یوکرین روس تنازع: جنگ سے تھک چکے یوکرینی سپاہی اور شہری روس کے اگلے قدم کے انتظار میں
- اورلا گوئرین
- بی بی سی نیوز، دونباس، یوکرین
ماریہ یوکرین میں اگلے مورچوں پر تعینات ہیں اور وہ کہتی ہیں کہ وہ روسی حملے کے لیے تیار ہیں
مشرقی یوکرین کے اگلے مورچے اب برف سے پوری طرح ڈھک چکے ہیں اور بھاری بندوقیں اب کافی حد تک خاموش ہیں۔
ان سرد اور بنجر میدانوں میں ماہر نشانہ باز چپھے بیٹھے ہیں مگر وہ یوکرینی فوجی جو اپنی پہلی عالمی جنگ کی طرز کی خندقوں میں نیچے رہنا بھول جاتے ہیں، اُنھیں سر میں گولی بھی لگ سکتی ہے۔
یہاں پر سنہ 2014 سے تنازع جب ماسکو نواز علیحدگی پسندوں نے دونباس خطے کے کچھ حصوں پر قبضہ کر لیا تھا۔
جنگجوؤں اور عام شہریوں سمیت کم از کم 13 ہزار لوگ مارے جا چکے ہیں۔ اب مغربی رہنما اس سے بھی بری صورتحال کے بارے میں خبردار کر رہے ہیں کہ روس یوکرین پر مکمل حملہ کر سکتا ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو مشرقی محاذ سب سے آسان شروعات ہو گی جہاں باغی روس کی راہ ہموار کر دیں گے۔
ماریہ کوشش کر رہی تھیں کہ اس بارے میں پریشان نہ دکھائی دیں۔ کلاشنکوف سے مسلح یوکرین کی یہ 26 سالہ سپاہی اپنی خندق میں تھیں۔ وہ یوکرین کی 56 ویں انفینٹری بریگیڈ کا حصہ ہیں۔ یوکرینی فوج نے ہم سے کہا کہ ہم صرف اُن کا پہلا نام شائع کریں تاکہ سوشل میڈیا پر اُنھیں ٹرول نہ کیا جا سکے۔
‘میں سیاست پر توجہ نہ دینے اور ٹی وی نہ دیکھنے کی کوشش کرتی ہوں، میں کوشش کرتی ہوں کہ زیادہ فکرمند نہ ہوں۔ مگر ہم تیار ہیں۔ ہم نے کافی تربیت حاصل کی ہے۔ میں جانتی ہوں کہ یہ کسی فوجی مشق کی طرح نہیں ہو گا، یہ سب کے لیے مشکل ہو گا۔ مگر ہمارا حوصلہ بلند ہے اور ہم اپنی جگہ مضبوطی سے قائم ہیں۔’
ماریہ کے بھائیوں میں سے دو یوکرینی نیشنل گارڈ میں خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ اُن کے سب سے چھوٹے بھائی جلد ہی ٹینک پر موجود بندوقچی کے طور پر اگلے مورچوں پر جائیں گے۔ گھر میں ماریہ کے ریٹائرڈ والدین اُن کے چار سالہ بیٹے کی دیکھ بھال کر رہے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ‘اسے چھوڑ کر آنا بہت مشکل تھا مگر جب میں چھ سال کی تھی، تب سے فوج میں شامل ہونا میرا خواب تھا۔ میں نے نہیں سوچا تھا کہ میں اگلے مورچوں تک آ پہنچوں گی مگر مجھے یہاں ہونے پر کوئی افسوس بھی نہیں ہے۔’
قریب ہی اُن کا ایک ساتھی اہلکار کلہاڑی سے لکڑیاں کاٹ رہا تھا۔ یہاں ٹھنڈ بھی اتنی ہی بڑی دشمن ہے جتنے کہ کوئی ایک کلومیٹر دور موجود علیحدگی پسند۔
ایک یوکرینی فوجی اگلے مورچوں پر ایک عارضی کچن میں کھانا بنا رہا ہے
ماریہ بل کھاتی سرنگوں سے ہوتی ہوئی گھر سے دور موجود اپنے اس گھر تک پہنچیں جو زمین سے نیچے ایک کمرے کی طرح ہے۔ یہاں بچوں کے بنائے گئے رنگ برنگی خاکے دیواروں پر آویزاں تھے۔ وہ بتاتی ہیں کہ ‘یہ مختلف سکولوں سے آتے ہیں۔ اس سے ہمارا مورال بلند ہوتا ہے۔’
ماریہ کی جنگ ان کی سرزمین کے مستقبل کے لیے ہے مگر ممکنہ طور پر داؤ پر یوکرین کی قسمت سے زیادہ بھی اور بہت کچھ لگا ہے۔ روس نے واضح کر دیا ہے کہ اس نئی سرد جنگ سے وہ کیا چاہتا ہے۔ مسئلہ اس وقت نیٹو کے مستقبل اور یورپ کے دفاعی انتظام کے بارے میں ہے۔
امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے خبردار کیا ہے کہ روس کے فروری میں یوکرین پر حملے کا ‘واضح امکان’ ہے اور اُن کے مطابق اس سے ‘دنیا بدل جائے گی۔’
برطانیہ کے وزیرِ اعظم بورس جانسن نے چیچنیا اور بوسنیا کے خونچکاں واقعات کی یاددہانی کروائی ہے مگر کچھ یوکرینی لوگوں کی سوچ اس بڑھتی ہوئی بین الاقوامی تشویش کے متضاد ہے۔
مشرق میں تعینات ایک خاتون سماجی کارکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ ‘مجھے نہیں لگتا کہ روسی آئیں گے۔ مجھے اپنی آنکھوں اور کانوں پر یقین ہے۔ یہاں گذشتہ ماہ کے مقابلے میں زیادہ سکون ہے۔ یہ صرف اطلاعات کی جنگ ہے۔’ یہاں کچھ بھی نہیں ہے کا یہ رویہ یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلینسکی کا بھی ہے۔
مگر کچھ لوگ زیادہ خوف زدہ ہیں۔ چونسٹھ سالہ پرنانی لودمیلا موموت کہتی ہیں کہ ‘جب میں کوئی شور سنتی ہوں تو میرا دل دھک دھک کرنے لگتا ہے۔’ وہ اچھی طرح جانتی ہیں کہ ماسکو اور اس کے اتحادی کیا کر سکتے ہیں۔ نیولسکی میں واقع اُن کا گھر گذشتہ نومبر میں علیحدگی پسندوں کی گولہ باری میں تباہ ہو گیا تھا۔ وہ وہاں 30 سال سے رہائش پذیر تھیں۔ ہمیں اس گھر کا ملبہ دکھانے کے لیے وہ ہمیں نیولسکی لے آئیں جہاں اب کوئی نہیں رہتا۔
اُنھوں نے اس سوراخ سے جھانکتے ہوئے جہاں کبھی اُن کا دروازہ ہوتا تھا، روتے ہوئے کہا کہ ‘یہ وہ زخم ہے جو اب زندگی بھر میرے ساتھ رہے گا۔ مجھے اپنے رات کے کپڑوں میں ملبے پر سے رینگ کر نکلنا پڑا۔ میرے پیر لہولہان ہو گئے ۔ یہ جنگ کا آٹھواں سال ہے، ہماری مشکلات کب تک چلتی رہیں گی؟’
لودمیلا موموت پریشان ہیں کہ اُن کی مشکلات جب تک جاری رہیں گی
میں نے ان سے پوچھا کہ وہ روس کے صدر ولادیمیر پوتن کو کیا پیغام دینا چاہیں گی۔ اُنھوں نے کہا کہ ‘امن قائم کریں۔ معاہدہ کر لیں۔ آپ سب پڑھے لکھے، بالغ لوگ ہیں۔ امن قائم کریں تاکہ لوگ آزادی سے، آنسوؤں اور مشکلات کے بغیر جی سکیں۔’
وار اینڈ پیس کے اس جدید منظرنامے میں روسی صدر کے مقاصد اب بھی غیر واضح ہیں۔ اُنھوں نے یوکرین کی سرحدوں پر ایک لاکھ فوجی نیٹو (امریکہ پڑھیں) سے اپنے مطالبات منوانے کے لیے جمع کیے ہیں یا پھر کسی اور ملک کا حصہ ہتھیانے کے لیے؟
ایک صورت ‘محدود دراندازی’ کی ہو سکتی ہے جس میں صرف مشرقی یوکرین میں ہی فوجیں بھیجی جائیں۔ ماسکو ممکنہ طور پر انھیں ‘امن مشن’ قرار دے گا جن کا مقصد اس کے نزدیک صرف وہاں موجود روسی شہریوں کی حفاظت ہو گا۔ ماسکو باغیوں کے قبضے میں موجود اس خطے میں لاکھوں پاسپورٹس جاری کر رہا ہے۔
یوکرینی فوجیوں کا کہنا ہے کہ اگر روسیوں نے حملہ کیا تو یہ سنہ 2014 میں جزیرہ نُما کریمیا پر قبضے جتنا آسان نہیں ہو گا۔ مشرق میں تعینات ایک فوجی آلیونا نے کہا کہ ‘ہم اس مرتبہ پہلے سے زیادہ تیار ہیں۔ مجھے یقین نہیں کہ روسی حملہ کریں گے۔ وہ صرف افراتفری پھیلانا اور اسے اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔’
اگر زمینی حملہ نہ ہوا، اور ماسکو کا اصرار ہے کہ ہو گا بھی نہیں، مگر اس کے باوجود نقصان پہنچ چکا ہے۔ ممکنہ حملے کے بارے میں بین الاقوامی تشویش اس مغرب نما قوم کو غیر مستحکم کر رہی ہے۔
صدر پوتن کی اس ملک پر نظریں ہیں اور وہ اسے کمزور کر کے یہاں ایک گولی چلائے بغیر ہی جیت حاصل کر چکے ہیں۔ اُنھوں نے بین الاقوامی برادری کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ اُن کے ایک ایک لفظ پر تشویش میں مبتلا ہوتی رہے۔
مگر کئی مغربی رہنماؤں کو خوف ہے کہ وہ صرف اس سے مطمئن نہیں ہوں گے۔
Comments are closed.