بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

یوکرین تنازع: امریکہ روس کو جنگ میں دھکیلنے کی کوشش کر رہا ہے، صدر پوتن

یوکرین تنازع: امریکہ روس کو جنگ میں دھکیلنے کی کوشش کر رہا ہے، صدر پوتن

پوتن

،تصویر کا ذریعہGetty Images

روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے امریکہ پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ ان کے ملک کو یوکرین کے خلاف جنگ میں دھکیلنے کی کوشش کر رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کا مقصد ہے کہ وہ اس کشیدگی کو وجہ بنا کر روس پر پابندیاں عائد کر سکے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ امریکہ فوجی اتحاد نیٹو کے یورپی یونین میں پھیلاؤ سے متعلق خدشات کو نظرانداز کر رہا ہے۔

امریکہ اور اس کے اتحادی روس پر الزام عائد کرتے ہیں کہ وہ یوکرین پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے تاہم روس اس الزام کی مسلسل تردید کرتا آیا ہے۔

منگل کے روز امریکہ وزیرِ خارجہ اینٹونی بلنکن نے ٹویٹ کیا کہ امریکہ ’ایسے تنازع کو روکنے کے لیے کوشاں ہے جو کسی کے مفاد میں نہیں۔‘

دریں اثنا ہسپانوی اخبار ’ایل پیس‘ نے ایسے ’خفیہ دستاویزات‘ شائع کیے ہیں جو اس کے مطابق امریکہ اور نیٹو نے گذشتہ ہفتے روس کو بھیجے تھے۔

ان کے مطابق امریکہ اور نیٹو کی جانب سے یوکرین میں تناؤ کم کرنے کے بدلے جوہری ہتھیاروں کی پیداوار کی روک تھام کے لیے بات چیت اور اعتماد بحال کرنے والے اقدامات کی پیشکش کی گئی ہے۔

نیٹو کے ایک عہدیدار نے بی بی سی کو بتایا کہ اتحاد کبھی بھی مبینہ لیک شدہ دستاویزات کے بارے میں وضاحت نہیں دیتا۔

حالیہ ہفتوں کے دوران روس نے یوکرین کی سرحد پر تقریباً ایک لاکھ فوجیوں کو تعینات کیا۔ اسلحے سے لیس ان فوجیوں کی معاونت ٹینکوں سے لے کر لڑاکا طیاروں کی صورت میں کی جا رہی ہے۔

روس اور امریکہ کے درمیان کشیدگی کافی پرانی ہے اور اس دوران ان کے درمیان 1947 سے لے کر 1989 تک سرد جنگ بھی ہوئی تھی۔ یوکرین اس وقت کمیونسٹ سوویت یونین کا ایک اہم حصہ تھا، یعنی روس کے بعد سب سے اہم۔

یوکرین

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ادھر ماسکو کی جانب سے یوکرین کی حکومت پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ ایک ایسے بین الاقوامی معاہدے پر عمل کرنے میں ناکام ہوئے جس کے تحت ملک کے مشرقی علاقے میں امن بحال کیا جانا تھا جہاں کم از کم 14 ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور روس کے حمایت یافتہ باغیوں نے ایک بڑے حصے پر قبضہ سنبھالا ہوا ہے۔

اسی دوران منگل کو یوکرین کے صدر ولادمیر زیلینسکی نے خبردار کیا ہے کہ روس کی جانب سے حملہ ’صرف یوکرین اور روس کے درمیان ہی جنگ نہیں ہو گی، یہ یورپ میں ایک بڑی جنگ ہو گی۔‘

ہنگری کے وزیراعظم وکٹر اوربان سے بات چیت کے بعد میڈیا نمائندوں سے بات کرتے ہوئے پوتن نے کہا کہ ’مجھے ایسے محسوس ہو رہا ہے کہ امریکہ یوکرین کی سکیورٹی کے بارے میں اتنا فکر مند نہیں ہے لیکن اس کا اصل مقصد روس کی ترقی کو روکنا ہے۔ اس تناظر میں یوکرین صرف اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے

صدر پوتن کا کہنا تھا کہ امریکہ نے ماسکو کے خدشات کو نظر انداز کر دیا ہے جو روس کی جانب سے ایسے مطالبات پر مبنی تھے جو ایسی قانونی ضمانت چاہتے تھے جن میں نیٹو کے مشرقی یورپ میں پھیلاؤ کو روکنا شامل تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر یوکرین کو اس کی خواہش کے مطابق نیٹو میں شامل کیا گیا تو اس کے باعث نیٹو کے دیگر اراکین کو روس کے ساتھ جنگ میں دھکیلا جا سکتا ہے۔

روس

،تصویر کا ذریعہGetty Images

انھوں نے کہا کہ ’کچھ وقت کے لیے سوچیں کے یوکرین ایک نیٹو رکن ہو اور پھر (کرائمیا کو واپس حاصل کرنے کے لیے) فوجی آپریشن کا آغاز جائے۔ کیا ہمیں نیٹو کے خلاف لڑنا پڑے گا؟ کیا کسی نے اس بارے میں سوچا ہے؟ ایسا لگتا ہے کہ انھوں نے نہیں سوچا۔‘

امریکہ کی جانب سے اس دوران باور کروایا گیا ہے کہ وہ مذاکرات کے خواہاں ہیں۔ منگل کو روسی وزیرِ خارجہ سرجی لیوروو سے فون پر بات کرنے کے بعد بلنکن کا کہنا تھا کہ انھوں نے امریکہ کی جانب سے ’مشترکہ سکیورٹی خدشات‘ پر بات چیت کرنے کی خواہش پر زور دیا۔

رواں ہفتے کے آغاز میں، امریکہ کا کہنا تھا کہ اسے روس کے جانب سے امریکی تجویز کے جواب میں تحریری جواب موصول ہوا ہے جو یوکرین کی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا تاہم اس کے کچھ گھنٹے بعد ہی روس کے ڈپٹی وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ یہ درست نہیں اور ریا نیوز ایجنسی کو ایک ذریعے سے معلوم ہوا کہ وہ اب بھی ایک جواب تیار کر رہا ہے۔

ہسپانوی اخبار ایل پیس کی جانب سے شائع کردہ دستاویزات کے مطابق اگر روس یوکرین کے ساتھ کشیدگی میں کمی لے آئے تو امریکی تجویز میں جوہری ہتھیاروں کو کم کرنے کے حوالے سے مذاکرات کی پیشکش شامل تھی۔

اس میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ یورپ میں امریکی میزائلوں کے حوالے سے روس کے خدشات کا حل ڈھونڈنے کے لیے ’شفاف طریقہ کار‘ بنایا جا سکتا ہے۔

امریکہ کی جانب سے یہ تجویز بھی دی گئی کہ روس اس بات کی تصدیق کر سکتا ہے کہ رومانیہ اور بلگاریہ میں نیٹو کے فوجی اڈوں کوئی کروز میزائل تو موجود نہیں۔ اس بدلے امریکہ بھی اپنی مرضی کے دو روسی فوجی اڈوں پر یہ تسلی کرنے کا حق رکھے گا۔

ان دستاویزات کے مطابق امریکی یورپی ممالک کو درپیش سلامتی کے مسائل کے حوالے سے اپنے اتحادیوں سے مشاورت کرے گا۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.