- مصنف, فرینک گارڈنر
- عہدہ, سکیورٹی نامہ نگار، بی بی سی ف
- 2 گھنٹے قبل
یوکرین کی وزارت خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ روسی سرزمین کے جس چھوٹے سے ٹکڑے پر گذشتہ ہفتے قبضہ کیا گیا، یوکرین اسے مستقل طور پر اپنے پاس رکھنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔لیکن اس اعلان کے باوجود یوکرین کو ایک واضح فیصلہ کرنا ہے اور وہ یہ کہ کیا وہ اپنی افواج اسی مقام پر رکھ کر روس پر دباؤ بڑھانا چاہتا ہے یا پھر فوری طور پر اپنی فوج اس علاقے سے واپس بلانا بہتر ہو گا۔یوکرین رواں موسم گرما کے دوران ایک اچھی خبر کا شدت سے منتظر تھا کیوں کہ ڈونباس کے خطے میں تھکی ہاری یوکرینی فوج روسی ڈرون اور میزائل سمیت گلائیڈ بموں کے حملوں کے بعد پسپائی اختیار کر رہی تھی۔تاہم روس کے کرسک خطے میں ایک غیر معمولی حد تک دلیرانہ اور منظم حملے نے یوکرین کا حوصلہ بھی بلند کیا ہے۔
ایک سینیئر برطانوی دفاعی شخصیت، جنھوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کی، نے مجھے بتایا کہ اس حملے کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ یوکرینی فوج نے کس طرح فضائی دفاع، انفینٹری اور ٹینکوں سمیت الیکٹرانک جنگی حکمت عملی کو یکجا کرتے ہوئے استعمال کیا جو بہت متاثر کن تھا۔یوکرین کی جانب سے مغرب کا فراہم کردہ اسلحہ، جیسا کہ جرمنی کا مارڈر اور دیگر بکتربند گاڑیاں، گذشتہ سال موسم گرما میں ناکام ہو جانے والے اس حملے کے مقابلے میں زیادہ بہتر طریقے سے استعمال کیا گیا جب روسی فوج کو یوکرین کے جنوب مشرقی صوبوں سے بے دخل کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔لیکن روس میں داخل ہو جانے کے بعد اب یوکرین کی فوج کی حکمت عملی کیا ہو گی؟،تصویر کا ذریعہReuters
محتاط موقف
اس بحث کے دوران ایک جانب یقیناً یہ محتاط مؤقف لیا جائے گا کہ یوکرین نے جو ثابت کرنا تھا وہ کر دیا کہ روسی صدر پوتن کے فیصلے کی قیمت روسی شہریوں کو بھی ادا کرنا ہو گی اور ڈونباس میں پسپائی کے باوجود یوکرین نے جدید جنگی حکمت عملی کے تحت ایک منظم حملہ کرنے کی صلاحیت دکھا دی ہے۔دوسرے لفظوں میں ابھی پسپائی اختیار کر لی جائے جبکہ یوکرین کا پلڑہ بھاری ہے اس سے پہلے کہ روس اتنی فوج کے ساتھ حملہ کرے کہ یوکرین کے فوجی ہلاک ہوں یا قیدی بن جائیں۔تاہم اس وقت پسپائی کا راستہ اختیار کرنے سے یوکرین کے حملے کے دو واضح مقاصد کو چوٹ پہنچے گی جن میں سے ایک تو یہ ہے کہ روس ڈونباس خطے سے اپنی فوج کا کچھ حصہ ہٹانے پر مجبور ہو اور دوسرا یہ کہ روس کا اتنا علاقہ قبضے میں لے لیا جائے کہ مستقبل میں امن مذاکرات میں استعمال کیا جائے۔ایکزیٹر یونیورسٹی کے ڈاکٹر ڈیوڈ بلاگڈن کہتے ہیں کہ ’اگر یوکرین روسی علاقہ قبضے میں رکھتا ہے تو پھر اپنے علاقوں کی واپسی کے لیے مذاکرات میں اسے آسانی ہو گی۔ یوکرین کوشش کرے گا کہ روسی شہریوں کے ذہن میں طاقتور پوتن کے نقش کو بھی نقصان پہنچائے اور روس کو اس بات پر مجبور کرے کہ وہ مذاکرات کرے۔‘ایک بات جو واضح ہے وہ یہ کہ روسی سرزمین پر یوکرین کی افواج کی موجودگی، یعنی ایک ایسا ملک جو پوتن کے خیال میں خودمختارانہ وجود ہی رکھنے کا اہل نہیں ان کے لیے ناقابل برداشت ہو گی۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
کیا یوکرین کا جوا کامیاب ہو گا؟
پوتن اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ہر ممکن وسیلے کا استعمال کریں گے جبکہ ڈونباس میں یوکرین پر دباؤ برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ خطے میں ڈرون اور میزائل حملوں سے عام شہریوں کو سزا دینے کی کوشش کریں گے۔روسی ٹی وی کی فوٹیج میں گذشتہ دن ماسکو میں ایک ہنگامی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پوتن کی پریشانی عیاں تھی۔تو کیا یوکرین کا جوا کامیاب ہو گا؟ یہ کہنا قبل از وقت ہو گا۔اگر یوکرین کی فوج روس کی سرحد کے اندر موجود رہتی ہے تو انھیں توقع رکھنی چاہیے کہ روس کا ردعمل اور جوابی کارروائی انتہائی شدید ہو گی۔ڈاکر بلاگڈن خبردار کرتے ہیں کہ ’یوکرین کے لیے حملے میں کامیابی کے بعد روسی علاقے پر قبضہ برقرار رکھنے کے لیے انفرادی وسائل، سامان اور رسد کی ضروریات کو پورا کرنا بہت اہم ہو گا۔‘یقیناً یہ رواں سال میں یوکرین کی جنگی حکمت عملی کی سب سے دلیرانہ چال تھی لیکن یہ سب سے زیادہ خطرناک بھی تھی۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.