یوکرین جنگ میں 50 ہزار روسی فوجیوں کی ہلاکت: وہ محاذِ جنگ جہاں روسی فوجی اوسطاً دو ماہ بھی زندہ نہیں رہ پا رہے
ہماری تحقیق کے ذریعے یہ معلوم ہوا ہے کہ روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ کے دوسرے سال میں 27 ہزار 300 روسی فوجی ہلاک ہوئے۔روس نے اس رپورٹ پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔بی بی سی کی تحقیق کے نتیجے میں منظرِ عام پر آنے والی ہلاکتوں کی تعداد روس کی طرف سے جاری کیے گئے سرکاری اعداد و شمار سے آٹھ گُنا زیادہ ہے۔ہماری تحقیق کے دوران مقبوضہ دونیتسک اور لوہانسک میں لڑنے والے روس کے حامی مسلح گروہوں کے افراد کی ہلاکتوں کو شامل نہیں کیا گیا ہے، اگر ان ہلاکتوں کو بھی شامل کر لیا جائے تو اس جنگ میں روس کے جانی نقصان میں ایک بڑا اضافہ دیکھنے میں ملے گا۔دوسری جانب یوکرین کی جانب سے اپنے فوجیوں کی ہلاکتوں پر شاذ و نادر ہی تبصرہ کیا جاتا ہے۔ رواں سال فروری میں یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی نے کہا تھا کہ روس کے ساتھ جنگ میں اُن کے 31 ہزار فوجی مارے جا چکے ہیں۔
روس کی ’میٹ گرائنڈر‘ جنگی پالیسی کیا ہے؟
’میٹ گرائنڈر‘ کی اصطلاح کا استعمال روسی فوج کی نئی پالیسی کی وضاحت کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ اس جنگی پالیسی کے تحت روسی فوجی اہلکاروں کی بڑی تعداد کو اس لیے آگے کے محاذ (فرنٹ لائن) کی جانب بھیجا جاتا ہے تاکہ یوکرینی فوجی اُن کا مقابلہ کرنے کے لیے آگے آئیں اور روسی فوج کو ان کی پناہ گاہوں کا پتہ معلوم ہو سکے۔ (سادہ الفاظ میں بطور چارہ روسی فوجیوں کا استعمال کیا جا رہا ہے۔)بی بی سی اور میڈیازونا کی جانب سے حاصل کی گئی روسی فوجی اہلکاروں کی اموات کے حوالے سے معلومات سے پتا چلتا ہے کہ جنگی پالیسی بدلنے کی وجہ سے روس کو بھاری جانی نقصان اُٹھانا پڑا ہے۔نیچے چسپاں کیے گئے گراف سے پتا چلتا ہے کہ دونیتسک میں فوجی آپریشن شروع ہونے کے بعد جنوری 2023 سے لے کر اب تک روسی فوج کو بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔،تصویر کا ذریعہbbc’انسٹٹیوٹ فار دی سٹڈی آف وار‘ کے مطابق روس نے وھیلیدار شہر میں لڑائی کے دوران ’غیر متاثر کُن انسانی لہر نما اندازِ جنگ‘ کا استعمال کیا۔انسٹٹیوٹ نے مزید کہا ہے کہ ’مشکل علاقہ، جنگی توانائی میں کمی اور یوکرینی فوج کو سرپرائز دینے میں ناکامی‘ کے سبب روسی فوج کو بڑا جانی نقصان ہوا ہے۔گراف میں یہ بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ 2023 کے موسمِ بہار میں باخموت شہر میں لڑائی کے دوران روسی فوج کو پہنچنے والے جانی نقصان میں اضافہ ہوا۔ یہ وہ وقت تھا جب ویگنر گروپ بھی روسی فوج کے ساتھ مل کر یوکرین کے خلاف جنگ میں حصہ لے رہا تھا۔ویگنر گروپ کے سربراہ یوگینی پریگوژن نے اس وقت کہا تھا کہ اس جنگ میں ان کے 22 ہزار جنگجو ہلاک ہوئے ہیں۔مشرقی یوکرین کے شہر ایودیوکا کے قبضے کے دوران بھی روسی فوج کو بھاری جانی نقصان اُٹھانا پڑا تھا۔
قبروں کی گنتی
،تصویر کا ذریعہbbcبی بی سی اور میڈیازونا کے ساتھ کام کرنے والے رضاکاروں نے روس اور یوکرین کے درمیان شروع ہونے والی جنگ کے بعد 70 قبرستانوں میں روسی فوجیوں کی قبروں کی تعداد گنی ہے۔ سیٹلائٹ کی مدد سے لی جانے والی تصاویر سے اندازہ ہوتا ہے کہ روس میں واقع قبرستانوں میں توسیع کی گئی ہے۔مثال کے طور پر روسی دارالحکومت ماسکو کے علاقے ریازان میں واقع قبرستان میں کو مزید وسعت دی گئی ہے۔تصاویر اور ویڈیوز کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ قبرستان میں بننے والی نئی قبریں یوکرین میں ہلاک ہونے ولے روسی فوجی افسران اور اہلکاروں کی ہیں۔بی بی سی کے ایک اندازے کے مطابق ہلاک ہونے والے ہر پانچ روسی فوجیوں میں سے دو اہلکار ایسے ہیں جن کا یوکرین کے خلاف جنگ کی ابتدا سے پہلے روسی فوج سے کوئی تعلق نہیں تھا۔رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹٹیوٹ سے منسلک دفاعی تجزیہ کار سیموئل کرینی ایونز کا کہنا ہے کہ 2022 میں یوکرین کے خلاف جنگ کی ابتدا کے وقت روس پیچیدہ عسکری آپریشنز کے لیے اپنے پروفیشنل فوجیوں کا سہارا لیتا تھا۔دفاعی تجزیہ کار کہتے ہیں ان تجربہ کار فوجی اہلکاروں یا افسران کی ایک بڑی تعداد یا تو ہلاک ہو چکی ہے یا پھر زخمی ہے۔سیموئل کہتے ہیں کہ اس وجہ سے روسی فوج میں غیرتجربہ کار افراد کو بھرتی کیا گیا، جن میں رضاکار، قیدی یا عام افراد بھی شامل ہیں۔وہ مزید بتاتے ہیں کہ یہ افراد وہ نہیں کر سکتے جو کوئی بھی پروفیشنل فوجی اہلکار کر سکتا ہے۔’اس کا مطلب یہ ہے کہ اب روسی فوج کو آسان جنگی پالیسی اپنانی پڑی ہے، جو کہ یہی ہے کہ فوجی اہلکاروں کو یوکرینی فوج کی طرف آگے دھیکیلا جائے۔
ویگنر گروپ بمقابلہ وزارتِ دفاع
’میٹ گرائنڈر‘ پالیسی کی کامیابی کا دارومدار روسی جیلوں سے جنگ کے لیے بھرتی کیے جانے والے قیدیوں پر ہے اور بی بی سی کی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ جنگ کے اگلے محاذوں میں ہلاک ہونے والے فوجی اہلکاروں میں سے بڑی تعداد ایسے ہی قیدیوں کی ہے۔جون 2022 میں روس نے ویگنر گروپ کے سربراہ یوگینی پریگوژن کو اجازت دی تھی کہ وہ یوکرین جنگ کے لیے جیل خانوں سے قیدی بھرتی کر لیں۔ اس کے بعد یہ قیدی روس کے ایما پر ایک نجی گروہ کا حصہ بن کر یوکرین میں لڑ رہے تھے۔ویگنز گروپ اپنے سخت ڈسپلن اور قواعد و ضوابط کی وجہ سے جانا جاتا تھا، جس میں کچھ افراد کو اس لیے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا کیونکہ انھوں نے اپنے افسران کی حکم عدولی کی اور پسپائی اختیار کی۔ویگنر گروپ نے فروری 2023 تک جیلوں سے قیدیوں کو بھرتی کرنے کا سلسلہ جاری رکھا لیکن اس کے بعد ان کے روسی حکومت سے تعلقات خراب ہو گئے۔ اس کے بعد سے روسی وزارتِ دفاع اس پالیسی کو جاری رکھے ہوئے ہے۔یوگینی پریگوژن نے گذشتہ برس جون میں روسی فوج کے خلاف بغاوت کی تھی اور ماسکو پر چڑھائی کرنے کی کوشش بھی کی تھی۔ اگست میں وہ ایک طیارے کے حادثے میں ہلاک ہو گئے تھے۔بی بی سی نے اپنے حالیہ تجزیہ میں ان 9 ہزار روسی قیدیوں پر توجہ مرکوز رکھی ہیں جو کہ آگے کے محاذ پر ہلاک ہوئے۔ان میں سے ایک ہزار سے زائد فوجی ایسے ہیں جن کے فوجی معاہدوں اور ہلاکت کی تاریخ سے متعلق معلومات ہمارے پاس موجود ہیں۔اس تحقیق کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ویگنر کی جانب سے بھرتی کیے گئے روسی قیدی تقریباً تین مہینوں تک جنگ کے محاذ پر زندہ رہے، جبکہ روسی وزارتِ دفاع کی جانب سے بھرتی کیے گئے فوجی اوسطاً صرف دو ماہ زندہ رہے۔وزارتِ دفاع کی جانب سے ان قیدیوں پر مشتمل علیحدہ یونٹس تشکیل دیے ہیں جنھیں ’سٹورم پلاٹونز‘ کا نام دیا گیا ہے۔گذشتہ برس ایک پیشہ ور روسی فوج نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا تھا کہ ’سٹورم فائٹرز‘ وہ صرف گوشت کا ایک لوتھڑا ہیں۔‘حالیہ دنوں میں ان ’سٹورم فائٹرز‘ نے ایودیوکا پر قبضے کی جنگ میں مرکزی کردار ادا کیا تھا۔
قیدیوں کی اگلے محاذوں تک براہ راست منتقلی
ویگنر گروپ کے تحت جیلوں سے بھرتی کیے جانے والے قیدیوں کو جنگی محاذ پر بھیجنے سے پہلے فوجی تربیت دی جاتی تھی۔اس کے برعکس ہمیں معلوم ہوا ہے کہ روس کی وزارتِ دفاع نے کچھ قیدیوں کو صرف معاہدہ ہونے کے دو ہفتوں بعد جنگی محاذ پر بھیج دیا تھا۔بی بی سی نے ان مرنے والے قیدیوں کے خاندانوں سے بات کی ہے اور ان فوجیوں سے بھی، جو ابھی زندہ ہیں۔ ان کے مطابق روس کی جانب سے قیدیوں کو دی جانے والی تربیت ناکافی ہے۔ایک بیوہ کا کہنا ہے کہ ان کے شوہر نے گذشتہ برس 8 اپریل کو وزارتِ دفاع کے ساتھ معاہدے پر دستخط کیے تھے اور وہ اگلے محاذوں پر تین مہینوں تک لڑتے رہے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے یقین ہے کہ ان کے درمیان کچھ ہفتوں کی تربیت کے حوالے سے بات ہوئی ہو گی اور وہاں اپریل تک کوئی ڈرنے کی بات نہیں تھی۔‘انھوں نے مزید کہا کہ انھوں نے اپنے شوہر کے فون کا انتظار کیا لیکن انھیں 21 اپریل کو معلوم ہوا کہ وہ مر چکے ہیں۔‘ایک اور خاتون کا کہنا ہے کہ انھیں اپنے شوہر کے جنگ میں حصہ لینے کے حوالے سے اس وقت پتا چلا جب انھوں نے جیل میں ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی، تاکہ انھیں (شوہر) بتا سکیں کہ اُن کا بیٹا بھی اس جنگ میں لڑتے ہوئے ہلاک ہو گیا ہے۔الفیا نامی خاتون کا کہنا تھا کہ ان کے 25 سالہ بیٹے ودیم نے جنگ سے قبل کبھی اسلحہ استعمال نہیں کیا تھا۔ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے شوہر الیگزینڈر کو اپنے بیٹے کی موت کی خبر بھی نہ دے سکیں۔الیگزینڈر یوکرین میں پیدا ہوئے تھے اور ان کا خاندان بھی وہیں تھا اور الفیا کے مطابق الیگزینڈر کو پتہ تھا کہ روس کا یوکرین میں فسطائیت سے لڑنے کا دعویٰ جھوٹ ہے۔بیٹے کی موت کے سات مہینے کے بعد الفیا کو بتایا گیا کہ ان کے شوہر بھی ہلاک ہوگئے ہیں۔
’موت کے لیے تیار ہو جاؤ‘
ویگنر گروپ کے دور میں ان قیدیوں کو چھ مہینوں کے لیے بھرتی کیا جاتا تھا اور انھیں بتایا جاتا تھا کہ اگر وہ جنگ میں زندہ بچ گئے تو انھیں مستقل طور پر رہا کر دیا جائے گا۔لیکن گذشتہ برس ستمبر میں وزارتِ دفاع نے ان قیدیوں کو بتایا کہ انھیں اُن کی موت یا جنگ کے اختتام تک روس کے لیے لڑنا پڑے گا۔ٹیلی گرام چینل پر جنگ کے حامی بلاگر ولادیمیر گروبنک کا کہنا تھا کہ ’بہت ساری فوجیوں کے پاس موجود ہتھیار بھی جنگ کے لیے ناکافی تھے۔‘’کوئی بھی فوجی بغیر فرسٹ ایڈ کِٹ، زمین کھودنے والے بیلچے اور بندوق کے بغیر کیا کرے گا یہ بھی ایک معمہ ہے۔‘گروبنک کے مطابق جب روسی فوجی کمانڈروں کو پتا چلا کہ کچھ بندوقیں مکمل طور پر ٹوٹی ہوئی ہیں تو انھوں نے کہا کہ انھیں بدلنا ناممکن ہے۔’بندوقیں پہلے ہی فوجیوں کو دے دی گئی تھیں اور فوجی بیوروکریسی اس حوالے سے کچھ نہیں کر سکتی۔‘سابق قیدیوں کا بھی کہنا ہے کہ ان کے دوستوں کو جنگ میں بھاری قیمت ادا کرنی پڑی ہے۔سرگئی نامی شخص نے ’سٹورم فائٹرز، کے لیے بنائے گئے ایک آن لائن گروپ میں لکھا کہ ’اگر آپ ابھی روسی فوج میں شمولیت اختیار کرتے ہیں تو مرنے کے لیے تیار ہو جائیں۔‘انھوں نے دعویٰ کیا کہ وہ ایک سابق قیدی ہیں اور اکتوبر سے ایک ’سٹورم فائٹرز‘ یونٹ کا حصہ ہے۔اس آن لائن گروپ میں موجود ایک اور شخص نے لکھا کہ انھوں نے ’سٹورم فائٹرز، کا 100 لوگوں پر مشتمل یونٹ پانچ مہینے پہلے جوائن کیا تھا اور اس وقت ان میں سے صرف 38 لوگ زندہ ہیں۔‘’ہر لڑائی ایسی ہوتی ہے جیسے آپ کا دوبارہ جنم ہوا ہے۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.