یوکرین پر روسی حملے کی صورت میں امریکہ کس حد تک جا سکتا ہے؟
- پال کربی
- بی بی سی نیوز
مغربی رہنماؤں اور یوکرین میں یہ خوف پایا جاتا ہے کہ کہیں روس یوکرین پر حملہ کرنے کی تیاری تو نہیں کر رہا۔
صرف سات سال قبل ہی روس نے جنوبی یوکرین کا کچھ حصہ اپنے قبضے میں لے لیا تھا اور ان علیحدگی پسندوں کی حمایت شروع کر دی تھی جو کہ یوکرین کے مشرقی علاقوں میں بھی شورش پیدا کر رہے تھے۔
روس عسکری اقدامات کی دھمکیاں دے رہا ہے اور ادھر امریکہ کہہ رہا ہے کہ اگر روس نے حملہ کیا تو امریکہ اس پیمانے کی اقتصادی اور دیگر پابندیاں لگائے گا جو پہلے کبھی نہیں لگائی گئیں۔
مگر اس سب کے پیچھے اصل کہانی کیا ہے؟
یوکرین اور روس کا تعلق
یوکرین کی سرحد روس اور یورپی یونین سے ملتی ہے تاہم سابق سوویت ریاست ہونے کے ناطے اس کے روس کے ساتھ گہرے سماجی اور ثقافتی روابط ہیں اور یہاں روسی زبان ہی بولی جاتی ہے۔
روس کافی عرصے سے یوکرین کی یورپی اداروں سے قربت کی مخالفت کرتا رہا ہے۔
جب 2014 میں یوکرین میں روس کے حامی صدر کو شکست ہوئی تو روس نے جنوبی کرائیمیا کا جزیرہ نما اپنے قبضے میں لے لیا۔ اس کے علاوہ روس کے حمایت یافتہ باغی یوکرین کے مشرقی علاقوں میں کچھ حصے پر قابض بھی ہوئے۔
روس اس بات کی یقین دہانی چاہتا ہے کہ یوکرین کبھی بھی مغربی ممالک کے عسکری اتحاد نیٹو کا حصہ نہیں بنے گا۔
کیا روسی حملے کا خطرہ حقیقت پر مبنی ہے؟
ملک کے مشرق میں یہ تناؤ آج بھی جاری ہے۔ یوکرین کا کہنا ہے کہ روس نے باغیوں کے زیر قبضہ علاقوں میں ٹینک، توپ خانے اور سنائپرز کو محاذ پر بھیج دیا ہے۔ مگر یوکرین کی سرحد سے باہر تعینات روسی افواج بھی سب سے زیادہ تشویش کا باعث ہیں، اور مغربی انٹیلی جنس سروسز کا خیال ہے کہ ان کی تعداد 100,000 تک ہے۔
روس کی جانب سے فوری حملے کے خطرے کا تو کوئی احساس نہیں ہے، یا یہ کہ روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے حملے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ لیکن انھوں نے ‘مناسب انتقامی فوجی اقدامات‘ کی بات کی ہے اگر مغرب اپنا جارحانہ انداز جاری رکھتا ہے۔
روس کے نائب وزیر خارجہ سرگئی ریابکوف نے خبردار کیا ہے کہ کشیدگی 1962 کے کیوبا کے میزائل بحران جیسی صورت حال کو جنم دے سکتی ہے، جب امریکہ اور سوویت یونین جوہری تنازع کے قریب پہنچ گئے تھے۔
مغربی انٹیلی جنس سروسز کے ساتھ ساتھ یوکرین کے خیال میں 2022 کے اوائل میں کسی وقت حملہ یا فوجی دراندازی ہو سکتی ہے۔ یوکرین کے وزیر دفاع اولیکسی ریزنکوف کا کہنا ہے کہ ‘حملے کے لیے تیاری مکمل ہونے کا سب سے زیادہ امکان جنوری کے آخر میں ہو گا۔‘
امریکی انٹیلی جنس کا کہنا ہے کہ جنوری کے اوائل تک 175,000 روسی فوجی اس میں شامل ہو سکتے ہیں، اور سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم برنز کا خیال ہے کہ صدر پوتن ‘روسی فوج، روسی سیکورٹی سروسز کو ایک ایسی جگہ پر ڈال رہے ہیں جہاں وہ بہت اچھے طریقے سے کام کر سکتے ہیں۔‘
یہ صرف نیٹو کو روس کے زیراثر علاقوں سے دور کرنے کی کوشش بھی ہو سکتی ہے۔
اس سال اپریل میں پہلے بھی یہی حالات تھے اور اس وقت روس نے چھوٹے پیمانے پر دستوں کی نقل و حرکت کو مشقوں کے طور پر پیش کر کے پھر یہ سب روک دیا اور پھر پیچھے ہٹ گیا (حالانکہ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ صرف ایک جزوی واپسی تھی)۔ کوئی واضح رعایت نہیں دی گئی۔
صدر بائیڈن اور صدر پوتن نے تناؤ کو کم کرنے کے لیے 7 دسمبر کو ایک ویڈیو کال کی تھی، لیکن ابھی تک اس کے بہت کم آثار ہیں۔
روس کا کیا کہنا ہے؟
مشرقی یوکرین کے قریب کرائیمیا میں فوجیوں کی بڑھتی تعداد کی سیٹلائیٹ تصاویر کو روس نے ابتدائی طور پر یہ کہہ کر رد کر دیا کہ یہ بلاوجہ خطرے کی گھنٹی بجائی جا رہی ہے۔ مسلح افواج کے سربراہ ویلری گیراسیموف نے یہاں تک کہا کہ ‘میڈیا میں یوکرین پر مبینہ طور پر متوقع روسی حملے کے بارے میں گردش کرنے والی معلومات جھوٹ ہیں۔‘
یہ بھی پڑھیے
لیکن صدر پوتن نے تب بھی دھمکی دی کہ وہ ‘مناسب فوجی اقدامات کریں گے اور غیر دوستانہ اقدامات پر سخت ردعمل کا اظہار کریں گے۔‘
ماسکو نے یوکرین پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ مشرق میں اپنی نصف فوج، تقریباً 125,000 فوجی، تیار کر رہا ہے، اور الزام لگایا ہے کہ یوکرین روسی حمایت یافتہ علیحدگی پسندوں کے زیر کنٹرول علاقوں پر حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ یوکرین کا کہنا ہے کہ یہ روس کے اپنے منصوبوں کو چھپانے کے لیے ‘پروپیگنڈا‘ ہے۔
روس نیٹو ممالک پر یوکرین کو ہتھیار فراہم کرنے کا الزام بھی لگاتا ہے۔ امریکہ پر کشیدگی پھیلانے کا الزام لگاتے ہوئے، صدر پوتن نے کہا کہ روس کے پاس ‘پیچھے ہٹنے کے لیے مزید کوئی جگہ نہیں ہے، کیا وہ سمجھتے ہیں کہ ہم خاموش بیٹھے رہیں گے؟‘
روس کا جوابی دعویٰ فوجی کارروائی کا جواز بن سکتا ہے۔ روس کی فیڈریشن کونسل کی بین الاقوامی امور کی کمیٹی کے نائب ولادیمیر زہباروف نے دسمبر کے اوائل میں کہا تھا کہ باغیوں کے زیر قبضہ علاقوں میں تقریباً 500,000 یوکرینی باشندوں کے پاس اب روسی پاسپورٹ ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اگر باغی رہنما روسی مدد کی اپیل کرتے ہیں، تو ‘یقیناً، ہم اپنے ہم وطنوں کو نہیں چھوڑ سکتے۔‘
روس کیا چاہتا ہے؟
صدر پوتن نے مغرب کو خبردار کیا ہے کہ وہ یوکرین پر روس کی ‘سرخ لکیریں’ عبور نہ کرے۔ تو وہ سرخ لکیریں کیا ہیں؟
ان میں سے ایک نیٹو کی مشرق میں مزید توسیع ہے، جس میں یوکرین اور جارجیا کے ممالک شامل ہیں۔
روس یہ بھی چاہتا ہے کہ نیٹو مشرقی یورپ میں فوجی سرگرمیاں ترک کر دے، جس کا مطلب یہ ہو گا کہ پولینڈ اور ایسٹونیا، لٹویا اور لتھوینیا سے اپنے لڑاکا دستوں کو نکالنا، اور پولینڈ اور رومانیہ جیسے ممالک میں میزائل نہ لگانا شامل ہیں۔
مختصراً روس یہ چاہتا ہے کہ نیٹو اپنی 1997 سے پہلے کی سرحدوں پر واپس آجائے۔ صدر پوتن کا کہنا ہے کہ روس کا مقصد خونریزی سے بچنا اور سفارتی راستہ تلاش کرنا ہے، لیکن اس قسم کا مطالبہ ناکام ہونے کا امکان کافی زیادہ ہے۔
روس پہلے ہی یوکرین کی طرف سے مشرقی یوکرین میں روسی حمایت یافتہ افواج کے خلاف ترک ڈرونز کی تعیناتی اور بحیرہ اسود میں مغربی فوجی مشقوں سے پریشان ہے۔ صدر پوتن کی نظر میں یوکرین کے لیے امریکی فوجی مدد ‘ہمارے گھر کی دہلیز پر‘ مداخلت ہے۔
جولائی 2021 میں، روسی صدر نے کریملن کی ویب سائٹ پر ایک مضمون شائع کیا، جس میں روسیوں اور یوکرینیوں کو ‘ایک قوم‘ کہا اور یوکرین کے موجودہ رہنماؤں پر ‘روس مخالف پروجیکٹ‘ چلانے کا لیبل لگایا۔
روس اس بات پر بھی مایوس ہے کہ 2015 کا منسک امن معاہدہ جس کا مقصد مشرقی یوکرین میں تنازعے کو روکنا تھا، پورا ہونے سے بہت دور ہے۔ علیحدگی پسند علاقوں میں انتخابات کے لیے آزادانہ طور پر نگرانی کرنے والے اہلکاروں کا ابھی تک کوئی انتظام نہیں ہوا۔ روس ان الزامات کی تردید کرتا ہے کہ وہ اس دیرینہ تنازعے کی وجہ ہے۔
نیٹو یوکرین کی مدد کیسے کر رہا ہے؟
نیٹو کا مغربی فوجی اتحاد کہنے کو دفاعی ہے اور اس کے سیکرٹری جنرل جینز سٹولٹن برگ نے واضح کیا ہے کہ کوئی بھی فوجی امداد خالصتاً ان خطوط پر ہے۔
برطانیہ یوکرین کی بحیرہ اسود پر اوچاکیو اور بحیرہ ازوف پر برڈیانسک میں دو بحری اڈے بنانے میں مدد کرنے کے لیے تیار ہے۔ امریکہ کے ٹینک شکن جیولن میزائل بھی یوکرین بھیجے گئے ہیں اور امریکی کوسٹ گارڈ کی دو کشتیاں بھی یوکرین کی بحریہ کو دی گئی ہیں۔
جب کہ روس بضد ہے کہ وہ یوکرین کو نیٹو میں شامل ہونے کی اجازت نہیں دے گا، یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی اس اتحاد کی طرف سے واضح ٹائم لائن کی تلاش میں ہیں۔
اسٹولٹن برگ نے کہا کہ ‘یہ یوکرین اور 30 [نیٹو] اتحادیوں پر منحصر ہے کہ یوکرین کب اتحاد میں شامل ہونے کے لیے تیار ہے۔‘ ان کا کہنا ہے کہ روس کو ‘اس عمل میں مداخلت کا کوئی حق نہیں ہے۔‘
مغربی ممالک یوکرین کی خاطر کہاں تک جا سکتے ہیں؟
امریکہ نے واضح کیا ہے کہ وہ یوکرین کو اپنے ‘خودمختار علاقے‘ کے دفاع میں مدد کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ صدر بائیڈن نے یوکرین پر حملہ ہونے کی صورت میں ایسے اقدامات کرنے کی بات کی کہ ‘جیسے کسی نے کبھی نہیں دیکھے۔‘
لیکن انھوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ یکطرفہ طور پر امریکی فوجیوں کی تعیناتی زیرِ غور نہیں۔
یوکرین کا کہنا ہے کہ وہ تنہا اپنے دفاع کے لیے تیار ہے۔ وزیر خارجہ دیمیٹرو کولیبا نے کہا کہ ہم یہ جنگ خود لڑیں گے۔
لہٰذا اگر امریکہ یوکرین کی نیٹو میں شمولیت یا کسی اور چیز پر روس کی ‘سرخ لکیروں’ کو تسلیم کرنے سے انکار کر دے تو بھی اس کے ‘مضبوط اقتصادی اور دیگر اقدامات’ یوکرین کی مدد کے لیے کہاں تک جائیں گے؟
مغرب کے آپشنز میں سب سے بڑے ہتھیار یوکرین کی فوج کی حمایت کرنا اور روس پر پابندیاں لگتے ہیں۔ برطانیہ کے دفترِ خارجہ کے وزیر وکی فورڈ نے کہا ہے کہ برطانوی حکام دفاعی تعاون میں توسیع پر غور کر رہے ہیں۔
جہاں تک اقتصادی اقدامات کا تعلق ہے، سب سے بڑا ذریعہ روس کے بینکنگ نظام کو بین الاقوامی سوئفٹ ادائیگی کے نظام سے منقطع کرنے کا خطرہ ہو سکتا ہے۔ اسے ہمیشہ آخری حربے کے طور پر دیکھا جاتا رہا ہے، لیکن لیٹویا نے کہا ہے کہ اس سے ماسکو کو ایک مضبوط پیغام جائے گا۔
ایک اور اہم خطرہ جرمنی میں روس کی نورڈ سٹریم 2 گیس پائپ لائن کے افتتاح کو روکنا ہے، اور اس گیس پائپ لائن کی منظوری فی الحال جرمنی کے انرجی ریگولیٹر کے ذریعے طے کی جا رہی ہے۔ جرمنی کی وزیر خارجہ اینالینا بیئربوک نے واضح کیا ہے کہ اگر روس کی طرف سے کوئی مزید کشیدگی پیدا ہوتی ہے تو ‘یہ گیس پائپ لائن سروس میں نہیں آسکتی۔‘
روس کے خودمختار مالیاتی فنڈ آر ڈی آئی ایف کو بھی نشانہ بنانے والے اقدامات یا روبل کو غیر ملکی کرنسی میں تبدیل کرنے والے بینکوں پر پابندیاں بھی ہوسکتی ہیں۔
امیر جمہوری ممالک کے جی 7 گروپ نے روس کو یوکرین کے خلاف مزید کارروائی کے جواب میں ’بڑے پیمانے پر نتائج اور بڑی قیمت‘ سے خبردار کیا ہے۔
Comments are closed.