یوکرین کا جوابی حملہ، کامیابی کس حد تک ممکن؟
یوکرین کی فوج کے 35 ڈویژن نے یہ تصویر جاری کی جس میں فوج دونستک کے علاقے میں ایک دیہات پر دوبارہ قبضہ حاصل کرنے کے بعد کھڑے ہیں
- مصنف, فرینک گارڈنر
- عہدہ, بی بی سی سکیورٹی نامہ نگار
یوکرین کے باشندوں کا کہنا ہے کہ ’اسے جوابی کارروائی نہ کہیں۔ یہ ہمارا حملہ ہے، یہ آخر کار روسی فوج کو اپنی سرزمین سے باہر نکالنے کا ہمارا موقع ہے۔‘
یہ بات درست ہے، لیکن حقیقت میں کامیاب ہونے کے لیے کیا کرنا پڑے گا؟
سب سے پہلے، یوکرین کو حالیہ کامیابیوں پر زیادہ توجہ نہیں دینی چاہیےکیونکہ اس نے مشرقی ڈونیسک اور جنوب مشرقی زاپوریزیا کے علاقوں میں آدھے خالی دیہات پر قبضہ کیا ہے۔
کئی ماہ کے تعطل کے بعد یوکرین کے فاتح فوجیوں کی گولیوں کے نشانات سے بھری عمارتوں کے سامنے اپنے ملک کا نیلے اور پیلے رنگ کا پرچم تھامے ہوئے تصاویر یوکرین کے عوام کے حوصلے بلند کرنے کا باعث ہیں۔
لیکن بڑی دفاعی منظر میں، یہ ایک سائیڈ شو ہے۔
روس کے زیرِ قبضہ علاقوں کا جو حصہ اس مہم میں سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے وہ جنوب کا ہے: زاپوریزیا شہر اور بحیرۂ ازوف کے درمیان کا علاقہ۔
یہ نام نہاد ’لینڈ کوریڈور‘ ہے جو روس کو غیر قانونی طور پر الحاق شدہ کریمیا سے جوڑتا ہے، ذیل میں دیئے گئے نقشے پر جامنی رنگ کی اس سایہ دار پٹی کا مرکزی حصہ ہے جو گزشتہ سال حملے کے ابتدائی ہفتوں کے بعد سے بمشکل تبدیل ہوا ہے۔
اگر یوکرین اسے دو حصوں میں تقسیم کر سکتا ہے اور اس پر قبضہ برقرار رکھ سکتا ہے، تو اسی صورت میں اس کا حملہ بڑی حد تک کامیاب تصور کیا جائے گا۔
اس سے مغرب میں روس کی افواج کا صفایا ہو جائے گا اور کریمیا میں اپنی چھاؤنی کو دوبارہ سپلائی کرنا مشکل ہو جائے گا۔
یہ ضروری نہیں کہ اس کامیابی سے جنگ کا خاتمہ ہو جائے جس کے بارے میں کچھ لوگ اب پیش گوئی کر رہے ہیں کہ یہ برسوں تک جاری رہ سکتی ہے – لیکن جب ناگزیر امن مذاکرات بالآخر ہوں گے تو اس کی وجہ سے سودے بازی میں یوکرین کا پلڑا بھاری ہو جائے گا۔
لیکن روسیوں نے کچھ عرصہ پہلے اسی نقشے کو دیکھا ہے اور اسی نتیجے پر پہنچے ہیں۔
لہٰذا جب یوکرین نے اپنے فوجیوں کو تربیت کے لیے نیٹو ممالک بھیجا اور موسم گرما کی اس مہم کے لیے اپنے 12 بکتر بند بریگیڈ تیار کیے تو ماسکو نے یہ وقت ’دنیا کے سب سے طاقتور دفاعی قلعے‘ کی تعمیر میں صرف کیا۔
یوکرین کی فوجوں کو ساحل کی جانب جانے سے روکنے کے لیے روس نے خاصے اقدامات کر رکھے ہیں جیسے ببارودی سرنگیں ، کنکریٹ ٹینک بلاکرز، فائرنگ کے مورچے اور خندقیں اتنی وسیع اور گہری ہیں کہ لیپرڈ 2 یا ایم 1 ابرامز ٹینکوں کو آگے بڑھنے سے روکا جا سکے۔
یہ پورا علاقہ پہلے سے نصب شدہ روسی توپ خانے کی زد میں ہے اور یوکرین کی بکتر بند گاڑیوں پر تباہ کن دھماکہ خیز مواد برسانے کے لیے تیار کر دیا گیا ہے جب کہ یوکرین فوج اور ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں کا عملہ اس انتظار میں ہیں کہ کب ان کے انجینئر پیش قدمی کے محفوظ راستے کا تعین کرتے ہیں۔
ابتدائی اشارے یہ ہیں کہ روسی دفاعی نظام اب تک مضبوطی سے قائم ہے۔
یوکرین نے ابھی تک اپنی افواج کی بڑی تعداد کو تعینات نہیں کیا ہے ، لہذا یہ روسی توپ خانے کے ٹھکانوں کو ظاہر کرنے اور ان کی لائنوں میں کمزور علاقوں کی نشاندہی کے لیے ابتدائی حملے کر رہے ہیں۔
یوکرین کی افواج پر عزم ہے۔ اس کے سپاہی انتہائی پرجوش ہیں کیونکہ وہ اپنے ہی ملک کو ایک حملہ آور سے آزاد کرانے کے لیے ڈٹے ہوئے ہیں۔
روس کے زیادہ تر فوجی اس طرح پر عزم نہیں ہیں اور بہت سے معاملات میں ان کی تربیت ، سازوسامان اور قیادت یوکرین سے کم تر ہے۔
کیئو میں بیٹھے جنرل اسٹاف کو امید ہو گی کہ اگر وہ خاطر خواہ کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو روسی حوصلے پست ہو جائے گے جو روس افواج کی صفوں میں کسی متعدی مرض کی طرح پھیل سکتے ہیں کیونکہ مایوس روسی فوجی لڑنے کے حوصلے کھو دیں گے۔
یوکرین کے حق میں ہارڈ ویئر کا معیار بھی ہے جو نیٹو ممالک نے فراہم کیا ہے۔ سوویت ڈیزائن کردہ بکتر بند گاڑیوں کے برعکس، نیٹو کے ٹینک اور انفنٹری لڑاکا گاڑیاں اکثر براہ راست حملے کا سامنا کر سکتی ہیں، یا کم از کم اندر موجود عملے کی حفاظت کے لیے کافی ہیں جو اس کے بعد لڑنے کے لیے زندہ رہتے ہیں.
لیکن کیا یہ روس کے توپ خانے اور ڈرون حملوں کی طاقت کا مقابلہ کرنے کے لیے کافی ہوگا؟
روس، ایک بہت بڑا ملک ہونے کے ناطے، یوکرین کے مقابلے میں زیادہ وسائل دستیاب کر سکتا ہے۔ صدر ولادی میر پیوتن، جنہوں نے اس جنگ کا آغاز کیا تھا، جانتے ہیں کہ اگر وہ یوکرین کے لوگوں کو اگلے سال تک جاری رہنے والے تعطل میں دھکیل سکتے ہیں تو اس بات کا امکان ہے کہ امریکہ اور دیگر اتحادی اس مہنگی جنگی کوشش کی حمایت کرتے ہوئے تھک جائیں گے اور کیئو پر جنگ بندی سمجھوتے تک پہنچنے کے لیے دباؤ ڈالنا شروع کر دیں گے۔
آخر میں، فضائی قوت یا اس کی کمی کا معاملہ آتا ہے۔ مناسب فوری فضائی مدد کے بغیر مورچہ بند دشمن پر حملہ کرنا انتہائی خطرناک ہے۔
یوکرین یہ بات جانتا ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ طویل عرصے سے مغرب سے درخواست کر رہا ہے کہ اسے ایف 16 لڑاکا طیارے فراہم کیے جائیں۔
امریکہ نے، جو یہ طیارے بناتا ہے، مئی کے آخر تک اس کے لیے گرین سگنل نہیں دیا، اس وقت تک یوکرین کے حملے کی تیاری پہلے مرحلے میں داخل ہو چکی ہیں۔
روسی فوج کا دعویٰ ہے کہ یوکرین کے مغربی فراہم کردہ متعدد ٹینک اور بکتر بند بحری جہاز شدید لڑائی میں تباہ ہو گئے ہیں
یوکرین کے لیے اہم بات یہ ہے کہ جنگ کا توازن بدلنے کی صلاحیت رکھنے والے ایف 16 طیارے اب میدان جنگ میں بہت دیر سے پہنچیں گے اور اس جوابی حملے کے ابتدائی مراحل میں اہم کردار ادا نہیں کر سکیں گے۔
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یوکرین کے لوگ ہار جائیں گے۔
بار بار انہوں نے خود کو چاق و چوبند، وسائل سے مالا مال اور اختراعی ثابت کیا ہے۔ انہوں نے کامیابی کے ساتھ روسی فوج کو خرسن سے باہر نکال دیا اور ان کے عقبی علاقے کے لاجسٹک مراکز کو اس مقام تک نشانہ بنایا جہاں روسی اب اس جنوبی شہر میں اپنی فوجوں کو دوبارہ سپلائی نہیں کرسکتے تھے۔
برطانیہ کے اسٹورم شیڈو کروز میزائل جیسے طویل فاصلے تک مار کرنے والے ہتھیاروں سے لیس یوکرین اب بھی ایسا ہی کرنے کی کوشش کرے گا۔
لیکن پروپیگنڈا جنگ کے تمام دعوؤں اور جوابی دعوؤں کے باوجود، ہمیں یہ واضح تصویر حاصل کرنے میں ابھی ہفتوں یا مہینوں کا وقت لگ سکتا ہے کہ اس جنگ میں آخر کار کس کی فتح کا امکان ہے۔
Comments are closed.