہوئے۔’
اگر صدر پوتن کی افواج سیویرودونتسک کو گھیرے میں لے لیتی ہیں، تو ان کا اگلا ہدف ڈونباس کی دوسری طرف غالباً ڈونیتسک ضلعے میں واقع کراماتوسک اور سلویانسک کے اہم شہر ہوں گے۔
لوگ باخموت چھوڑ رہے ہیں
تب وہ ڈونباس کی جنگ میں فتح کا اعلان کر سکتے ہیں۔
اب جبکہ یوکرینی پیچھے ہٹے کی پوزیشن کے لیے تیاری کر رہے ہیں تو ایسے میں ہم نے دونوں شہروں کے قریب تازہ کھودی ہوئی خندقوں کے سلسلے دیکھے۔ اگر وہ یہ علاقہ ہار گئے، اور یہ کوئی یقینی بات نہیں ہے کیونکہ دونوں کا بھرپور دفاع کیا جا رہا ہے، تو صدر پوتن جنگ کی اپنی پہلی اہم فتح کا اعلان کر سکیں گے۔
اس کے بعد روس ڈونباس کے جنوب میں اپنی سرحد کے ساتھ اور یوکرین کی بیشتر ساحلی پٹی کے ساتھ پھیلے ہوئے علاقے کو کنٹرول کرے گا۔
صدر زیلنسکی کا کہنا ہے کہ صرف سفارت کاری ہی جنگ کو ختم کر سکتی ہے، لیکن اس کے ساتھ ان کی یہ شرط ہے کہ روس حملے سے پہلے والی پوزیش پر واپس جائے۔
امریکہ اور برطانیہ کی قیادت میں اس کے اتحادی پوتن کے روس کو مستقل طور پر کمزور کرنا چاہتے ہیں۔ انھوں نے کہا ہے کہ روس کو کسی بھی حال میں جیتنا نہیں چاہیے۔
ان کے ناقدین کا کہنا ہے کہ وہ آخری یوکرین کی زندہ رہنے تک لڑیں گے۔
جنگ کی کرنسی خون ہے۔ جوں جوں یوکرین کے لوگ اپنے مُردوں کو دفن کر رہے ہیں باخموت میں میتری کے جیسے بہت سے لوگ اس خون کی قیمت پر سوال کریں گے جو وہ ادا کر رہے ہیں، اور پوچھیں گے کہ کیا جنگ بندی کے لیے زمین دینا زیادہ بہتر ہے یا پھر جان دینا۔
Comments are closed.