یوکرین جنگ میں لڑائی کے وہ محاذ جو روسی فوج کی نظروں سے کبھی اوجھل نہیں ہوتے
ماریا واسیلیونا کہتی ہیں کہ ان کا شوہر اتنا بیمار تھا کہ وہ کسی پناہ گاہ میں نہیں جا سکتا تھا اور روسی بم حملے کے بعد وہ خون بہہ جانے سے ہلاک ہو گیا۔
- مصنف, کوانٹین سومر وائیل
- عہدہ, بی بی سی نیوز
درختوں کی پھیلی ہوئی ایک قطار جب یہ چھوٹے سے قصبے ویلیکا نووسِلکا کے مضافات میں روسی پوزیشنوں کی طرف بڑھتی جاتی ہے تو ایک شکستہ لکیر کی طرح کہیں بکھری ہوئی اور کہیں غائب ہوتی دکھائی دیتی ہے۔
دیما، فرسٹ ٹینک بریگیڈ کے ساتھ یوکرینی پیدل فوج میں ایک سپاہی، ایک راستے پر احتیاط سے چل رہا ہے، اس نے موسم بہار میں فوجی جوتے چڑھائے ہوئے ہیں۔ زیرو لائین – آخری خندق اس سے آگے ہے۔ وہاں سے روسی فوج صرف 700 میٹر دور ہے۔
باخموت کے مزید شمال میں، یوکرینی اپنی سرزمین سے پسپا ہو رہے ہیں لیکن یہاں ڈونیسک صوبے کے جنوب میں یوکرین کے ٹینک اور پیدل فوج کے دستے ڈٹ کر کھڑے ہیں۔
مہینوں سے جاری روسی جارحانہ حملوں کے باوجود دیما کا کہنا ہے کہ بریگیڈ نے دس میٹر سے بھی کم علاقہ کھویا ہے۔ اُس کا کہنا ہے کہ اس لڑائی میں روسی افواج نے بھاری نقصان اٹھایا ہے۔
یہ ایک تباہ شدہ خطے کا منظر ہے، جو خندقیں روسی آبزرویٹری پوسٹوں اور مانیٹرنگ کرنے والے ڈرونز کے بالکل سامنے ہیں۔ اس فرنٹ لائن پر روسیوں کی گہری نظریں حملہ آور کی منتظر رہتی ہیں۔
جیسے ہی ہم پیدل فوج کے سپاہی خندقوں سے گزرتے ہیں، قرمزی رنگ کی جھاڑیاں غائب ہونا شروع ہو جاتی ہیں، اور ان کی جگہ بموں کے گرنے کی وجہ سے زمین پر گڑھے نظر آتے ہیں۔ بارودی سرنگیں اور نہ پھٹنے والے گولے زمین پر بکھرے ہوئے نظر آتے ہیں۔ درخت کی چوٹیاں، جو ابھی بھی سردیوں کی وجہ سے ننگی نظر آتی ہیں، بے ترتیب سی لگتی ہیں۔ دیما کہتا ہے کہ ’یہاں حال ہی میں ٹینکوں کی لڑائی ہوئی تھی۔ ہم نے انہیں پسپا ہونے پر مجبور کیا تھا۔‘
خندق میں ایک سپاہی نرم، سرخ مٹی کو کدال سے ہٹاتا ہے، مشکل سے آواز نکالتا ہے۔ ایک قریبی گاؤں سے خودکار گولیوں کے چلنے کی آواز نے فضا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
کوانٹین سومر وائیل اور کیمرا مین ڈیرن کونوے روسی حملے کے دوران محاذ کے اگلے حصے پر۔
دیما بتاتا ہے کہ ’گاؤں میں اکثر لڑائیاں ہوتی تھیں۔ کبھی کبھی پورے گاؤں میں آگ لگ جاتی تھی۔ انہوں نے فاسفورس پھینکا، یا مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ انہوں نے کیا پھینکا۔‘ اس کا قد 6 فٹ 4 انچ سے زیادہ ہے، اِس کی ہلکی نیلی آنکھیں ان کے نیچے سیاہ حلقوں میں روشن ہوتی ہیں۔ اس کی اے کے-47 رائفل اس کے کندھے پر لٹکی ہوئی ہے۔ اس کے جسم پر ایک چمچ، ایک کین اوپنر، اور ایک چھوٹا سا پلاس لٹکا ہوا ہے۔
یہاں خندقوں سے باہر خطرہ ہے۔ اگر کوئی مارٹر یا گرینیڈ قریب آکر گرے یا سگریٹ پیتے ہوئے ایک لمحے کی لاپرواہی، موت کی آغوش میں لے جا سکتی ہے ۔ دیما روسی پوزیشنوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ’عام طور پر وہ ہر روز گولہ باری کرتے ہیں۔‘ ان افراد نے حال ہی میں جانی نقصان اٹھایا ہے، لیکن یہ باخموت میں آمنے سامنے ہونے والی لڑائی یوکرین کے نقصانات کا ایک تھوڑا سا حصہ ہیں۔
اچانک ایک گولہ ہمارے گروپ کے بائیں طرف آتا ہوا ہمارے سروں کے اوپر سے گرتا ہے۔ ہم میں سے چھ لوگ بچاؤ کے لیے بھاگتے ہیں اور زمین سے ٹکراتے ہیں۔ میں دیما کی نظروں سے محروم ہو گیا، لیکن کوئی چیختا ہے کہ روسی ٹینک فائر کر رہا ہے۔ دوسرا دھماکہ ہوا، جس نے مجھے مٹی میں ڈھانپ دیا۔ یہ بم اس بار قریب گرا تھا، شاید 10 فٹ دور۔ میں محفوظ پناہ گاہ کی طرف جاتا ہوں اور دیما کو خندق میں اونچا کھڑا دیکھتا ہوں۔ اندر لکڑیوں سے ڈھکی ہوئی پناہ گاہ ہے، جس کے اندر ہم میں سے چار افراد گھس جاتے ہیں۔ جیسے ہی دیما سگریٹ جلا تا ہے، قریب ہی ایک اور دھماکہ ہوتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ان (روسی فوج) کے پاس صرف لامحدود گولے ہوتے ہیں۔ ان کے پاس اسلحے سے بھرے ہوئے گودام ہیں۔ وہ سارا دن گولہ باری کر سکتے ہیں، اور ان کے گولے ختم نہیں ہوں گے۔ لیکن کیا ہمارے پاس اس سال گولے ختم ہو جائیں گے۔ اس لیے ہم مختلف حملہ آور بریگیڈز تشکیل دے رہے ہیں اور ہمیں ٹینک دیے گئے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ انہی کے ساتھ ہم جنگ جیتیں گے۔ ہم ’کوساکس‘ (Cossacks) ہیں۔ لہذا بہادر لوگو، ہم اسے سنبھال سکتے ہیں۔‘
جب ان کی پوزیشنوں پر حملہ ہوتا ہے تو وہ بتاتے ہیں کہ وہ خندق کے سے نکالی ہوئی مٹی میں چھپ جاتے ہیں، جبکہ ایک سپاہی دشمن کی پیدل فوج اور ڈرونز کی تلاش میں لگا رہتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس نے ان حالات سے نمٹنا سیکھ لیا ہے۔ ’پہلے خوف تھا۔ جب میں پہلی بار آیا تھا۔ اب یہ سب کچھ اور یہ خوف کسی نہ کسی طرح ختم ہو گیا ہے۔ یہ دل چٹان کی طرح ٹھوس ہو گیا ہے۔ ٹھیک ہے، کچھ خوف زدہ ہیں خوف تو ہر ایک کو ہوتا ہے‘۔
ایک اور گولہ اس کے پیروں کے اتنے قریب گرتا ہے جس کی وجہ اُس کے قدم اُکھڑ جاتے ہیں۔ وہ اپنا سر ہلاتے ہوئے اور اپنے اوپر سے مٹی ہٹاتے ہوئے کہتا ہے کہ ’یہ ایک اچھا دھماکہ تھا۔‘
دیما کی عمر 22 سال ہے اور وہ جنگ سے پہلے پیٹرو کیمیکل فیکٹری میں کام کرتا تھا۔
دیما کی عمر صرف 22 سال ہے اور وہ مرکزی صنعتی شہر کریمینچک سے ہے۔ اس نے جنگ سے پہلے ایک پیٹرو کیمیکل فیکٹری میں کام کیا تھا اور یہاں لڑنے والے بہت سے فوجیوں کی طرح اس کی جوانی کی زندگی بمشکل شروع ہوئی ہی تھی کہ ایک مصیبت میں پھنس گیا۔ جب میں پوچھتا ہوں کہ وہ اپنے گھر والوں کو کیا بتاتا ہے تو وہ جواب دیتا ہے کہ ’میرا ابھی تک کوئی خاندان نہیں ہے۔ میرے پاس میری ماں ہے – میرے پاس ابھی کوئی اور نہیں ہے۔‘ وہ دن میں دو بار صبح اور شام گھر فون کرتا ہے۔ ’وہ زیادہ نہیں جانتا – میں اسے سب کچھ نہیں بتاتا ہوں۔‘ یہ کہتے ہوئے اس کی آواز اُس کا ساتھ نہیں دے پاتی ہے۔
فوجیوں میں اس بات پر اختلاف پایا جاتا ہے کہ روسی کس قسم کی گولہ باری کر رہے ہیں۔ یہ ٹینک فائر، مارٹر یا گرینیڈ ہو سکتا ہے جو یوکرائنی مورچوں کو نشانہ بنا رہے ہیں – یا تینوں کو استعمال کر رہے ہیں۔ ایک داڑھی والا سپاہی، جو دن بدن بدمزاج ہوتا جا رہا ہے، خندق میں داخل ہوتا ہے اور اپنی انگلی سے تیزی سے اشارہ کرتا ہے۔ ایک روسی ڈرون سر پر ہے۔ یہاں تک کہ غیر یقینی صورتحال ہے، یہ مسلح ہو سکتا ہے، یا یہ جاسوس ڈرون ہو سکتا ہے۔ اس کے چلے جانے یا اندھیرا ہونے تک انتظار کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے ہیں۔
میں غروب آفتاب کے بعد ان جوانوں سے رخصت لیتا ہوں۔ بریگیڈ کے ٹینک اب روسیوں پر جوابی فائرنگ کر رہے ہیں، اور جیسے ہی میں واپس آتا ہوں فوجیوں کی ایک نئی شفٹ خندقوں کے ساتھ پوزیشنیں سنبھال لیتی ہے۔ میں راستے میں جہاں زمین پر نصب فوجی شکن بارودی سرنگوں کا سلسلہ پھیلا ہوا ہے میں ڈرتے ہوئے پھونک پھونک کر قدم رکھتا ہوں۔
یہاں پر ٹینکوں اور توپ خانے کا غلبہ ہے، بریگیڈ کے یوکرینی ساختہ ٹی 64 (T64) بُلات ٹینک دن رات جنگ میں استعمال ہو رہے ہیں۔ ٹینک کمانڈر سرہی کا کہنا ہے کہ ’ٹینک پیدل فوج کے بڑے بھائی کی طرح ہوتے ہیں۔ جب پیدل فوج کو نقصان پہنچتا ہے تو سمجھ لیں کہ اب ٹینک تعینات ہو رہے ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہم ہمیشہ نہیں آ سکتے۔‘
یوکرینیوں نے خندقوں کا جال کھود رکھا ہے۔
پہلی ٹینک بریگیڈ فوج میں سب سے زیادہ بہادر دستہ ہے۔ اس کے کمانڈر کرنل لیونیڈ خوڈا برطانوی ٹینک، چیلنجر دوم سمیت مغربی ٹینکوں کی آمد کا انتظار کر رہے ہیں اور وہ پہلے ہی جرمن لیپرڈ ٹینکوں کی تربیت کے لیے آدمی بھیج چکے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ دشمن کا ’مکمل طور پر مختلف مقصد ہے۔ ہم اپنی ریاست، اپنی زمین، اپنے رشتہ داروں کی حفاظت کرتے ہیں، ہمارے پاس جنگ کا ایک الگ محرک ہے، ان کے پاس فرار کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ جبکہ ان کی قیادت، یعنی ان کی پارٹی کا کہنا ہے کہ کسی صورت پیچھے ہٹنا نہیں۔ کیونکہ پیچھے ہٹنے کا مطلب ہے جیل، یعنی پھانسی، اس لیے وہ آگے بڑھ رہے ہیں۔ وہ لوگ ذبح کرنے کے لیے ایک بھیڑ کا بچہ ہیں۔‘
فروری میں روسیوں نے 30 کلومیٹر دور فرنٹ لائن سے گزرنے کی کوشش کی، یہ ایک جرات مندانہ اقدام ہے جس سے باقی غیر مقبوضہ ڈونیسک کو خطرہ لاحق ہو جاتا۔ اُن کی پیش قدمی اُن کی تباہی کی صورت میں ختم ہوئی، سینکڑوں روسی ہلاک، درجنوں ٹینک ضائع ہو گئے، اور ایک بکتر بند بریگیڈ تباہ ہو گئی۔
13 کلومیٹر دور ووہلیدار نامی قصبے کے ارد گرد فروری کے حملوں میں سے ایک کو یاد کرتے ہوئے کرنل لیونیڈ خوڈا نے اسے ’مایوسی کن کارروائی‘ کے طور پر بیان کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ حقیقت میں دشمن کی بریگیڈ کا صفایا کر دیا گیا۔ ’لیکن حال ہی میں انہوں نے حکمت عملی تبدیل کرنا شروع کر دی ہے۔‘
ٹینک کمانڈر سرہی
ڈونباس کا زیادہ تر حصہ صنعتی دور کی تعمیراتی بجری کی باقیات کی وجہ سے ٹھوس ہے۔ ماضی کی متروک بڑی بڑی فیکٹریاں اور اس دور کے دھاتوں کے کچروں کے ڈھیر اس منظر کا بنیادی حصہ ہیں۔ کرنل خوڈا کے لوگ جس سرزمین کی حفاظت کر رہے ہیں وہ خاص طور پر ویلیکا نووسِلکا کا تجارتی شہر ہے۔
جنگ سے پہلے اس قصبے میں ایک جدید اسکول، ایک صاف ستھرا فائر اسٹیشن اور تین منزلہ کنڈرگارٹن تھا۔ اب سب اداس اور بے آباد ہیں۔
فوج کا ڈرائیور جو ہمیں قصبے میں واپس لا رہا ہے سڑک پر گرے ہوئے راکٹوں سے بچنے کے لیے مڑتا ہے۔ ایک اور روسی گولہ قریبی پڑوس میں گرتا ہے جس سے آسمان میں مٹی کی ایک لمبی سے قوس بن جاتی ہے۔ ہم قصبے کے چھوٹے گھر اور کاٹیج کھڑکی سے گزرتے ہیں، اور یہاں تک کہ وہ جس طرح کے ٹوٹے ہوئے نظر آتے ہیں وہ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ جنگ سے پہلے یہ علاقہ ایک خوشحال شہر تھا۔
کار میں موجود ایک فوجی کا کہنا ہے کہ ’یہاں تقریباً 10,000 لوگ رہتے تھے – اب یہاں 200 سے بھی کم افراد ہیں۔ ’اب یہاں صرف چوہے، بلیاں اور کتے رہ رہے ہیں اور وہ بھی گولہ باری سے بچنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔‘
پناہ گاہوں میں سے ایک میں میری ملاقات ایرینا بابکینا سے ہوتی ہے، جو پیانو کی مقامی ٹیچر ہے جو اپنے قصبے کے باقی ماندہ لوگوں کو جوڑ کے رکھنے کی کوشش کر رہی ہے۔ بھڑکتے سرخ بالوں کے ساتھ وہ خاموشی سے قصبے میں رہنے کے لیے پرعزم ہے۔ چند درجن باشندے سرد، اور نم آلود پناہ گاہ میں رہتے ہیں، اور اریانا بوڑھے لوگوں کی دیکھ بھال میں مدد کرتی ہے۔
وہ بیان کرتی ہے کہ شہر کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے اس نے گہرا ’غم‘ دیا ہے۔ وہ کہتی ہے کہ ’یہ بہت خوبصورت جگہ ہوا کرتی تھی۔ یہ (اب) ایک اداس سی جگہ رہ گئی ہے – پہلے کی اداسی جو اب اس کا دکھ ہے۔‘
روسی بم اکثر اس شہر کے غم کے پہاڑ میں اضافہ کرتے ہیں۔ ایک مدھم روشنی والے تہہ خانے کی پناہ گاہ میں جو لکڑی کے جلتے ہوئے چولہے سے گرم ہے، مجھے ایک آواز سنائی دیتی ہے۔ ایک بستر پر 75 سال کی اکیلی بیٹھی ماریہ واسیلونا۔
اس سے پہلے کہ ارینا ہمارا تعارف کراتی، وہ سرگوشی سے کہتی ہے کہ ’اس کے لیے بولنا مشکل ہے، حال ہی میں اس کے شوہر خون بہہ جانے کی وجہ سے مرگیا تھا۔‘
ماریہ میرا ہاتھ پکڑتی ہے۔ وہ اپنے درمیان گرم کرتے ہوئے کہتی ہے ’اوہ، تم ٹھنڈے ہو‘۔
اس کے شوہر، 74 سالہ سرگی، بیماری کی وجہ سے پناہ گاہ میں آنے کے قابل نہیں تھا، اور پڑوس کے لوگ روسی بم گرنے کے باوجود اپنے گھروں میں ہی ٹھہرے رہے۔
دھیمی آواز میں وہ مجھ سے کہتی ہے، کہ ’وہ ایک ہی رات میں خون بہنے سے مر گیا۔ میں یہاں تھی اور وہ گھر پر تھا۔ میں صبح آئی، وہ جا چکا تھا۔ ہم نے اسے دفن کر دیا اور بس۔‘ ان کی شادی کو 54 سال ہو چکے تھے۔
پیانو ٹیچر ایرینا بابکینا بمشکل 200 لوگوں میں سے ایک ہیں جو ابھی بھی ویلیکا نووسیلکا میں ہیں – ایک ایسا قصبہ جہاں 10,000 لوگ رہتے تھے۔
میرے جانے سے پہلے ایرینا مجھے قصبے کے اسکول میں لے جاتی ہے۔ اس کی راہداری پینٹ کی بو اور ملبے سے اٹی ہوئی ہے، اور کھڑکیاں روسی بموں سے تباہ ہوچکی ہیں۔ بچوں کی جیکٹیں اب بھی کوٹ کے کھونٹوں پر لٹکی ہوئی ہیں اور گھر کی بنی کرسمس کی سجاوٹ شیلف پر بکھری پڑی ہے۔
ہلکے نیلے ریڈی ایٹر کے اوپر ایک دیوار پر ایک گروپ تصویر میں بچوں کی فٹ بال ٹیم کو جیت کا جشن مناتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ کھڑکی کے باہر زمین پر وہی گڑھا پڑا ہے، اور قریبی فریم گولہ باری سے بکھر چکے ہیں۔ بغیر پھٹنے والے روسی راکٹ کی دم کا حصہ کھیل کے میدان کے سیمنٹ کے فرش میں دھنسا نظر آتا ہے۔
راہداری میں ایک پیانو رکھا ہوا ہے اور ارینا اسے بجانے کی کوشش کر رہی ہے۔ لیکن وہ کوئی دھن بجا نہیں پاتی ہے، پیانو بہت خراب ہے۔ اس کے پاس کھیلنے کے لیے کوئی موسیقی نہیں ہے اور نہ ہی بچوں کو سکھانے کے لیے کوئی اور شہ۔ ان میں سے آخری بچے کو پولیس نے گزشتہ ماہ شہر سے زبردستی باہر نکالا تھا اور کسی محفوظ جگہ پر پہنچا دیا تھا۔ محفوظ مقام پر منتقل کیے جانے والوں میں اس کی اپنی بیٹی بھی شامل تھی۔
وہ کہتی ہے کہ ’یہاں صرف گولوں کی آوازیں آتی ہیں۔ سکول ختم ہو گیا ہے، آلات تباہ ہو گئے ہیں، لیکن یہ ٹھیک ہے، ہم اسے دوبارہ بنائیں گے، اور بچوں کی ہنسی کے ساتھ موسیقی دوبارہ سنی جائے گی۔‘
یہ وہ رشتے ہیں جو یہاں کے لوگوں کو ایک دوسرے سے باندھتے ہیں، چاہے وہ سویلین ہو یا فوجی۔ مزاحمت کا عزم یوکرین کے ہتھیاروں میں پائیدار ہتھیار ہے، جو کسی بھی بکتر بند ٹینک یا پیدل فوج کی خندق کی طرح ملک کی بقا کے لیے ضروری ہے۔
Comments are closed.