بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

یوکرین جنگ اور پام آئل کا بحران انڈیا کی مشکلات میں کیسے اضافہ کر سکتا ہے؟

یوکرین جنگ اور پام آئل کا بحران انڈیا کو کیسے متاثر کر سکتا ہے؟

  • سوتک بسواس
  • بی بی سی نیوز

انڈیا کی جانب سے سب سے زیادہ کوکنگ آئل درآمد کیا جاتا ہے

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

انڈیا کی جانب سے سب سے زیادہ کوکنگ آئل درآمد کیا جاتا ہے

دنیا میں پام آئل کے سب سے بڑے برآمد کنندہ ملک انڈونیشیا کی جانب سے گذشتہ ہفتے پام آئل کی برآمد پر پابندی عائد کر دی گئی جس سے انڈیا کو بھی مشکلات درپیش ہیں۔ انڈونیشیا نے کہا ہے کہ یوکرین میں جنگ اور عالمی وبا کی وجہ سے اس کے اپنے ملک میں قیمتیں بڑھی ہیں جن میں استحکام لانے کی ضرورت ہے۔

انڈیا میں کوکنگ آئل خوراک کا بنیادی حصہ ہے۔ دنیا میں دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ کوکنگ آئل اور پہلے نمبر پر سب سے زیادہ ویجیٹیبل آئل انڈیا درآمد کرتا ہے۔ اس کی ضرورت کا قریباً 56 فیصد کوکنگ آئل سات سے زیادہ ملکوں سے درآمد کیا جاتا ہے۔

انڈیا میں اکثر پام، سویا بین یا سن فلاور آئل میں کھانا بنتا ہے۔ پام آئل کی 90 فیصد ضرورت انڈونیشیا اور ملائیشیا سے پوری کی جاتی ہے۔ اس کا قریب نصف حصہ صرف انڈونیشیا سے آتا ہے۔

اگر یہ کافی نہیں تو انڈیا میں نصف سن فلاور آئل روس اور یوکرین سے آتا ہے جو کہ اس کی عالمی برآمدات کا 80 فیصد حصہ ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق آئندہ مالی سال کے حوالے سے یوکرین میں جنگ کی وجہ سے سن فلاور آئل میں ممکنہ طور پر 25 فیصد کٹوتی ہوئی ہے۔ پام آئل کا دوسرا سب سے بڑا برآمد کنندہ ملائیشیا بھی مشکلات سے دوچار ہے۔

رواں سال انڈیا کوکنگ آئل کی درآمد میں قریب 20 ارب ڈالر خرچ کرے گا۔ یہ گذشتہ سال کے مقابلے دگنی رقم ہے۔

انڈیا میں ویجیٹیبل آئل کی تجارت کی تنظیم ’سالونٹ ایکسٹراکٹرز ایسوسی ایشن‘ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر بی وی مہتا کہتے ہیں کہ ’کوئی بھی ملک برآمدات پر اتنا منحصر نہیں۔ ہمیں بہت نقصان ہو رہا ہے۔ یہ بڑا بحران ہے۔ ہمیں اس جنگ سے سیکھنا ہو گا تاکہ برآمدات پر انحصار کم کیا جا سکے۔‘

انڈیا نے کوکنگ آئل کی درآمد پر ٹیکس میں کمی کی ہے تاکہ اس کی قیمتیوں کو کم رکھا جا سکے۔ لیکن سنہ 2020 سے بڑھتی قیمتوں اور اب یوکرین میں جنگ کے بعد دیگر مشکلات کی وجہ سے حالات سنگین ہو گئے ہیں۔ پام آئل کی عالمی قیمتوں میں گذشتہ دو برسوں کے دوران 300 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ یہ وہ سستا تیل ہے جو انڈین گھروں، ہوٹلوں، ریستورانوں اور بیکریوں میں ترجیحی بنیادوں پر استعمال کیا جاتا ہے۔

ملک بھر میں کوکنگ آئل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے

،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشن

ملک بھر میں کوکنگ آئل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے

مواد پر جائیں

پوڈکاسٹ
ڈرامہ کوئین
ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

یہ حیران کُن نہیں کہ ایک ماہ سے کم عرصے میں کوکنگ آئل کی قیمتیں 20 فیصد سے زیادہ بڑھی ہیں۔ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ لوگ اس کی ذخیرہ اندوزی کر رہے ہیں۔ گلیوں میں بکنے والے مشہور اور سستے کھانوں میں اکثر چیزوں کو تیل میں فرائی کیا جاتا ہے۔ چاول، گندم، نمک اور کوکنگ آئل انڈیا میں غریب ترین طبقے کے لیے اہم اجزا ہیں۔

انڈیا میں محکمہ خوراک کے سینیئر اہلکار سودھانسو پانڈے کہتے ہیں کہ ’کوکنگ آئل کی قیمتوں میں اضافہ واقعی بہت سی مشکلات کا سبب بن رہا ہے۔‘

اس سے باآسانی خوراک کی افراط زر یا فوڈ انفلیشن میں اضافہ ہوتا ہے جو کہ مارچ میں 7.68 فیصد رہی (16 ماہ میں سب سے زیادہ)۔ اقوام متحدہ کے خوراک اور زراعت کے ذیلی ادارے یو این ایف اے او کے ماہر ڈی یانگ کا کہنا ہے کہ اگر قیمتیں اسی طرح بڑھتی رہیں تو انڈیا کو راشن پروگرام کی طرف جانا ہو گا کیونکہ ’قلیل مدت میں درآمدات کی کمی کا کوئی متبادل نہیں۔‘

خوراک کی کمی کو جزوی طور پر قابو کرنے کے لیے انڈیا نے رواں سال اپنی امیدیں سرسوں اور سویا بین کی اچھی فصل نے لگائی ہیں۔ پانڈے بتاتے ہیں کہ ’مقامی پیداوار میں اضافے کی بدولت انڈیا میں عالمی افراط زر کے اثرات پوری طرح محسوس نہیں کیے گئے کیونکہ عالمی قیمتیوں کے مقابلے انڈیا میں کوکنگ آئل کی قیمت قریب نصف ہے۔‘

’لیکن آخر میں ہمیں خود کفیل ہونا پڑے گا اور یہ تب ہو گا جب کسان تیل کے بیج کی طرف منتقل ہوں اور انھیں اچھی قیمتیں ملیں۔‘

سال 2021 میں انڈین وزیر اعظم نریندر مودی نے ’نیشنل آئل مشن‘ کے نام سے ایک سکیم شروع کی تھی تاکہ پام آئل کی پیداوار بڑھائی جاسکے۔

منصوبے کا ایک حصہ مزید پام آئل پیدا کرنا ہے۔ بظاہر یہ اچھا خیال ہے کیونکہ یہ بہت قیمتی فصل ہے اور اس سے سویا بین کے مقابلے زیادہ تیل ملتا ہے۔ پام آئل کا استعمال بھی زیادہ چیزوں میں ہوتا ہے جیسے روزمرہ کی چیزیں یا صنعتی ضرورت۔

یہ بھی پڑھیے

انڈیا میں پام آئل کی زیادہ تر سپلائی انڈونیشیا سے آتی ہے

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

انڈیا میں پام آئل کی زیادہ تر سپلائی انڈونیشیا سے آتی ہے

لیکن پام آئل کی فصل میں پانی کا بے انتہا استعمال ہوتا ہے۔ نئی فصلوں کے لیے کئی جنگلوں کی کٹائی کی ضرورت ہو گی۔ حکومت نے تجویز دی ہے کہ پام آئل کی نئی فصلوں کے ایک تہائی حصے کو ملک کے شمال مشرقی علاقے میں اُگایا جا سکتا ہے جہاں پہاڑ ہیں۔

مگر ماحولیاتی کارکنوں نے اس کی مخالفت کی ہے جو انڈونیشیا اور ملائیشیا کی مثال دیتے ہیں جدھر بارانی جنگلات (رین فاریسٹ) کی کٹائی کے بعد ہی پام آئل کی بڑی پیداوار حاصل ہوئی ہے۔

پانڈے کا کہنا ہے کہ حکومت کا منصوبہ ہے کہ مقامی سطح پر پام آئل کی پیداوار بڑھائی جائے جو کہ فی الحال 2.7 فیصد ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس وقت شہری کوکنگ آئل کے سستے متبادل کی طرف منتقل ہو رہے ہیں۔

روایتی طور پر انڈین شہری خوشبو والے تیل میں کھانا بناتے آئے ہیں جیسے سرسوں، مونگ پھلی، ناریل اور تل کا تیل۔ مختلف علاقوں میں ان میں سے الگ الگ قسم استعمال کی جاتی رہی ہے۔

جیسے جیسے لوگ شہروں میں منتقل ہوئے ویسے ویسے ان کی جانب سے غیر ملکی ویجیٹیبل اور سیڈ آئل استعمال کیا جانے لگا جیسے پام یا سن فلاور آئل۔ یہ تیل سستے ہیں اور ان کے صحت پر مثبت اثرات بتا کر بیچا جاتا ہے۔ تاریخ دان پریتھا سین بتاتی ہیں کہ ’ہماری خوراک کا بحران جزوی طور پر خود کا بنایا ہوا ہے کیونکہ مختلف لابیوں نے غیر ملکی ویجیٹیبل آئل کامیابی سے فروخت کیا۔‘

کئی ماہرین کا خیال ہے کہ لوگوں نے شہر آباد کیے اور ملک کے اندر سفر کیا تو وہ بغیر رنگ اور خوشبو کے تیل جیسے پام آئل اور سن فلاور آئل استعمال کرنے لگے تاکہ دعوتوں پر اپنا کھانا خاندان کے تمام لوگوں یا مہمانوں کے لیے بہتر بنا سکیں۔

کھانوں پر لکھنے والی صحافی مریم رشی کہتی ہیں کہ ’انڈین شہری اب گھروں میں باقاعدگی سے سادہ اور بے رونق کھانے کھاتے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ کوکنگ آئل کا انتخاب ہے۔‘

انڈیا میں تیل کی بڑھتی قیمتوں کی وجہ سے شہریوں کو مشکلات درپیش ہیں جو پہلے ہی روزمرہ کے اخراجات سے پریشان ہیں۔ شیف راکیش رگھوناتھن بتاتے ہیں کہ ’جیسے بحیرہ روم کے کھانوں میں زیتون کا تیل استعمال ہوتا ہے اسی طرح انڈین کھانوں میں ویجیٹیبل آئل کی اہمیت ہے۔‘

سعدیہ دھیلی، جو کہ کھانوں سے متعلق موضوعات پر لکھتی ہیں، کا کہنا ہے کہ عین ممکن ہے کہ اس بحران کے بعد شاید لوگ دانائی سے کوکنگ آئل کا انتخاب کرنے لگیں۔ کیونکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اکثر انڈینز کو اب بھی زیادہ تیل والے کھانے پسند ہیں۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.