یوکرین کی امیر کاروباری شخصیات کو اربوں کا نقصان: کیا بدنامِ زمانہ ’اولیگارکس‘ کا عروج ختم ہو رہا ہے؟

  • مصنف, ویٹالی شیوکانکچوف
  • عہدہ, بی بی سی مانیٹرنگ

یوکرین جنگ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

گذشتہ دہائیوں کے دوران یوکرین کے انتہائی امیر کاروباری افراد نے اپنے ملک کے اندر بہت زیادہ اقتصادی اور سیاسی طاقت حاصل کی ہے۔ تاہم یوکرین پر روس کے حملے کے بعد سے بہت سے بدنامِ زمانہ اولیگارک ( انتہائی امیر افراد) کو اب اپنی آمدن میں اربوں کے نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

تو کیا آمدن میں اس شدید نقصان کے بعد یوکرین کے ارب پتی اولیگارک خاندانوں کے عروج کے دور کا خاتمہ ہو گیا ہے؟

یوکرین کے امیر ترین شخص 56 سالہ رینات اخمتوف ہیں۔ وہ کوئلے کی کان میں مزدوری کرنے والے شخص کے بیٹے ہیں اور اپنی محنت کے بل بوتے پر ارب پتی بنے ہیں۔ انھیں یوکرین بھر میں ’ڈونباس کے بادشاہ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

وہ یوکرین میں سٹیل اور کوئلے کی صنعت کے ایک بہت بڑے حصے کے مالک ہیں۔ ’آزووسٹل سٹیل ورکس کمپنی‘ جو جنگ کے باعث اب کھنڈرات میں بدل چکی ہے، اس کے مالک بھی رینات اخمتوف ہی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ ملک کی بہترین فٹ بال ٹیموں میں سے ایک ’شاہکتر دونسٹک فٹبال کلب‘ کے بھی مالک ہے، اور یوکرین کا ایک معروف اور اہم ٹی وی چینل بھی ان ہی کی ملکیت میں ہے۔

اپنی غیر معمولی دولت کے علاوہ، یوکرین کے ارب پتی افراد سیاسی معاملات کو چلانے کے لیے بھی مشہور ہیں۔

سنہ 2017 میں لندن میں قائم تھنک ٹینک چیٹھم ہاؤس نے کہا تھا کہ وہ (اولیگارک) ’یوکرین کے لیے سب سے بڑا خطرہ‘ ہیں۔

اتحادیوں اور وفادار ارکان اسمبلی کے ایک وسیع نیٹ ورک کے ذریعے یوکرین کے اولیگارک اپنی کاروباری سلطنتوں کے فائدے کے لیے پارلیمان سے قوانین کی منظوری جیسے معاملات پر بار بار اثر انداز ہوئے ہیں۔

یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی نے انھیں ’افراد کا ایک ایسا گروہ قرار دیا جو خود کو قانون سازوں، سرکاری اہلکاروں یا ججوں سے زیادہ اہم سمجھتا ہے۔‘

لیکن بہت سارے عام شہریوں کی طرح سنہ 2014 میں یوکرین کے مشرقی علاقوں پر روسی حملے کے بعد سے، ان امیر ترین افراد کے کاروباروں کو شدید نقصان پہنچا ہے اور ان کی املاک روسی قبضے کی وجہ سے تباہ ہو گئی ہیں۔

یوکرین

مشرقی یوکرین میں تنازع

بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ یوکرین کے سب سے امیر آدمی ہونے کے ناطے اخمتوف کو اپنے آبائی علاقے میں روس کی طرف سے پھیلائی گئی علیحدگی پسندی کو ختم کرنے کے لیے شروع سے ہی بہت کچھ کرنا چاہیے تھا۔

جیسے ہی روس نے فوجی طاقت کے ذریعے ڈونباس کو اپنی جکڑ میں لیا تو انھوں (اخمتوف) نے اپنی فیکٹریوں میں بطور احتجاج سائرن بجوائے اور انھوں نے علیحدگی پسندوں کے حوالے سے تنقیدی بیانات بھی جاری کیے۔

لیکن جہاں تک روس کے خلاف مزاحمت کی مالی اعانت اور حمایت کا تعلق ہے، انھیں اس حوالے سے بہت کم کارروائی کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

خاص طور پر جب ان کا موازانہ ایک اور یوکرینی ارب پتی شخص اہور کولوموسکی سے کیا جائے تو انھوں نے اس تنازع میں یوکرین کی بہت کم مالی اعانت کی ہے۔

مارچ 2014 میں انھیں جنوب مشرقی یوکرین کے نیپروپیٹروسک خطے کا گورنر مقرر کیا گیا تھا۔ جیسے جیسے تنازع بڑھتا گیا، اہور کولوموسکی نے لاکھوں افراد کو یوکرین کی رضاکار فوج میں بھیج دیا۔ انھوں نے روسی حمایت یافتہ عسکریت پسندوں کو پکڑنے پر انعامات کی پیشکش کی اور یوکرین کی فوج کو ایندھن فراہم کیا۔

لیکن پھر 2019 میں اُن کا صدر زیلنسکی کے پیشرو پیٹرو پوروشینکو کے ساتھ اختلاف ہو گیا۔

اس اختلاف کی وجہ پارلیمنٹ کی جانب سے ایک قانون منظور کیا جانا تھا جس کے نتیجے میں کولوموسکی ایک تیل کمپنی پر کنٹرول کھو بیٹھے تھے۔ اس کے جواب میں مبینہ طور پر مسلح افراد آئل کمپنی کے ہیڈ کوارٹر پر چڑھ دوڑے تھے۔

لیکن مشرقی یوکرین میں اب تک جاری جنگ محاذ سے ابھی تک مزید فیکٹریوں، کانوں اور زرخیز کھیتوں کے نقصان کے باعث یوکرین کے ارب پتی افراد کا زوال جاری تھا۔

یوکرین

،تصویر کا ذریعہGetty Images

صدر زیلنسکی کی انتہائی امیر افراد کے خلاف جنگ

یوکرین کے ارب پتی افراد کو دوسرا دھچکا 2021 کے اواخر میں اس وقت لگا، جب یوکرین نے ان ارب پتی شہریوں کے خلاف ایک قانون سازی کی جسے ’ڈی اولیگارکائزیشن بل‘ کہا گیا۔

صدر زیلنسکی کے متعارف کروائے گئے اس نئے قانون نے ایک اولیگارک کی تعریف ایسے شخص کے طور پر کی گئی ہے جو درج ذیل چار شرائط میں سے تین کو پورا کرتا ہے: میڈیا یا سیاست پر اثر و رسوخ رکھنے والا، اجارہ داری قائم کرنے والا، لاکھوں ڈالرز سالانہ کمانے والا شخص۔

اس قانون کے تحت تمام اہل افراد کو اضافی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا اور ان پر سیاسی جماعتوں کو فنڈز دینے پر پابندیاں عائد کر دی گئی۔

صدر زیلنسکی کی فہرست میں شامل ہونے سے بچنے کے لیے رینات اخمتوف نے فوری طور پر اپنے تمام میڈیا اثاثے فروخت کر دیے۔

لیکن پھر روس کی جانب سے سنہ 2022 فروری میں یوکرین پر حملے کر دیا گیا۔  

کیا یوکرین کی جمہوریت مضبوط ہو گی؟

یوکرین جنگ نے صرف ملک کے امیر ترین افراد کی مزید آمدن کو  نقصان پہنچایا ہے۔ لیکن کیا اُن کے خاتمے سے یوکرین کی جمہوریت مضبوط ہو گی؟

یوکرین کی مشہور نیوز ویب سائٹ ’یوکرینسکا پراڈا‘ کی مدیر اعلیٰ سیوگل موسیاوایا کہتے ہیں ’بالکل ہو گی۔‘

 یوکرین کے سابق مقبول تحقیقاتی صحافی اور اب صدر کے چیف آف سٹاف کے مشیر سرحی لیشاچنکو کہتے ہیں کہ ’ڈی اولیگارکائزیشن کا قانون ان کے خاتمے کی اہم وجوہات میں سے ایک ہے۔‘

سیوگل موسیاوایا نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جیسے جیسے جنگ میں شدت آئی اس نے ان ارب پتی افراد کی زندگی کو مزید مشکل بنایا۔ کیونکہ اس نے انھیں داخلی سیاست پر توجہ مرکوز کرنے کی بجائے اپنے بچاؤ پر توجہ دینے پر مجبور کیا۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’جنگ یوکرین میں ان ارب پتی افراد کے خاتمے کا آغاز ہے۔‘

لیکن، وہ متنبہ کرتی ہیں کہ یہ یوکرین کی سول سوسائٹی اور انسداد بدعنوانی کے اداروں پر منحصر ہے کہ وہ نئے اولیگارک کو ابھرنے سے روکیں۔ اور یقیناً یوکرین میں جمہوریت کی بقا کا انحصار روس کے ساتھ جنگ ​​کے نتائج پر ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ