یوکرین جنگ کے دوران چین نے روس کو عالمی پابندیوں سے کیسے بچایا؟،تصویر کا ذریعہREUTERS

  • مصنف, کیلی این جی اور یی ما
  • عہدہ, سنگاپور اور لندن سے
  • ایک گھنٹہ قبل

روسی صدر ولادیمیر پوتن اور ان کے چینی ہم منصب شی جن پنگ نے بیجنگ میں ہونے والی ملاقات کے دوران دونوں ممالک کے درمیان گہرے تعلقات کو سراہا ہے۔ فروری 2022 میں یوکرین پر روس کے حملے کے بعد دونوں رہنماؤں کے درمیان یہ چوتھی ملاقات تھی۔اس دوران، بیجنگ ماسکو کا ایک اہم اتحادی بن گیا ہے جو امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کی جانب سے عائد ہونے والی پابندیوں کے اثرات کو کم کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔

کیا چین روس کو ہتھیار فراہم کر رہا ہے؟

،تصویر کا ذریعہEPAچین نے متعدد بار ان الزامات کی تردید کی ہے کہ وہ روس کو ہتھیار یا اسلحہ فراہم کر رہا ہے۔بی بی سی کو دیے جانے والے ایک انٹرویو میں امریکی سیکریٹری خارجہ امور انٹونی بلنکن نے کہا کہ ’جو نہیں ہو رہا وہ چین کی جانب سے روس کو یوکرین میں استعمال کے لیے حقیقی اسلحے کی فراہمی ہے۔‘

تاہم چین پر الزام لگتا رہا ہے کہ وہ ماسکو کی جنگی مشین کو اہم سامان فراہم کر رہا ہے۔ بلنکن نے کہا کہ ’یہ سامان روس کو مزید اسلحہ، ٹینک، بکتر بند گاڑیاں اور میزائل تیار کرنے میں مدد دے رہا ہے۔‘انھوں نے کہا کہ روس چین سے 70 فیصد تک مشینی آلات اور 90 فیصد تک مائیکرو الیکٹرانکس درآمد کر رہا ہے۔واشنگٹن کی جانب سے مئی میں چین اور ہانگ کانگ میں موجود 20 کمپنیوں پر پابندیاں عائد کی گئی تھیں۔ امریکہ کا الزام ہے کہ ان میں سے ایک ڈرون میں استعمال ہونے والے حصے برآمد کر رہی تھی جب کہ باقی ماسکو کو مغربی پابندیوں سے بچ کر ٹیکنالوجی تک رسائی حاصل کرنے میں مدد دے رہی تھیں۔چین نے روس سے تجارتی تعلقات کا یہ کہتے ہوئے دفاع کیا ہے کہ وہ جان لیوا ہتھیار نہیں بیچ رہا اور تمام قوانین اور قواعد و ضوابط کو مدنظر رکھتے ہوئے دہرے استعمال کی چیزوں کی برآمد کرتا ہے۔کارنیگی اینڈومنٹ تھنک ٹینک کے اعداد وشمار کے مطابق بینجگ کی جانب سے ہر ماہ روس کو ایسا تقریباً 300 ملین ڈالر مالیت کا سامان برآمد کیا جاتا ہے جن کا کمرشل اور عسکری دونوں سطح پر استعمال ہو سکتا ہے اور ان میں ڈرون سے ٹینک تک تیار کرنے والا سامان شامل ہے۔آر یو ایس آئی نامی برطانوی تھنک ٹینک نے بھی خبردار کیا ہے کہ چینی سیٹلائیٹ ٹیکنالوجی کو یوکرین میں جنگی محاذ کی جاسوسی کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

چین اور روس کی باہمی تجارت میں کتنا اضافہ ہوا ہے؟

روس پر مغربی پابندیوں کے بعد سے چین گاڑیوں، کپڑوں، خام مال سمیت کئی مصنوعات فراہم کر رہا ہے اور سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2023 میں باہمی تجارت 240 ارب ڈالر تک رہی جو 2021، یعنی یوکرین جنگ سے قبل، کے مقابلے میں 64 فیصد زیادہ ہے۔اس دوران روس نے 111 ارب ڈالر کی مصنوعات چین سے درآمد کیں اور 129 ارب ڈالر کی مصنوعات چین کو برآمد کیں۔حالیہ ملاقات میں ولادیمیر پوتن اور شی جن پنگ نے تجارت میں اضافے کو سراہا اور اس بات کو بھی اجاگر کیا کہ اب چین اور روس 90 فیصد تجارت کے لیے امریکی ڈالر کے بجائے اپنی کرنسی استعمال کر رہے ہیں۔صدر پوتن نے کہا کہ وہ روس میں چینی گاڑیوں بنانے والی صنعتوں کو خوش آمدید کہیں گے۔ یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکہ نے چینی ساختہ الیکٹرک گاڑیوں پر 100 فیصد تک ٹیکس بڑھا دیا ہے۔2023 میں چینی گاڑیوں اور پرزوں کی روس برآمد 23 ارب ڈالر تک جا پہنچی تھی جو گزشتہ سال کے مقابلے میں چھ ارب ڈالر زیادہ تھی۔چینی وزیر خارجہ وانگ یی نے مارچ میں کہا تھا کہ ’روس کی قدرتی گیس کئی چینی گھروں کو ایندھن فراہم کر رہی ہے اور چینی گاڑیاں روسی سڑکوں پر دوڑ رہی ہیں۔‘تاہم چند ماہرین کا کہنا ہے کہ اس رشتے میں روس کو چین پر زیادہ انحصار کرنا پڑ رہا ہے۔ 2023 میں چین روس کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار بن چکا تھا جبکہ دوسری جانب روس چین کا چھٹا بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔

چین روس سے کتنا تیل اور کتنی گیس خریدتا ہے؟

روسی حکومت کی سالانہ آمدن کا تقریبا نصف تیل اور گیس کی فروخت سے حاصل ہوتا ہے لیکن پابندیوں کی وجہ سے امریکہ، برطانیہ اور یورپی ممالک کو ہونے والی فروخت گر گئی تھی۔اس کمی کو ایشیا کی جانب فروخت میں اضافے نے کسی حد تک پورا کیا، خصوصا چین اور انڈیا کو۔2023 میں روس نے تیل کی فروخت میں سعودی عرب کو پیچھے چھوڑ دیا اور بیجنگ نے 2022 کے مقابلے میں روس سے 24 گنا زیادہ تیل خریدا۔جی سیون ممالک، یورپی یونین اور آسٹریلیا نے کوشش کی ہے کہ روس کی آمدن کو کم کیا جائے اور اس کے لیے سمندر کے راستے فروخت ہونے والے روسی تیل کی قیمت پر ایک حد مقرر کی گئی۔ تاہم چین نے اس حد کی پرواہ کیے بغیر روسی تیل کی خریداری جاری رکھی ہے۔دوسری جانب انڈیا نے بھی روس سے دہائیوں پرانے تعلقات جو برقرار رکھا ہے اور سستے روسی تیل کا اہم خریدار ہے۔بینک آف بروڈا کے مطابق جون 2023 میں انڈیا کی جانب سے تیل کی مجموعی درآمدات میں روس کا حصہ 44 فیصد تک پہنچ چکا تھا۔2023 میں چین نے روس سے آٹھ ملین ٹن ایل پی جی بھی درآمد کی جو 2021 کے مقابلے میں 77 فیصد زیادہ تھی۔دونوں ممالک توانائی کے شعبے میں بھی وسعت کے خواہشمند ہیں جس میں ’پاور آف سائبرییا ٹو‘ نامی ایک پائپ لائن بھی شامل ہے۔ یہ پائپ لائن روس کے مغربی سائبیریا خطے کو شمال مشرقی چین سے جوڑ کر قدرتی گیس فراہم کرنے کا ذریعہ بنے گی۔چین پہلے سائبیریا سے ایک اور پائپ لائن کے ذریعے گیس حاصل کر رہا ہے جو 2019 سے فعال ہے۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}