عمران خان نے یوکرین بحران کے باوجود روس کا دورہ اور صدر پوتن سے ملاقات کیوں کی؟
وزیر اعظم عمران خان کی جمعرات کو روس کے دارالحکومت ماسکو میں صدر ولادیمیر پوتن سے ملاقات میں دونوں رہنماؤں نے باہمی دلچسپی کے علاقی اور عالمی امور پر بات چیت کی۔
حکومت پاکستان کی جانب سے دیے گئے ایک سرکاری بیان کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کے روس کے دو روزہ دورے کے دوسرے دن صدر ولادیمیر پوتن سے ’تین گھنٹے طویل ملاقات‘ میں عمران خان نے روس اور یوکرین کے درمیان تازہ صورتحال پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ پاکستان کو امید ہے کہ سفارتکاری کے ذریعے فوجی تصادم سے بچا جا سکتا ہے۔
دوسری جانب روسی دفتر خارجہ کے مختصر بیان میں کہا گیا کہ دونوں ممالک کے رہنماؤں نے ’دوطرفہ تعاون کے اہم پہلوؤں پر تبادلہ خیال کیا اور جنوبی ایشیا میں ہونے والی پیشرفت سمیت موجودہ علاقائی موضوعات پر تبادلہ خیال کیا۔‘
پاکستان میں خارجہ پالیسی کے بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ عمران خان کا دورۂ روس مغربی دنیا کے ساتھ پاکستان کے تعلقات پر منفی اثرات مرتب نہیں کرے گا، تاہم یوکرین کے حوالے سے پاکستان کی جانب سے کسی سخت مؤقف کی صورت میں مستقبل میں مغرب کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں سرد مہری آ سکتی ہے۔
عمران خان اور دلادیمیر پوتن کی ملاقات میں کیا بات چیت ہوئی؟
حکومت پاکستان کے ایک بیان کے مطابق حالیہ مہینوں میں روس کے صدر سے ٹیلی فون پر ہونے والے رابطوں کا حوالہ دیتے ہوئے وزیر اعظم نے امید ظاہر کی کہ مستقبل میں دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں مثبت سمت میں پیشرفت جاری رہے گی۔
انھوں نے مزید کہا کہ ان تعلقات میں گرم جوشی اور اعتماد مختلف شعبوں میں تعاون کو بڑھانے اور وسعت دینے میں مدد گار ثابت ہوگا۔
وزیر اعظم نے پاکستان سٹریم گیس پائپ لائن منصوبے کی اہمیت پر ایک مرتبہ پھر زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ منصوبہ پاکستان اور روس کے درمیان معاشی تعاون کا عملبردار ہو گا۔ روس کے صدر سے ملاقات میں انھوں نے توانائی کے شعبے میں تعاون کے دیگر امکانات پر بھی بات چیت کی۔
وزیر اعظم نے روس سے کثیر الجہتی اور طویل المدتی تعلقات استوار کرنے کے پاکستان کے عزم کا اعادہ کیا۔
علاقائی مسائل کے تناظر میں وزیر اعظم نے افغانستان میں انسانی بحران اور ملک کی معاشی بدحالی کا ہنگامی بنیادوں پر سدِباب کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
وزیر اعظم نے اس بات کا اعادہ کیا کہ پاکستان افغانستان میں استحکام، قیام امن اور اسے بیرونی دنیا سے جوڑنے کے لیے بین الاقوامی برادری سے تعاون جاری رکھے گا۔
اس ضمن میں انھوں نے روس اور پاکستان کے درمیان مختلف بین الاقوامی فورم بشمول شنگھائی تعاون تنظم کی سطح پر تعاون کا بھی ذکر کیا۔
صدر پوتن سے جنوب مشرقی ایشیا کے حالات پر بات کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کو اجاگر کیا اور اس بات پر زور دیا کہ جموں اور کشمیر کا مسئلہ پُرامن طریقے سے حل کیا جانا چاہیے۔
وزیر اعظم عمران خان نے ان واقعات پر بھی بات کی جو ان کے خیال میں خطے میں عدم استحکام اور امن خراب کرنے کا باعث بن رہے ہیں اور ایسے اقدامات اٹھانے کی ضرورت پر زور دیا جو خطے میں استحکام اور توازن برقرار رکھنے میں مدد دیں۔
انھوں نے کہا کہ فوجی تصادم کسی طرح بھی کسی کے مفاد میں نہیں اور ترقی پذیر ملکوں کو ہمیشہ جنگوں سے شدید نقصان اٹھانا پڑتا ہے اور پاکستان کو یقین ہے کہ مذاکرات اور سفارت کاری سے تنازعات کا حل تلاش کیا جا سکتا ہے۔
دنیا میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی اور اسلاموفوبیا پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے بقائے باہمی اور مختلف مذاہب میں ہم آہنگی کی ضرورت پر زور دیا۔
روس کے صدر کی طرف سے پیغمبر اسلام کے بارے میں مسلمانوں کے جذبات کو سمجھنے اور ان کا احساس کرنے پر وزیر اعظم نے ولادمیر پوتن کی تعریف کی اور کہا کہ بین المذاہب ہم آہنگی اور تمام مذاہب کا احترام مختلف معاشروں میں امن اور ہم آہنگی برقرار رکھنے کے لیے انتہائی اہم ہے۔
دوسری طرف روسی ٹی وی چینل رشیا ٹوڈے کی ویب سائٹ پر اس ملاقات سے قبل شائع ہونے والی ایک تحریر کے مطابق عمران خان اور پوتن کے درمیان ملاقات کے اہم موضوعات میں افغانستان، علاقائی سکیورٹی اور توانائی کے شعبے میں تعاون ہیں۔
اس تحریر میں صحافی جولیا یوزک لکھتی ہیں کہ ولادیمیر پوتن اور عمران خان کے درمیان ملاقات ایشیا کی سمت میں روسی خارجہ پالیسی کی اہم پیشرفت ہے اور دلی سے اچھے تعلقات کی بنا پر روس پاکستان اور انڈیا کے درمیان ثالث کا کردار ادا کر سکتا ہے۔
یوکرین بحران اور وزیر اعظم کا دورۂ روس
پاکستان میں خارجہ پالیسی کے بعض ماہرین اتفاق کرتے ہیں کہ یہ دورہ مغربی دنیا کے ساتھ پاکستان کے تعلقات پر منفی اثرات مرتب نہیں کرے گا، تاہم یوکرین کے حوالے سے پاکستان کی جانب سے کسی سخت مؤقف کی صورت میں مستقبل میں مغرب کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں سرد مہری و کشیدگی آ سکتی ہے۔۔
ایک اعلیٰ حکومتی عہدیدار نے بی بی سی کو بتایا کہ ماسکو میں دونوں ممالک کے درمیان ہونے والی باضابطہ بات چیت میں پاکستان نے دوطرفہ تعلقات اور افغانستان پر توجہ مرکوز کی۔
سابق سفارتکار عبدالباسظ نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم یوں ہی اس دورے کو منسوخ نہیں کرسکتے تھے۔ سب جانتے ہیں کہ دورے مہینوں پہلے مرتب ہوتے ہیں اور اس کا یوکرین کے بحران سے کوئی تعلق نہیں۔‘
یہ بھی پڑھیے
وزیراعظم عمران خان کو دورے کی دعوت صدر ولادیمیر پوتن نے دی تھی دورے کی تاریخ کو حتمی شکل روس کی وزارت خارجہ نے دی تھی۔ سابق سیکریٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل نعیم خالد لودھی نے کہا کہ ’ہم روسیوں سے نہیں کہہ سکتے تھے کہ ہم اس موقع پر نہیں آنا چاہتے۔ یوکرین بحران ہماری پہنچ اور بست وکشاد سے باہر ہے اور بات چیت میں وزیراعظم کو اپنی توجہ دوطرفہ تعلقات پر مرکوز کرنی چاہیے۔‘
یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے روسی صدر کے یوکرین کے دارالحکومت میں اپنی افواج بھجوانے کا حکم جاری کرنے کے محض چند گھنٹے بعد ملاقات کی جس سے پاکستان کی سفارتکاری میں ایک غیرمتوقع صورتحال پیدا ہوئی اور پاکستان میں بہت سے لوگ اس دورے کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
غالباً پاکستان کے دفتر خارجہ کو اس صورتحال کا پیشگی ادراک تھا اور اس نے یوکرین میں پاکستانی سفیر سے کہہ دیاکہ وہ یوکرین کی نائب وزیر خارجہ سے ملاقات کریں اور یوکرینی ریاست کی خودمختاری اور جغرافیائی سالمیت کے ضمن میں پاکستان کے مؤقف کا اعادہ کریں۔
سابق سفیر عبدالباسط کا کہنا تھا کہ ’خودمختاری اور جغرافیائی سالمیت کے بارے میں پاکستان کا موقف واضح ہے۔ اس (وزیراعظم کے دورے) سے ہمارے مغرب کے ساتھ تعلقات منفی انداز میں متاثر نہیں ہوں گے۔ (ہماری) توجہ دوطرفہ تعلقات اور افغانستان پر رہنی چاہیے۔ یوکرین کو اس کے بیچ میں نہیں ہونا چاہیے۔ اگر ایسا ہوا تو مغرب کے ساتھ پاکستان کے تعلقات پر اس کے منفی اثرات ہوں گے۔‘
پاکستانی دفتر خارجہ نے وزیراعظم عمران خان کے ماسکو کے دورے کا اعلان صرف ایک ہفتہ قبل کیا تھا۔ میڈیا کی اطلاعات تھیں کہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ انہی تاریخوں میں واشنگٹن کا دورہ کرنے جارہے ہیں تاہم امریکی وزیر دفاع اور فوجی حکام کی عدم دستیابی کی وجہ سے یہ دورہ منسوخ ہوگیا کیونکہ امریکی حکام یوکرین بحران کی وجہ سے مصروف تھے۔
دوسری جانب کئی ماہرین کا خیال ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے دورے سے مغربی دنیا کے ساتھ پاکستان کے تعلقات متاثر ہوں گے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی سے متعلق اسٹیبلشمنٹ بھی ماسکو کے ساتھ بڑھتے تعلقات پر بظاہر خوش دکھائی دیتی ہے۔
پاکستان روسی فوجی صنعت کے تیار کردہ عسکری ساز و سامان کا نیا خریدار ہے اور اس کے سودوں کی پیشکش کی تعداد کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ وہ روسی ہتھیاروں کا ایک بڑا خریدار بن چکا ہے۔
خطے کی سیاست
خطے کی سیاست کے لحاظ سے دیکھا جائے تو ماسکو اور اسلام آباد نے افغانستان کی صورتحال اور کابل میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے پر حالیہ ملاقاتوں میں اسی طرح کے جھکاﺅ کا اظہار کیا ہے۔ خطے کے سکیورٹی کے مستقبل کے ڈھانچے میں طالبان کا کیا کردار ہونا چاہیے، اس نکتے پر موقف یک جا دکھائی دیتا ہے۔ فوجی لحاظ سے دونوں ممالک کی بری افواج مختلف سطحوں پر مشترکہ مشقوں میں شریک رہی ہیں۔
تو کیا پاکستان مغربی ممالک سے دور ہٹتے ہوئے اپنی خارجہ پالیسی کو ازسرنو تشکیل دے رہا ہے؟ یہ وہ سوال ہے جس کا بہت سارے مغربی ممالک کے دارالحکومتوں میں جواب تلاش کرنے کی کوشش ہوگی کیونکہ جب وہ صدر پوتن کی اپنے صدارتی محل میں وزیراعظم عمران خان کے استقبال کی تصاویر دیکھیں گے تو اُن کا ذہن اس سوال کا جواب مانگے گا۔
یاد رہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ وزیراعظم کے دورہ ماسکو کے موقع پر ہی واشنگٹن کا دورہ کرنا چاہتے تھے تاکہ امریکی دفاعی حکام کو قائل کرسکیں کہ وزیراعظم کے دورے کا مقصد مغرب کے ساتھ ناطے توڑنا یا یوکرین میں روسی مداخلت کی حمایت کرنا نہیں ہے۔
ایک اعلی حکومتی اہلکار کا کہنا تھا کہ ’پاکستان نے کبھی نہیں چاہا کہ فوجی ساز و سامان فراہم کرنے والے ملک کے ساتھ اس کے نوتشکیل شدہ تعلق کا مغرب کے ساتھ اس کے تعلقات پر کوئی بُرا سایہ یا اثر پڑے۔‘
مغربی ممالک اور روس و چین میں بڑھتی ہوئی دوسری اور کشیدگی کی صورتحال میں ڈرامائی انداز میں اضافہ ہورہا ہے، ایسے میں پاکستان جیسے کمزور اور غیرمتعلق ممالک کے لیے مزید مشکل ہوتا جارہا ہے کہ وہ توازن کیسے قائم رکھے۔
حکام کا کہنا ہے کہ یہ درست ہے کہ چین ہمارا آزمودہ وسدا بہار اتحادی ہے اور پاکستان روس کے ساتھ نئے سیاسی اور فوجی تعلقات کو فروغ دے رہا ہے۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان مغربی دارالحکومتوں خاص طور پر واشنگٹن کو ناراض کرنا مول نہیں لے سکتے۔
سابق سیکریٹری دفاعی لیفٹیننٹ جنرل نعیم خالد لودھی کا کہنا تھا کہ ’ہمیں افغانستان میں روس اور چین کی مدد کی ضرورت ہے۔ یوکرین بہت بڑا مسئلہ ہے جس سے نمٹنا ہمارے بس میں نہیں، ہمیں روسیوں سے گفتگو میں اس پر بات بھی نہیں کرنی چاہیے۔‘
اس حوالے سے سابق سفیر عبدالباسط کا مؤقف یہ تھا کہ دوطرفہ بات چیت کو معاشی تعلقات کے فروغ پر مرکوز ہونا چاہیے۔ ان کے بقول ’میرا نہیں خیال کہ اس سے ہمارے مغرب کے ساتھ تعلقات متاثر ہوں گے تاہم بہرطور واشنگٹن کے ساتھ ہمارے تعلقات پہلے ہی سردمہری کا شکار ہیں۔‘
Comments are closed.