یوکرین جنگ: کیا چین نے اب مغرب کو خوش کرنے کی پالیسی اختیار کر لی ہے؟
- مصنف, ٹیسا وانگ
- عہدہ, بی بی سی نیوز، ایشیا
اس دورے کے دوران وانگ پی کی ملاقات ہنگری کے وزیرِ خارجہ سے بھی ہوئی
گذشتہ ایک سال سے مغربی ممالک کوشش کرتے رہے ہیں کہ کسی طرح چین کو قائل کیا جائے کہ وہ یوکرین کی جنگ ختم کرانے میں ان کی مدد کرے۔ چین نے اب پہلی بار مغرب کو جواب دیا ہے، لیکن لگتا نہیں کہ بہت سے مغربی ممالک کو یہ جواب زیادہ پسند آئے گا۔
حالیہ دنوں میں چین نے بھی میٹھی میٹھی باتیں شروع کر دیں ہیں، جس کا آغاز سینیئر چینی سفارتکار، وانگ یی کے یورپ کے دورے سے ہوا جس کا اختتام ماسکو میں ہوا جہاں صدر ولادیمیر پوتن نے بڑی گرمجوشی سے ان کا استقبال کیا۔
گذشتہ دنوں میں بیجنگ نے ایک نہیں بلکہ دو دستاویزات جاری کی ہیں۔ پہلے سفارتی پیپر میں یوکرین کی جنگ کا حل پیش کیا گیا ہے جبکہ دوسرے مضمون میں چین نے عالمی امن کے قیام کے لیے اپنا منصوبہ پیش کیا ہے۔ ان دستاویزات میں بڑی حد تک چین کے اسی مؤقف کا اعادہ کیا گیا ہے جس کا اظہار وہ گذشتہ ایک سال سے کر رہا ہے۔ اس میں ہر ملک کی خود مختاری کے احترام کی بات کی گئی ہے (یوکرین کے لیے)، قومی سلامتی کے تحفظ کا ذکر ہے (روس کے لیے)، اور کسی بھی ملک کے خلاف یکطرفہ پابندیوں کی مخالفت کی گئی ہے (یعنی امریکہ پر تنقید کی گئی ہے)۔
ہو سکتا ہے کہ مغرب چین کی اس تازہ ترین سفارتکاری سے زیادہ متاثر نہ ہو، لیکن بیجنگ کا بڑا مقصد کبھی بھی یہ نہیں تھا کہ وہ مغرب کو قائل کرے۔
پہلی بات تو بڑی واضح ہے اور وہ یہ ہے کہ چین خود کو عالمی امن کا علمبردار بنا کر پیش کر رہا ہے۔ وہ کون سی عالمی طاقت ہے جو دنیا کے مختلف ممالک کو اپنی جانب متوجہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے، اس کا ایک واضح اشارہ ہمیں چین کی تازہ ترین دستاویزات میں نظر آتا ہے۔ ایک پیپر میں چین نے عالمی امن کے لیے جنوب مشرقی ایشیا، افریقہ اور جنوبی امریکہ کے ممالک سے رابطے بڑھانے کا ذکر کیا ہے۔ یوں صرف امریکہ کی قیادت میں چلنے والے عالمی نظام یا ورلڈ آرڈر کے بجائے، چین تیسری دنیا کے ممالک کو یہ بتانے کی کوشش کر رہا ہے کہ ایک نیا عالمی نظام قائم ہونا چاہیے جس میں صرف امریکہ کی اجارہ داری نہ ہو۔
چین کا دوسرا بڑا مقصد امریکہ کو ایک واضح پیغام دینا ہے۔
اس حوالے سے برطانیہ کی یونیورسٹی آف ساؤتھ ویلز سے منسلک چین روس تعلقات کے ماہر، ڈاکٹر الیگزینڈر کورولیو کہتے ہیں کہ چین کی اس بات میں ہمیں ’نافرمانی اور مزاحمت کا عنصر‘ دکھائی دیتا ہے۔ چین (امریکہ کو) خبردار کر رہا ہے کہ اگر ہم دونوں کے معاملات خراب ہو جاتے ہیں، تو میرے پاس ایک اور طاقت بھی ہے۔ یعنی روس اکیلا نہیں ہے ۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ اگر ہم دونوں میں لڑائی ہو جاتی ہے تو میں اکیلا نہیں ہوں گا بلکہ روس بھی میرے ساتھ ہوگا۔۔۔ تم اب مجھ پر دھونس نہیں جما سکتے۔‘
مبصرین کہتے ہیں کہ چین نے اپنی نئی سفارتکاری کے لیے جس وقت کا انتخاب کیا ہے، اسے دیکھیں تو آپ کو صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ چین ایسا کیوں کر رہا ہے۔
گذشتہ کچھ عرصے میں امریکہ اور چین کے تعلقات بہت خراب ہو چکے تھے اور امریکہ کی فضاؤں میں جاسوس غباروں کی کہانی نے معاملات کو مزید خراب کر دیا ہے۔
کچھ مبصرین یہ سوال بھی کر رہے ہیں کہ چین کو سفارتکاری کے ذریعے یوکرین میں امن قائم کرنے کی یاد اب کیوں آئی ہے۔
ڈاکٹر الیگزینڈر کورولیو کہتے ہیں کہ ’چین کے پاس عالمی سطح پر اپنی قیادت دکھانے کے بہت سے مواقع تھے، اسے مدعو کیا گیا تھا کہ وہ جنگ ختم کرانے میں اپنا کردار ادا کرے۔ اگر چین کا مقصد واقعی یہ دکھانا تھا کہ وہ دنیا کی قیادت کر سکتا ہے، تو اس کے لیے آپ ایک سال تک کنارے پر نہیں بیٹھے رہتے اور پھر اٹھ کر سفارتکاری کے میدان میں ڈانس نہیں کرتے۔‘
چین کا ایک تیسرا مقصد بھی تھا، جسے ہم وانگ پی کے سفارتی سفر میں بھی دیکھ سکتے، یعنی وہ اس دورے میں کہاں کہاں گئے اور کیا کہا۔
فرانس، جرمنی، اٹلی اور ہنگری کا دورہ کر کے ہو سکتا ہے وانگ پی یہ دیکھنا چاہ رہے ہوں کہ آیا چین کچھ ایسے یورپی ممالک کا دل جیت سکتا ہے جنھوں نے یوکرین کے مسئلے پر روس کی کھل کے مخالفت نہیں کی۔
ایسٹ چائنا یونیورسٹی سے منسلک بین الاقوامی سیاست و معیشت کے ماہر زینگ چِن کے بقول انھیں چین اور ان مغربی ممالک کے درمیان مفادات کی ہم آہنگی دکھائی دیتی ہے۔ چین سمجھتا ہے کہ امریکہ کا اثر و رسوخ بہت زیادہ ہے اور بحرالکاہل کے ارد گرد کے ممالک کا فائدہ اسی میں ہے کہ وہ امریکہ کے حصار سے باہر نکلیں۔‘
لیکن کیا چین واقعی مغربی دنیا کو امریکہ کی اجارہ داری سے نجات دلا سکتا ہے؟
جب وانگ پی نے جرمنی میں میونخ سکیورٹی کانفرنس کے دوران خطاب کرتے ہوئے امریکہ پر تنقید کی تو اس کمرے میں امریکہ کے بہت ہی قریبی اتحادی بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ سفارتکار بتاتے ہیں کہ امریکی اتحادیوں کو یہ بات پسند نہیں آئی، بلکہ اس کا نقصان یہ ہوا کہ مغربی ممالک بھی شک میں پڑ گئے ہیں کہ آخر چین اپنی نئی سفارتی مہم سے حاصل کیا کرنا چاہتا ہے۔
جرمن مارشل فنڈ نامی تھنک ٹینک کے تجزیہ کار اینڈریو سمال کہتے ہیں کہ وانگ پی کا ’دورہ اس لحاظ سے بڑا واضح تھا کہ وہ کیا کرنے آئے تھے۔ وہ یہی بتانا چاہتے تھے کہ یورپ کے ساتھ چین کو کوئی مسئلہ نہیں، بلکہ ہمارا مسئلہ امریکہ ہے۔ ہم یورپ کے ساتھ معاملات کو ٹھیک کر سکتے ہیں لیکن یورپ کو یہ سمجھنا ہوگا کہ امریکہ آپ کو ایک ایسے راستے پر لے جا رہا ہے جہاں مسائل ہی مسائل ہیں۔‘
’لیکن میرا خیال ہے کہ یورپ کے اکثر ممالک وانگ پی کی باتوں پر زیادہ دھیان نہیں دے رہے۔‘
ماسکو میں صدر ولادیمیر پوتن نے وانگ پی کا گرمجوشی سے استقبال کیا
اس وقت بڑا سوال یہ کہ ایک ایسے وقت میں جب چین بڑے جوش و خروش سے روس کو گلے لگا رہا ہے، آیا بیجنگ اپنا یہ وعدہ پورا کر پائے گا کہ وہ دنیا میں امن قائم کرے گا۔
اسی ہفتے امریکہ خبردار کر چکا ہے کہ چین روس کو مہلک ہتھیار دینے کے بارے میں سوچ رہا ہے اور یہی نہیں بلکہ چین پہلے ہی روس کو ایسی ٹیکنالوجی دے رہا ہے جو عسکری اور غیر عسکری، دونوں مقاصد کے لیے استعمال کی جا سکتی ہے، جیسے ڈرونز اور سیمی کنڈکٹرز۔
عوامی سطح پر چین نے امریکی تنقید کا جواب غصے سے بھری لفاظی میں دیا ہے۔ لیکن بند دروازوں کے پیچھے وانگ پی نے یورپی یونین کے اعلیٰ افسر جوزف بوریل کا بتایا ہے کہ چین روس کو ہتھیار نہیں دے گا۔
بوریل کے بقول وانگ پی نے ان سے یہ بھی پوچھا تھا کہ ’ آپ اس بات پر کیوں فکرمند ہو رہے ہیں کہ شاید میں روس کو اسلحہ دے رہا ہوں، حالانکہ آپ لوگ خود یوکرین کو اسلحہ دے رہے ہیں۔‘
مبصرین کہتے ہیں کہ وانگ پی کے اس فقرے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ چین کو یقین ہے کہ مغربی ممالک یوکرین میں جلتی پہ تیل ڈال رہے ہیں۔‘
وانگ پی کا کہنا تھا کہ ’جنگ میں کسی بھی متحارب فریق کو ہتھیار بھیجنے کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ آپ جنگ میں اضافہ کر رہے ہیں۔ ابھی تک تو چینی ریاست کا مؤقف یہی ہے۔‘
یہ بھی پڑھیے
مغربی ممالک کے ساتھ چین کے مفادات کو سامنے رکھیں تو لگتا نہیں کہ چین واقعی روس کو ہتھیار دے گا۔
اگر چین کوئی ایسا قدم اٹھاتا ہے تو دوسرے ممالک یہ سمجھیں گے کہ چین واقعی یوکرین میں جاری جنگ میں شدت پیدا کر رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں چین کے خلاف پابندیاں بھی عائد ہو سکتی ہیں جس سے مغرب کے ساتھ چین کی تجارت بھی متاثر ہو گی۔ یہ چیز چین کے لیے انتہائی نقصان دہ ہو سکتی ہے کیونکہ چین کے سب سے بڑے تجارتی ساتھی یورپی یونین اور امریکہ ہیں۔
اس کے علاوہ عالمی سطح پر کشیدگی میں بہت اضافہ ہو جائے گا اور امریکہ کے اتحادی امریکہ کے اور زیادہ قریب ہو جائیں گے۔ یوں چین کی ان کوششوں پر پانی پھر جائے گا جو وہ مغربی ممالک کو اپنے قریب لانے کے لیے کر رہا ہے۔
اسی لیے مبصرین کہتے ہیں کہ اس بات کا امکان زیادہ ہے کہ چین روس کی بالواسطہ حمایت جاری رکھے یا اس میں اضافہ کر دے گا۔ مثلاً وہ روس کے ساتھ تجارت بڑھا دے گا تاکہ روس معاشی طور مضبوط رہے۔ اسی طرح اگر روس پر پابندیاں لگانے کی قرارداد پیش کی جاتی ہے تو چین ووٹ نہیں ڈالے گا۔
ڈاکٹر سمال کے مطابق ہو سکتا ہے کہ چین روس کو ڈرونز اور سیمی کنڈکٹرز ایران یا شمالی کوریا جیسے کسی تیسرے ملک کے راستے فراہم کر دے۔‘
لیکن ڈاکٹر سمال کا کہنا ہے کہ جب تک یوکرین کی جنگ جاری رہتی ہے، مہلک ہتھیاروں کی فراہمی کا مسئلہ سر اٹھاتا رہے گا۔
ابھی تک اس حوالے سے کوئی بات نہیں ہو رہی کہ روس چین سے کیا بڑی مدد مانگ سکتا ہے، کیونکہ ماضی میں روس کو اس کی ضرورت نہیں پڑی تھی۔ لیکن اب روس اس موڑ پر آ گیا ہے۔ آخر کب تک چین روس کو یہ کہتا رہے گا کہ وہ اسے ہتھیار وغیرہ نہیں دے گا۔‘
یوکرین میں جنگ کے آغاز سے چند ہی دن پہلے صدر شی جنگ پنگ اور صدر پوتن نے برملا کہا تھا کہ ان دونوں کی ’دوستی کی کوئی حدیں نہیں ہیں۔‘
اب اس کے ایک سال بعد چین کو اس سوال کا جواب دینا پڑ سکتا ہے کہ وہ اپنے اس خاص دوست کی دوستی میں کہاں تک جائے گا۔
Comments are closed.