بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

یوکرین پر مغربی اتحاد کب تک برقرار رہ سکتا ہے؟

یوکرین کی جنگ: مغرب کا اتفاق رائے کب تک برقرار رہ سکتا ہے؟

  • پال ایڈمز
  • سفارتی نامہ نگار

Boris Johnson, Emmanuel Macron and Joe Biden at a G7 summit in March

،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشن

برطانیہ، فرانس اور امریکہ کے رہنماؤں نے مارچ میں جی 7 کے اجلاس میں میں یوکرین جنگ کے بارے میں ایک متحدہ موقف اپنایا تھا۔

مشرقی ڈونباس کے علاقے میں روسی افواج کی سست اور انتہائی مایوس کن والی پیش رفت اور فوجی ماہرین کی جانب سے اس جنگ کے مزید طویل ہوجانے کی پیش گوئیاں دیے جانے کے بعد کیا یوکرین کے لیے مغرب کی حمایت میں دراڑیں پیدا ہونا شروع ہو گئی ہیں؟

جیسا کہ وہ کریملن کے شاندار اور چمکتے ہوئے بڑے بڑے کمروں سے لڑائی کی ہدایات جاری کر رہے ہیں، یوکرین کو کس حد تک سپورٹ کرنا ہے، اور روس کو کس حد تک سزا دی جانی چاہیے، اس بارے میں گھومتی ہوئی مغربی بحثوں کا ولادیمیر پوٹِن کیا مطلب لے رہا ہے؟

ایک جانب وہ دیکھتا ہے کہ برطانیہ، پولینڈ اور بالٹک خطّے کی حکومتیں اس کی غیر واضح شکست دیکھ رہی ہیں۔

برطانوی وزیرِ خارجہ لز ٹرس نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ ‘ہمیں اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ یوکرائنیوں کے ذریعے روس کو یوکرین سے باہر نکال دیا جائے۔’

‘یوکرین کی سرزمین پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔’

لیکن دوسری جانب، مسٹر پوتن فرانس، جرمنی اور اٹلی کے لیڈروں کو ایک مختلف موقف اختیار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

German Chancellor Olaf Scholz

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

جرمن چانسلر اولاف شولز بھاری اسلحہ اور ٹینک یوکرین بھیجنے سے گریزاں ہیں۔

اب جبکہ دونباس میں روسی فوجیں پیش قدمی کرنے میں کامیاب ہو رہی ہیں اور ماہرین بھی ایک طویل جنگ کی پیش گوئی کر رہے ہیں تو کیا ایسے میں یوکرین کی حمایت میں مغربی اتفاقِ رائے میں دراڑیں نظر آنا شروع ہو گئی ہیں؟

مواد پر جائیں

پوڈکاسٹ
ڈرامہ کوئین
ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

کریملن سے احکامات جاری کرنے والے صدر پوتن یوکرین کی حمایت سے اور روس کو سزا دینے کے متعلق مغربی ممالک کے درمیان ہونے والے مباحثوں کو کیسے دیکھ رہے ہیں؟

ایک جانب وہ یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ برطانیہ، پولینڈ اور بالکان کے ممالک ان کی شکست دیکھنا چاہتے ہیں۔

گذشتہ ہفتے برطانوی وزیر خارجہ لِز ٹرس نے کہا تھا کہ ’ہمیں اس بات کو یسینی بنانا ہوگا کہ یوکرینی یوکرین سے روس کو باہر نکالیں۔‘

انھوں نے کہا ’یوکرینی علاقے پر کوئی سمنجھوتہ نہیں ہوگا‘۔

لیکن دوسری جانب صدر پوتن یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ فرانس، جرمنی اور اٹلی کی سود اس سے مختلف ہے۔

مئی کے اوائل میں خطاب کرتے ہوئے فرانس کے صدر ایمانوئل میکروں نے روس اور یوکرین کے درمیان جنگ بندی کا مطالبہ کیا تھا اور مغرب پر زور دیا تھا کہ وہ روس کی ’تذلیل‘ کرنے یا اُس سے ’انتقام لینے کی خواہشات سے بچیں۔‘

اگلے دن اٹلی کے وزیر اعظم، ماریو ڈریگھی نے وائٹ ہاؤس میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ یورپ میں لوگ ‘جنگ بندی قائم کرنے اور دوبارہ کچھ قابل اعتماد مذاکرات شروع کرنے کے امکان کے بارے میں سوچنا چاہتے ہیں’۔

صدر میکروں اور جرمن چانسلر اولاف شولز نے سنیچر کو صدر پوتن کے ساتھ 80 منٹ کی فون کال کی جس کا مقصد یوکرین کو بحیرہ اسود کے ذریعے اناج برآمد کرنے کے قابل بنانے کے طریقے تلاش کرنا تھا۔

اس پر لٹویا کے نائب وزیر اعظم نے سوشل میڈیا پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’ایسا لگتا ہے کہ ایسے کئی نام نہاد مغربی رہنما ہیں جن کے لیے خود اپنی واضح تذلیل کرنا ضروری ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ یہ سیاسی حقیقت سے بھی مکمل طور پر کٹے ہوئے ہیں۔‘

ملے جلے اشارے

بے شک امریکی صدر کریملن کے لیے واقعی اہمیت رکھتے ہیں۔

لیکن جو بائیڈن مختلف اوقات میں مختلف قسم کے اشارے دے چکے ہیں۔ پہلے انھوں نے مارچ میں ماسکو میں حکومت کی تبدیلی کی ضرورت کا اشارہ دیتے ہوئے پوتن کو ایک ‘جنگی مجرم’ قرار دیا، لیکن پھر رواں ہفتے یوکرین کو وہ راکٹ سسٹم دینے میں ہچکچاہٹ کا شکار نظر آئے جن کی مدد سے یوکرین روس تک مار کر سکتا ہے۔

روس کے سابق وزیر اعظم اور سابق صدر دمتری میدویدیف نے صدر بائیڈن کے بیان کو ‘معقول’ قرار دیا۔ لیکن بدھ کے روز یوکرین کو مزید جدید راکٹ سسٹم بھیجنے کے امریکی فیصلے کو کریملن نے ‘جلتی آگ پر تیل چھڑکنے’ کے مترادف قرار دیا ہے۔

High Mobility Artillery Rocket System (HIMARS)

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

امریکہ نے یوکرین کو ایچ آئی ایم اے آر ایس (HIMARS) میزائل لانچرز فراہم کرنے پر اتفاق کیا ہے جو 45 میل دور اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

امریکی صدر کی جانب سے دیے گئے بعض بیانات کے بعد عموماً امریکی وزیرِ خارجہ انتھونی بلنکن کو انتظامیہ کا موقف واضح کرنا پڑتا ہے۔

برلن میں نیٹو کے وزرائے خارجہ کے حالیہ اجلاس میں، بلنکن نے کہا کہ امریکہ اور اس کے شراکت داروں نے ‘میدان جنگ میں اور کسی بھی مذاکرات کی میز پر یوکرین کو ممکنہ حد تک مضبوط بنانے پر توجہ مرکوز رکھی ہے تاکہ وہ روسی جارحیت کو پسپا کر سکے اور مکمل طور پر اپنی آزادی اور خودمختاری کا دفاع کرے’۔

یہ کافی حوصلہ افزا الفاظ ہیں، لیکن آپ ‘ممکنہ حد تک مضبوط بنانے’ سے کیا مراد لیں گے اور یوکرین کی آزادی اور خودمختاری کا ‘مکمل طور پر’ دفاع کرنے کا کیا مطلب ہے؟

کیا یوکرین کے بارے میں مغربی اتفاق رائے میں دراڑیں پڑنا شروع ہو گئی ہیں؟

سینٹر فار یورپی ریفارم میں خارجہ پالیسی کے ڈائریکٹر ایان بانڈ مذاکرات کے ان کٹِھن ہفتوں کا حوالہ دیتے ہوئے، جس کے نتیجے میں اس ہفتے روسی تیل پر یورپی یونین کی جزوی پابندی کا اعلان ہوا تھا، کہتے ہیں کہ ‘آپ کو صرف تیل کی پابندی کے فیصلے پر علمدرآمد کے لیے کی جانے والی جدوجہد کو دیکھنا ہوگا۔’

یہ بھی پڑھیے:

کوئی بھی ایسا خیال کہ یورپی یونین روسی گیس پر پابندی کے فیصلے پر علدرآمد کے لیے تیزی سے اقدام لے گی تو یہ خیال پہلے ہی سے ختم ہو چکا ہے۔ بالٹک ریاستیں اور پولینڈ چاہیں گے کہ ایسا جلد ہو، لیکن ایسٹونیا کے وزیر اعظم کاجا کالس نے اس ہفتے اعتراف کیا کہ ‘اگلی تمام پابندیاں زیادہ مشکل ہوں گی’۔

آسٹریا کے چانسلر کارل نیہمر نے کہا کہ گیس پر پابندی سے متعلق ‘پابندیوں کے اگلے پیکج میں کوئی مسئلہ نہیں ہوگا’

مزید ہتھیاروں کی ضرورت ہے

یوکرین کا کہنا ہے کہ مغرب نے وعدے تو بہت زیادہ کیے ہیں، لیکن انھیں پورا نہیں کیا۔

اس ہفتے کیے گئے امریکی اور جرمنی کے وعدوں میں کہا گیا ہے کہ متعدد راکٹ آرٹلری، فضائی دفاع اور ریڈار سسٹم کی فراہمی کی جائے گی جس سے یقینی طور پر دباؤ کا شکار یوکرینی کمانڈروں کے فوری ضروریات پوری ہوں گی۔

لیکن پچھلے وعدوں پر جرمنی پر تاخیر کرنے کے الزامات اور جو بائیڈن کا اصرار کہ امریکی ہتھیاروں کا استعمال صرف یوکرین کے اندر روسی اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے کیا جائے، کچھ لوگوں کو اس بات پر حیران کرتا ہے کہ مغرب یوکرین کی جنگی کوششوں کو محدود کیوں کرنا چاہتا ہے جب کہ روس کوئی حد تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔

ایان بانڈ کا کہنا ہے کہ یہ ‘ایک طرح کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ گویا ہم کہہ رہے ہیں کہ ‘ہم چاہتے ہیں کہ یوکرین جیتیں لیکن زیادہ نہ جیتیں”۔

A Ukrainian soldier holds a Javelin anti-tank missile

،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشن

امریکہ یوکرین کو جیولین اینٹی ٹینک میزائل فراہم کرتا ہے۔

یہ بڑے پیمانے پر خیال کیا جاتا ہے کہ مسٹر پوٹن نے کو اس جنگ کے آغاز سے پہی اندازہ تھا کہ مغرب اس جنگ کو لڑنے کی زیادہ خوہش نہیں رکھتا ہے۔ مصال کے طور پر نیٹو کے رکن ممالک افغانستان سے اپنے ذلت آمیز اخراج کے تازہ زخموں کے بعد کسی ایک نئے بین الاقوامی جھگڑے میں جانے سے گریز کریں گے۔

میڈوزا ویب سائٹ کے حوالے سے ایک تـجزیہ نگار کے الفاظ میں، ماسکو کی کچھ حالیہ میدان جنگ میں بتدریج فتوحات کی رپورٹیں اور اس کے کامیابی کے یقین سے پیدا ہونے والے اعتماد کی اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ ‘جلد یا بدیر، یورپ مدد کرتے ہوئے تھک جائے گا۔’

کریملن نے اس ہفتے کی برطانوی حکومت کی انتباہ کو دیکھا ہو گا کہ اگر روس نے اس موسم سرما میں گیس کی سپلائی بند کر دی تو تقریباً 60 لاکھ برطانوی گھرانوں کو بجلی کی کمی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

کیا مغرب میں عوامی غصہ یوکرین کی حمایت کو کمزور کر سکتا ہے؟

یہ وہ خطرہ ہے جو امریکی ڈائریکٹر آف نیشنل انٹیلی جنس، ایورل ہینس نے گزشتہ ماہ کانگریس کے اراکین کو بتایا تھا۔

انہوں نے سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے اراکین کو بتایا کہ ‘وہ (پیوٹن) غالباً امریکہ اور یورپی یونین کے کمزور ہونے کے عزم پر اعتماد کر رہے ہیں کیونکہ خوراک کی قلت، مہنگائی اور توانائی کی قیمتیں حالات کو بدتر کر رہی ہیں۔’

Emmanuel Macron and Olaf Scholz in Berlin

،تصویر کا ذریعہEPA

،تصویر کا کیپشن

یوکرین پر مغربی اتفاق رائے قابل ذکر طور پر برقرار ہے۔

اپنی غلطیوں اور ہتھیاروں کی فراہمی سے متعلق ہچکچاہٹ کے بارے میں تمام پریشانیوں کے لیے، یوکرین کے بارے میں مغربی اتفاقِ رائے نمایاں طور پر تاحال برقرار ہے۔ لیکن جو دراڑیں موجود ہیں وہ اب وسیع بھی ہو سکتی ہیں۔ ایان بانڈ کا کہنا ہے کہ ‘اگر دونوں فریق فیصلہ کن فائدہ اٹھانا شروع کر دیتے ہیں، تو وہ مزید ایک مسئلہ بن جاتے ہیں۔‘

‘اگر روسی مشرق میں یوکرائنی دفاع کو مکمل طور پر توڑ دیتے ہیں اور دریائے ڈینیپر کی طرف بڑھنا شروع کر دیتے ہیں، تو یہ سوال کہ یوکرین کو جنگ بندی کے حصول کے لیے کتنے علاقے کی قربانی دینے کے لیے تیار ہونا چاہیے، یہ معاملہ ایجنڈے کو آگے بڑھائے گا۔’

ایان بونڈ کہتے ہیں کہ اسی حوالے سے اگر یوکرین کی افواج روسیوں کو پیچھے ہٹانا شروع کر دیتی ہیں تو ‘مغرب میں یہ آوازیں آئیں گی کہ ‘ڈونباس کے ان حصوں پر دوبارہ قبضہ کرنے کی کوشش نہ کریں جن پر روسیوں نے سنہ 2014 سے کنٹرول کر رکھا ہے’۔’

یہ کوئی ایسی بحث نہیں ہے جو ابھی تک بہت زیادہ متعلقہ معلوم ہوتی ہے، لیکن جب تجربہ کار امریکی سفارت کار ہنری کسنجر نے ڈیووس میں تجویز پیش کی کہ یوکرین کو روس کے ساتھ امن قائم کرنے کے لیے علاقہ دینے پر غور کرنا چاہیے، تو اس نے یوکرین اور اس سے علاوہ بھی کئی جگہوں سے شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

اس مسئلے کے بارہ میں جو پریشان کن مذاکرات ہونے ہیں ان پر یہ ردعمل آییندہ کی مشکلات کا ایک اہم اشارہ ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.