یوکرین جنگ میں روسی فوجی گولا بارود کی کمی کے باعث بیلچوں سے لڑ رہے ہیں: برطانوی وزارت دفاع

  • مصنف, جیروسلاو لوکیو اور سیم ہینکاک
  • عہدہ, بی بی سی نیوز

بیلچہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

ایم پی ایل-50 یعنی بیلچہ نما ہتھیار کو روس میں دیومالائی حیثیت حاصل ہے

برطانیہ کی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ روسی فوجی گولہ بارود کی کمی کی وجہ سے ممکنہ طور پر یوکرین کی ’دست بدست‘ لڑائی میں ’بیلچے‘ کا استعمال کر رہے ہیں۔

وزارت دفاع نے اپنی تازہ ترین انٹیلیجنس اپ ڈیٹ میں کہا ہے کہ فروری کے آخر میں رکن محفوظہ کے فوجیوں نے کہا ہے کہ انھیں یوکرین کی ایک پوزیشن پر صرف ’چھوٹے آتشیں اسلحے اور بیلچوں‘ سے لیس ہو کر حملہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

اس رپورٹ میں ’ایم پی ایل -50‘ کے نام سے معروف بیلچے کا ذکر کیا گیا ہے۔

وزارت دفاع نے بتایا کہ یہ آلہ (بیلچہ) سنہ 1869 میں ڈیزائن کیا گیا تھا اور اس کے بعد سے اس کے ڈیزائن میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے۔

وزارت نے کہا کہ ’ایک معیاری سطح کے کھودنے والے ایم پی ایل -50 آلے کی ہلاک کرنے کی خصوصیت کو روس میں دیومالائی حیثیت کے حامل کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔‘

اس میں کہا گیا ہے کہ ایک ہتھیار کے طور پر ‘بیلچے کا مستقل استعمال جنگ میں اس آلے کی وحشیانہ اور کم ٹیکنالوجی والی لڑائی کو اجاگر کرتا ہے۔‘

وزارت دفاع کے اپ ڈیٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایک ریزروسٹ (فوجی) نے کہا کہ وہ لڑائی کے لیے ’نہ تو جسمانی طور پر اور نہ ہی نفسیاتی طور پر‘ تیار تھے۔

اس میں کہا گیا ہے کہ ’حالیہ شواہد یہ بتاتے ہیں کہ یوکرین میں دو بدو جھڑپوں کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔‘

اس میں مزید کہا گیا ہے کہ ’یہ شاید روسی کمانڈ کی جانب سے انفینٹری (پیدل فوجیوں) پر مستقل جارحانہ کارروائی کے لیے اصرار کا نتیجہ ہے جسے توپخانے کی جانب سے بہت کم حمایت حاصل ہے کیونکہ روس میں اسلحے کی کمی ہے۔‘

بخموت

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

روسی پیدل فوجیوں کو توپ خانے کی بہت کم مدد حاصل ہے

بی بی سی ان رپورٹس کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کر سکا ہے۔ وزارت نے اس بارے میں معلومات نہیں دی ہیں کہ اس طرح کی دست بدست لڑائیاں کہاں ہو رہی ہیں۔

دی انسٹیٹیوٹ فار دی سٹڈی آف وار (آئي ایس ڈبلیو) نے کہا ہے کہ اس دوران روسی افواج نے محصور شہر بخموت میں کئی محاذوں پر کافی سبقت حاصل کر لی ہے۔

بخموت میں کئی مہینوں سے لڑائی جاری ہے کیونکہ روس اس چھوٹے شہر کا کنٹرول سنبھالنے کی کوشش مین ہے۔ یہاں تقریبا 4،000 شہری باقی بچے ہیں، باقی شہری انخلا کر کے دیگر علاقوں کی جانب چلے گئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

اس شہر پر قبضہ حاصل کرنا روس کے لیے حالیہ مہینوں کے دوران میدان جنگ میں غیر معمولی کامیابی ہو گی۔ لیکن شہر کی سٹریٹجک افادیت پر سوال اٹھایا گیا ہے۔

آئی ایس ڈبلیو کا کہنا ہے کہ روس کو پوزیشن کے لحاظ سے ملنے والا فائدہ اس کے لیے شہر میں ٹرننگ موومنٹ یا نیا موڑ ثابت ہو سکتا ہے۔

آئی ایس ڈبلیو کا کہنا ہے کہ اس نئے موڑ سے انھیں دشمن کو تیار دفاعی پوزیشنز کو ترک کرنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے اور یہ حصار میں لینے کے عمل سے مختلف ہوتا ہے جس میں دشمن کی قوتوں کو گھیر کر تباہ کیا جاتا ہے۔

آئی ایس ڈبلیو نے کہا کہ ‘روسیوں نے بخموت میں یوکرین کی افواج کو گھیرنے کا ارادہ کیا ہو گا، لیکن یوکرین کی کمانڈ نے اس بات کا اشارہ دیا کہ وہ گھیر لیے جانے کے امکان کا خطرہ مول لینے کے بجائے پیچھے ہٹنے کو ترجیح دے گا۔’

بہرحال یوکرین کی فوج نے اتوار کے روز کہا کہ بخموت سے اس کا دستبرداری کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

مسلح افواج کے جنرل سٹاف کے ایک بیان میں یہ اعتراف کیا گیا ہے کہ روسی افواج ابھی بھی شہر کا محاصرہ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں لیکن انھوں نے کہا کہ پچھلے 24 گھنٹوں میں مشرقی ڈونباس خطے میں 100 سے زیادہ حملے کو پسپا کردیا گیا ہے۔

بخموت کو حاصل کرنے کی کوشش میں ہزاروں روسی فوجی ہلاک ہوگئے ہیں۔ جنگ سے پہلے یہان کی آبادی تقریبا 75،000 تھی۔

BBCUrdu.com بشکریہ