یوکرین، روس جنگ: یوکرین کا افغانستان سے موازنہ، کیا امریکہ کو ویسا ہی چیلنج درپیش ہے؟
- زبیر احمد
- بی بی سی
یوکرین میں لڑائی اب بھی اپنے ابتدائی مراحل میں ہے لیکن مغربی ممالک کو خدشہ ہے کہ یہ مہینوں بلکہ برسوں تک جاری رہ سکتی ہے۔
یوکرین پر روس کے حملے کا سنہ 1979 میں افغانستان پر سوویت یونین کے حملے یا سنہ 2001 میں افغانستان میں امریکی مداخلت سے موازنہ کیا جا رہا ہے۔
سوویت یونین کو دس سال کے بعد افغانستان سے شکست کے بعد جانا پڑا جبکہ امریکہ 20 سال کے بعد بغیر کچھ حاصل کیے وہاں سے رخصت ہوا۔ دونوں حملہ آوروں کو حملے کے شکار ملک سے شکست کھانا پڑی۔
تو کیا یوکرین بھی روسی اور امریکی حملے کے بعد افغانستان کی طرح بن سکتا ہے۔ امریکہ میں کچھ بااثر حلقے چاہتے ہیں کہ روس یوکرین میں اسی طرح پھنس جائے جیسے وہ افغانستان میں پھنسا تھا۔
ان کا مؤقف ہے کہ امریکہ اور نیٹو یوکرین میں رضاکاروں کو روس کے خلاف لڑنے کے لیے ویسے ہی اسلحہ اور تربیت فراہم کریں جیسے افغانستان میں مجاہدین کو فراہم کیا تھا۔
امریکہ کی سابق وزیرِ خارجہ ہلیری کلنٹن نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا ہے کہ ‘یاد رکھیں روس نے سنہ 1980 میں افغانستان پر حملہ کیا تھا۔ اس کا انجام روسیوں کے لیے اچھا نہیں تھا۔
’یہ ایک متاثر کن سچ ہے۔ ایک ایسی بغاوت نے، جسے بھرپور مالی اور جنگی امداد حاصل تھی، روسیوں کو افغانستان سے نکال دیا تھا۔’
سوویت فوج 24 دسمبر 1979 کو افغانستان میں داخل ہوئی اور تقریباً دس سال کے بعد سنہ 1989 میں انھیں ملک سے نکلنا پڑا۔
اپنی حمایت یافتہ حکومت کو ملک پر مسلط کرنے میں ناکامی کے بعد سوویت یونین نے سنہ 1988 میں امریکہ، پاکستان اور افغانستان کے ساتھ ایک معاہدہ کیا۔ اس کے بعد سوویت فوجوں کا انخلا شروع ہوا جو 15 فروری 1989 میں مکمل ہوا۔
امریکہ کے موجودہ صدر جو بائیڈن نے اپنے حالیہ سٹیٹ آف دی یونین خطاب میں اسی پالیسی کو اختیار کرنے کی بات کی۔ اپنے خطاب میں انھوں نے کہا کہ روس کے صدر ولادیمیر پوتن کو یوکرین پر حملہ کرنے کا ایسا خمیازہ بھگتنا ہو گا جس کے اثرات طویل مدت تک رہیں گے۔
شکاگو میں مقیم مصنف برینکو مارسٹک، جو صدر بائیڈن پر ایک مشہور کتاب کے مصنف بھی ہیں، کہتے ہیں کہ واشنگٹن میں اس معاملے پر کئی طرح کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔ ان میں سے ایک رائے یہ ہے کہ روس کے لیے یوکرین ایک دلدل ثابت ہونا چاہیے۔
بی بی سی کے ساتھ ای میل کے ذریعے ہونے والے ایک انٹرویو میں وہ کہتے ہیں کہ ’میرے خیال میں اس معاملے پر رپبلکن اور ڈیموکریٹس کے درمیان آپس میں بھی مختلف آرا موجود ہیں۔ اس کے علاوہ بائیڈن انتظامیہ کے اندر بھی سوچ یکسو نہیں ہے۔
’لیکن روس کا یوکرین کی دلدل میں پھنسنا لازمی ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ بائیڈن انتظامیہ واضح طور پر گذشتہ دسمبر سے اس طرح کے نتیجے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔‘
اچھل کمار ملہوترا یوکرین کے پڑوسی ممالک جارجیا اور آرمینیا میں انڈیا کے سفیر رہ چکے ہیں۔
ان کے مطابق ‘اس مرتبہ امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادیوں نے واضح طور پر یہ طے کیا ہوا ہے کہ اس جنگ میں براہ راست حصہ نہیں لیں گے۔ میرے خیال میں ان کی کوشش ہے کہ روس پھنسا رہے۔
’روس پر کئی سخت اقتصادی پابندیاں لگائی جائیں اور اسے معاشی اور فوجی لحاظ سے کمزور کر دیا جائے۔‘
اچھل کمار ملہوترا کا کہنا ہے کہ اگر مغربی ممالک کو دیکھا جائے تو وہاں روس کو ایک وِلن کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ روس کو سفارتی سطح پر اکیلا کیا جا رہا ہے اور مغربی ممالک کی کوشش ہے کہ سفارتی، اخلاقی، سیاسی اور معاشی مدد کے ساتھ یوکرین اپنی مزاحمت جاری رکھے۔ ‘یہ جنگ برسوں تک جاری رہ سکتی ہے اور یوکرین مستقل طور پر جنگ کا میدان بن سکتا ہے۔’
موجودہ بحران سنہ 2014 سے جاری ہے جب روس نے کرائمیا پر حملہ کر کے اس کے یوکرین کے مشرقی علاقے پر قبضہ کر لیا تھا۔ اس وقت سے یوکرین کو نیٹو اور امریکہ کی جانب سے فوجی امداد مل رہی ہے۔
سکاٹ رِٹر امریکہ میں روس کے امور کے ماہر ہیں اور امریکہ کی میرین فورس کے کمانڈر بھی رہ چکے ہیں۔ وہ بغداد میں اسلحے کی نگرانی کے انسپیکٹر کے طور پر بھی کام کر چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکہ اور نیٹو سنہ 2015 سے یوکرین کی فوج کو تربیت دے رہے ہیں۔
اپنی ایک ٹویٹ میں سکاٹ رِٹر نے کہا ہے کہ مشرقی یوکرین کے علاقے ڈونباس میں سنہ 2015 سے نیٹو اور امریکی فوجی ہر سال یوکرینی فوج کی پانچ بٹالین کو لڑائی کی تربیت دے رہے ہیں۔
یہ تربیت وہاں پر قائم نیٹو کے یوؤریؤ نامی فوجی اڈے پر دی جا رہی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ گذشتہ آٹھ سال میں یوکرین کی 40 بٹالین فوج کو تربیت دی جا چکی ہے۔
عام شہریوں کو تربیت دی جا رہی ہے
یوکرین میں روسی فوج سے لڑنے کے لیے مغربی ممالک سے سینکڑوں کی تعداد میں رضاکار آ رہے ہیں اور انھیں اسلحہ فراہم کیا جا رہا ہے۔ ان کے ساتھ ساتھ یوکرینی شہریوں کو بھی اسلحہ چلانے اور گلیوں میں جنگ لڑنے کی تربیت دی جا رہی ہے۔
شکاگو میں مقیم امریکی تجزیہ کار برینکو مارسٹک کے مطابق یوکرین میں سرگرم دورِ جدید کے نازیوں اور نسلی تفریق کے حامیوں کو اسلحہ فراہم کرنا خطرے سے خالی نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیے
وہ کہتے ہیں کہ ’اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ یوکرین میں مغربی حمایت یافتہ مزاحمتی فورسز سے امریکہ کو خطرہ رہے گا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ یوکرین میں حالیہ مزاحمت کو اسلحہ اور تربیت فراہم کرنے کو ویسے ہی دیکھا جانا چاہیے جیسے کہ افغانستان میں مجاہدین کو کی گئی امریکی امداد کو۔
وہ کہتے ہیں کہ اس حوالے سے تشویش موجود ہے کہ اپنے ہاتھوں میں اسلحہ تھامے ہوئے نسلی تفریق کے حامی سفید فام مرد جب امریکہ واپس آئیں گے تو پرتشدد بھی ہو سکتے ہیں۔
برینکو کے مطابق ’انتہائی قوم پرست اور انتہائی دائیں بازو کے انتہاپسندوں کی یوکرین میں ایک طویل عرصے سے خطرناک اور بااثر موجودگی رہی ہے اور جس تیزی سے مغربی اسلحہ یوکرین میں پہنچ رہا ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ان تک پہنچے گا۔ درحقیقت ہم جانتے ہیں کہ اُن کے پاس یہ اسلحہ پہنچ ہی چکا ہے۔‘
برینکو کہتے ہیں کہ اب ان میں سے کئی مغربی انتہاپسند اپنی پرتشدد سرگرمیوں کا حقیقی دنیا میں تجربہ کرنے کے لیے یوکرین جا رہے ہیں۔ ’پریشان کُن بات یہ ہے کہ ہمیں اس سب کا نتیجہ صرف تب معلوم ہو گا جب بہت دیر ہو چکی ہو گی۔
کیا ہو گا اگر یوکرین یورپ کا افغانستان بن گیا؟
امریکہ اور نیٹو کے ممالک نے 11 ستمبر کے دہشتگردانہ حملوں کے بعد افغانستان پر حملہ کیا تھا۔ بیس سال بعد 2021 میں اُنھیں افغانستان چھوڑنا پڑا۔
جس طرح مغربی ممالک کے فوجیوں نے افغانستان چھوڑا، اس سے امریکہ کے لیے بہت بدنامی کا سامان پیدا ہوا اور کہا گیا کہ امریکہ اور نیٹو کو افغانستان میں شکست ہو گئی ہے۔
اچھل ملہوترا کا کہنا ہے کہ یوکرین صدر جو بائیڈن کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ نومبر میں امریکی کانگریس کے انتخابات ہیں۔
بائیڈن کو امریکہ کے اندر یہ ثابت کرنا ہو گا کہ امریکہ اب بھی دنیا کا قائد ہے اور یہ کہ وہ یوکرین میں روس کے خلاف سخت لڑائی لڑ رہے ہیں۔ اگر روس نے یوکرین فتح کر لیا تو امریکہ کے تشخص کو بہت نقصان پہنچے گا۔
اچھل ملہوترا کے مطابق: ’ایسا ممکن ہے۔ روس نے افغانستان میں ایسی ہی صورتحال کا سامنا کیا ہے۔ امریکہ نے بھی افغانستان میں ناکامی دیکھی ہے۔ امریکہ ویتنام میں ہارا بھی ہے۔
اس کا انحصار اس بات پر ہو گا کہ امریکہ اور اس کے اتحادی یوکرین میں قابلِ بھروسہ انداز میں اس مزاحمت کو کتنے عرصے تک چلائے رکھ سکتے ہیں۔‘
اس وقت جنگ کے ساتھ ساتھ روس اور یوکرین نے مذاکرات کے ذریعے مسائل کے حل کی کوشش بھی جاری رکھی ہے۔ مگر اس حوالے سے اشارے موجود ہیں کہ روس یوکرین سے صرف اپنی شرائط پر ہی انخلا کرے گا۔
اس کی شرائط میں جو چیزیں شامل ہیں وہ یہ کہ یوکرین کو نیٹو میں شمولیت نہیں اختیار کرنی چاہیے، یوکرینی فوج کو اپنے ہتھیار ڈال دینے چاہییں اور یوکرین کو کرائمیا کو تسلیم کر لینا چاہیے۔
صدر پوتن یہ بھی چاہتے ہیں کہ یوکرین میں اُن کی حامی حکومت تشکیل پائے۔ اگر یوکرین ان شرائط کو تسلیم کر لیتا ہے تو یہ امریکہ اور نیٹو کی شکست ہو گی۔
Comments are closed.