یوکرین جنگ کے دو سال: لڑائی کی موجودہ صورتحال کیا ہے اور اس کا مستقبل کیا ہو گا؟،تصویر کا ذریعہGetty Images
،تصویر کا کیپشندونوں ممالک کے درمیان جنگ کا محاذ تقریباً ایک ہزار کلومیٹر تک پھیلا ہوا ہے

  • مصنف, کترینہ خنکولووا، وکٹوریہ پریسیدسکیا
  • عہدہ, بی بی سی ورلڈ سروس
  • 36 منٹ قبل

یوکرین اور روس کے درمیان جنگ کو شروع ہوئے دو برس بیت چکے ہیں اور دونوں ممالک کے درمیان جاری تنازع عنقریب ختم ہوتا ہوا نہیں نظر آ رہا۔یوکرین، روس اور ان کے اتحادی ممالک کوئی بھی ایسی راہ تلاش نہیں کرپا رہے جس پر چلتے ہوئے خطے میں امن بحال کیا جا سکے۔یوکرین اپنے موقف پر قائم ہے کہ اس کی بین الاقوامی سرحدوں کو اس کی اصل حالت میں بحال کیا جائے اور وہ روسی فوج کو اپنی زمینی حدود سے باہر نکال کر ہی دم لیں گے۔دوسری جانب روس اپنی بات پر بضد ہے کہ یوکرین کوئی مستند ملک نہیں اور روسی فوج اپنا مشن تب تک جاری رکھے گی جب تک انھیں اپنے اہداف حاصل نہیں ہو جاتے۔

اس تحریر کا مقصد یہ بتانا ہے کہ روس اور یوکرین کے درمیان یہ تنازع اب کہاں کھڑا ہے اور مستقبل میں یہ جنگ کیا شکل اختیار کر سکتی ہے۔

جنگ جیت کون رہا ہے؟

،تصویر کا ذریعہGetty Imagesدونوں ممالک کے درمیان شدید لڑائی انتہائی سرد موسم میں بھی جاری رہی اور اس جنگ میں دونوں فریقین کو بھاری جانی نقصان اُٹھانا پڑا ہے۔دونوں ممالک کے درمیان جنگ کا محاذ تقریباً ایک ہزار کلومیٹر تک پھیلا ہوا ہے اور 2022 کے موسمِ خزاں کے بعد اس میں معمولی سی تبدیلی بھی دیکھنے میں نہیں آئی ہے۔دو سال قبل شروع ہونے والی اس جنگ کے کچھ مہینوں بعد ہی یوکرین نے روسی فوج کو اپنے شمالی علاقوں سے اور دارالحکومت کیئو سے دور دھکیل دیا تھا۔ اسی برس یوکرین نے اپنے مشرقی اور جنوبی علاقوں کو روسی فوج کے تسلط سے آزاد بھی کروایا تھا۔لیکن اب یوکرینی علاقوں کے اردگرد روسی افواج قلعبند ہیں اور یوکرینی حکام کا کہنا ہے کہ انھیں گولہ بارود کی قلت کا سامنا ہے۔حال ہی میں نوکری سے برخاست کیے جانے والے یوکرینی فوج کے کمانڈر اِن چیف ولیری زالوزنی اور روسی فوج کے حامی بلاگرز بھی اس جنگ کو ایک عسکری دلدل کی تصویر کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔فروری کے وسط میں یوکرین نے اپنی فوج کو اپنے مشرقی علاقے اودیوکا سے باہر نکال لیا تھا۔ روسی فوج کی جانب سے اسے اپنی ایک بڑی عسکری کامیابی قرار دیا گیا تھا کیونکہ اودیوکا یہ علاقہ تعزویراتی اہمیت کا حامل ہے جس سے یوکرین میں داخل ہونے کے مزید راستے نکلتے ہیں۔کیئو میں حکام نے موقف اختیار کیا تھا کہ اودیوکا سے فوج کے انخلا کا مقصد اپنے فوجیوں کی زندگی کا تحفظ یقینی بنانا تھا۔ ان کی طرف سے یہ اعتراف بھی کیا گیا کہ اس علاقے میں ان کے فوجیوں کی تعداد کم تھی اور ان کے پاس اسلحے کی بھی کمی تھی۔خیال رہے اودیوکا کا علاقہ روس کے زیرِ تسلط شہر دونیتسک سے 20 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ دونیتسک پر روس نے 2014 میں قبضہ کیا تھا۔اودیوکا سے یوکرینی فوج کا انخلا گذشتہ برس مئی کے بعد روسی فوج کی طرف سے حاصل کی گئی سب سے بڑی کامیابی تھی۔خیال رہے مئی 2023 میں روسی فورسز نے یوکرینی شہر بخمُت پر قبضہ کر لیا تھا۔لیکن جنگی میدان میں یہ کامیابی روس کے ان اہداف سے بہت چھوٹی ہے جو ان کی طرف سے فروری 2022 میں طے کیے گئے تھے۔ یہ اہداف روس کے سرکاری میڈیا اور روس کے حامی عسکری بلاگرز کے ذریعے سامنے آئے تھے اور ان کی طرف سے یہ بھی پروپگینڈا کیا گیا تھا کہ روسی فوج اگلے تین دنوں میں یوکرینی دارالحکومت کیئو پر قبضہ کرلے گی۔اس وقت تقریباً 18 فیصد یوکرینی علاقے روس کے کنٹرول میں ہیں اور اس میں جزیرہ نما کریمیا کا وہ علاقہ بھِی شامل ہے جس پر روسی افواج نے 2014 میں قبضہ کیا تھا۔اس کے علاوہ روس کے زیر تسلط یوکرینی علاقوں میں دونیتسک اور لوہانسک بھی شامل ہیں۔

کیا یوکرین کو ملنے والی حمایت میں کمی آ رہی ہے؟

،تصویر کا ذریعہGetty Imagesپچھلے دو برسوں میں یوکرین کے اتحادیوں کی جانب سے اسے بڑی مقدار میں عسکری، مالی اور انسانی امداد مہیا کی گئی ہے۔ کیل انسٹٹیوٹ آف ورلڈ اکانومی کے مطابق جنوری 2024 تک یورپی یونین کے اداروں نے یوکرین کو 92 بلین جبکہ امریکہ نے 73 بلین ڈالر کی امداد مہیا کی ہے۔مغربی ممالک کی جانب سے فراہم کیے گئے ٹینکس، ایئر ڈیفنس اور آرٹلری سسٹم نے اس جنگ میں یوکرین کی بہت مدد کی ہے۔ لیکن اتحادی ممالک کی جانب سے یوکرین کو ملنے والی امداد میں حالیہ دنوں میں کمی دیکھنے میں آئی ہے، جس کے بعد اس بحث نے جنم لیا ہے کہ آخر کب تک اتحادی ممالک کو یوکرین کی مدد کرنی پڑے گی۔ملک میں اندرونی سیاسی اُتار چڑھاؤ کے درمیان امریکی کانگرس نے یوکرین کے لیے منظور شدہ 60 بلین ڈالر کے امدادی پروگرام کو روک دیا ہے۔ایسے میں یوکرین کے حامیوں کو یہ خدشہ بھی ہے کہ اگر نومبر میں امریکی صدارتی انتخابات کے نتیجے میں ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ وائٹ ہاوس پہنچ جاتے ہیں تو شاید کیئو کے لیے امریکی حمایت ختم ہو جائے گی۔فروری میں ایک لمبی بحث کے بعد یورپی یونین نے یوکرین کے لیے 54 بلین ڈالر کے امدادی پروگرام کی منظوری دی تھی۔ بحث کے دوران روسی صدر ولادیمیر پوتن کے اتحادی اور ہنگری کے وزیرِ اعظم وکٹر اوربن نے یوکرین کو ملنے والی امداد کی مخالفت کی تھی۔اس کے علاوہ یورپی یونین نے مارچ 2024 تک یوکرین کو 10 لاکھ آرٹلری گولے دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن ایسا لگتا ہے کہ اس مدت کے اختتام پر کیئو کو صرف پانچ لاکھ کے قریب ہی گولے مل پائیں گے۔،تصویر کا ذریعہGetty Imagesبیلاروس کا شمار روس کے ان اتحادی ممالک میں ہوتا ہے جس کے فضائی اور زمینی راستوں کا استعمال روسی افواج یوکرین تک رسائی حاصل کرنے کے لیے کر چکی ہیں۔دوسری جانب امریکہ اور یورپی یونین کا کہنا ہے کہ ایران بھی روس کو ’شاہد ڈرون‘ مہیا کر رہا ہے۔ لیکن روس کا کہنا ہے کہ ایران کی جانب سے جنگ کی شروعات سے قبل ایک چھوٹی تعداد میں ڈرون مہیا کیے گئے تھے۔یوکرین میں اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے یہ ڈرون انتہائی موثر ثابت ہوِئے ہیں کیونکہ اکثر یہ ڈرون ایئر ڈیفنس سسٹم پر نظر نہیں آتے اور اسی وجہ سے اس جنگ میں ڈرون کی مانگ بڑھ گئی ہے۔مغربی ممالک کو یہ امید تھی اس کی جانب سے لگائی جانے والی پابندیاں شاید روس کو کمزور کریں گی لیکن اس سب کے باوجود بھی روس اپنا تیل فروخت کر پا رہا ہے اور اسے اپنی فوجی انڈسٹری کے لیے ساز و سامان بھی مل رہا ہے۔چین جنگ میں مصروف دونوں فریقین میں سے کسی کی حمایت نہیں کر رہا اور اس تنازع میں واضح طور پر ایک سفارتی موقف اپنائے ہوئے ہے۔چین کی جانب سے نہ تو روسی اقدامات کی مذمت کی جا رہی ہے اور نہ ہی وہ روس کے فوجی آپریشن کی حمایت کر رہا ہے۔ لیکن یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ چین اور انڈیا سمیت کئی ممالک روس سے تیل خریدنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔یوکرین اور روس دونوں ہی کے سفارتکار افریقہ اور لاطینی امریکہ کے چھوٹے ممالک کے دورے کر رہے ہیں تاکہ ان کی سفارتی حمایت حاصل کی جا سکے۔،تصویر کا ذریعہSputnik / Reuters

،تصویر کا کیپشنروس کے صدر ولادیمیر پوتن پورے یوکرین پر قبضہ کرنے کے خواہاں ہیں

کیا روس کے جنگی مقاصد میں تبدیلی آئی ہے؟

دُنیا بھر میں یہی سوچ پائی جاتی ہے کہ روس کے صدر ولادیمیر پوتن پورے یوکرین پر قبضہ کرنے کے خواہاں ہیں۔امریکی اینکرپرسن ٹکر کارلسن کے ساتھ ایک حالیہ انٹرویو میں روسی صدر نے تارِیخی حقائق کو مسخ کرکے اسی طرح کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔برسوں سے صدر پوتن کی طرف سے یہی کہا جا رہا ہے کہ یوکرین اور خصوصاً دونباس کے علاقے میں یوکرینی شہریوں کو روسی تحفظ کی ضرورت ہے۔جنگ کی شروعات سے قبل ولادیمیر پوتن نے ایک مفصل مضمون لکھا تھا جس میں انھوں نے یوکرین کے ایک ’خودمختار ریاست ہونے کی نفی کی تھی اور کہا تھا کہ یوکرینی اور روسی شہریوں کا تعلق ایک ہی قوم سے ہے۔‘دسمبر 2023 میں انھوں نے کہا تھا کہ یوکرین میں جاری روس کے ’سپیشل ملٹری آپریشن‘ کے مقاصد بدلے نہیں ہیں اور اس میں ’نازی اثرات‘ کو کم کرنے کی کوششیں بھی شامل ہیں۔ ان بے بنیاد الزامات کو ثابت کرنے کے لیے روسی صدر کی جانب سے کوئی ثبوت نہیں دیے گئے۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ یوکرین عسکری طور پر ’نیوٹرل‘ ہوجائے اور نیٹو ممالک کا اثر و رسوخ اس خطے میں کم سے کم ہو۔بحیثیت آزاد ریاست یوکرین کبھی کسی عسکری اتحاد کا حصہ نہیں رہا۔ اس کے سیاسی مقاصد میں یورپی یونین کا حصہ بننا اور نیٹو ممالک سے اچھے تعلقات استوار کرنا شامل ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جنگ شروع ہونے کے بعد یوکرین اپنے دونوں مقاصد حاصل کرنے کے مزید قریب آ چکا ہے۔ان اہداف کا مقصد یوکرین کو ایک مضبوط ریاست بنانا ہے اور ایسے کسی بھی پروجیکٹ سے خود کو محفوظ رکھنا ہے جس کے تحت سویت یونین کی بحالی ممکن ہو سکے۔

جنگ کا خاتمہ کیسے ممکن ہے؟

،تصویر کا ذریعہEPA

،تصویر کا کیپشنماہرین کی اکثریت کا خیال ہے کہ یہ جنگ 2025 سے بھی آگے جائے گی
دونوں فریقین میں سے کوئی بھی ہتھیار ڈالنے کو راضی نہیں اور ولادیمیر پوتن اپنے اقتدار کو مزید طوالت دینا چاہتے ہیں۔ ان تمام عوامل کو مدِنظر رکھتے ہوئے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ جنگ مزید طوالت اختیار کرے گی۔اس حوالے سے ’گلوسیک‘ نامی تھنک ٹینک نے درجنوں ماہرین سے موجودہ صورتحال پر رائے لی ہے۔ماہرین کی اکثریت کا خیال ہے کہ یہ جنگ 2025 سے بھی آگے جائے گی جس میں دونوں فریقین کا بھاری جانی نقصان ہوگا اور عسکری ساز و سامان کے لیے یوکرین کا انحصار اپنے اتحادیوں پر مزید بڑھے گا۔ماہرین میں ایک رائے یہ بھی پائی جاتی ہے کہ دُنیا کے دیگر حصوں میں بھی یوکرین اور روس کے طرز کے تنازعات شروع ہو سکتے ہیں جیسے کہ مشرق وسطیٰ میں، چین اور تائیوان کے درمیان اور بلقان ممالک میں کیونکہ روس وہاں کشیدگی بڑھانا چاہے گا۔ماہرین میں ایک رائے اور بھی پائی جاتی ہے کہ اس جنگ میں یوکرین عسکری طور پر تھوڑی بہت کامیابی حاصل کرے گا لیکن پھر بھی جنگ کا خاتمہ نہیں ہو پائے گا یا پھر ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ اتحادی ممالک یوکرین کی حمایت میں کمی لے آئیں اور اسے مذاکرات کے ذریعے جنگ بندی پر آمادہ کریں۔لیکن روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ پر امریکی صدارتی انتخابات اور اسرائیل اور حماس کے درمیان تنازع کے کیا اثرات پڑیں گے اس حوالے سے غیریقینی پائی جاتی ہے۔

کیا روس اور یوکرین کے درمیان تنازع دیگر ممالک تک پھیل سکتا ہے؟

واضح رہے کہ یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی یہ کہہ چکے ہیں کہ ان کے ملک کو درپیش اسلحے کی قلت روس کے لیے مددگار ثابت ہوگی۔میونخ میں ایک بین الاقوامی کانفرنس کے دوران ان کا کہنا تھا کہ اگر مغربی دنیا پوتن کے خلاف نہ اُٹھ کھڑی ہوئی تو روسی صدر دیگر ممالک کے لیے اگلے کچھ سال ’قیامت خیز‘ بنا دیں گے۔تھنک ٹینک ’رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹٹیوٹ‘ کا ماننا ہے کہ روس نے اپنی معیشت اور دفاعی صلاحیتوں کو کامیابی سے آگے بڑھایا ہے اور وہ ایک لمبی جنگ کی تیاری کر چکا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یورپ ایسے کسی بھی امکان کے لیے تیار نہیں ہے اور ایسے ہی خدشات کا اظہار پولینڈ کے وزیرِ خارجہ بھی کہہ چکے ہیں۔یورپی ممالک، جرمنی کے وزیرِ خارجہ اور ایسٹونیا کے جاسوس ادارے کی طرف سے حال ہی میں اس خدشے کا اظہار کیا گیا ہے کہ اگلی ایک دہائی میں روس کسی نیٹو ملک پر حملہ کرسکتا ہے۔ان خدشات کے اظہار کے بعد ایسا لگتا ہے کہ نیٹو اور یورپی یونین ایسے کسی بھی حملے کی روک تھام کے لیے حکمت عملی مرتب کر رہے ہیں جس میں عسکری اور معاشی تیاریاں بھی شامل ہیں۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}