بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

یوکرین تنازعے پر امریکہ کا ساتھ دیا جائے یا روس کا، انڈیا مخمصے میں

یوکرین کے معاملے پر امریکہ کا ساتھ دیا جائے یا روس کا، انڈیا مخمصے کا شکار

  • رپشا مکھرجی
  • بی بی سی مانیٹرنگ

انڈیا، روس، یوکرین، امریکہ، چین

،تصویر کا ذریعہGetty Images

امریکہ کی قیادت میں نیٹو ممالک اور روس کے درمیان یوکرین کے معاملے پر بڑھتے ہوئے تنازعے کے باعث انڈیا کی سفارتی حکمتِ عملی کی اب بھرپور آزمائش ہو رہی ہے کیونکہ یہ اپنے دو اہم سٹریٹجک شراکت داروں امریکہ اور روس کے درمیان توازن قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

امریکہ اس معاملے میں ہندوستان کو اپنے ساتھ دیکھنا چاہے گا۔ لیکن انڈیا سٹریٹجک طور پر بھی روس کے قریب ہے۔ نئی دہلی طویل عرصے سے روسی دفاعی ساز و سامان اور ہتھیاروں کا خریدار رہا ہے اس لیے اب بھی ماسکو پر اس کا انحصار برقرار ہے۔ انڈیا کو چین کے ’جارحانہ رویے‘ کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے، جس کی وجہ سے روس کا تعاون حاصل کرنا اس کے لیے اور بھی ضروری ہو جاتا ہے۔

امریکہ اور روس کے درمیان توازن برقرار رکھنے کی کوشش میں انڈیا نے 31 جنوری کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں یوکرین کشیدگی پر بحث کے لیے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا لیکن جب بات چیت ہوئی تو وہاں موجود انڈیا کے نمائندے نے اس کشیدگی کو کم کرنے اور خطے میں دیرپا امن و استحکام کی اپیل کی۔

روس اور امریکہ کے درمیان بڑھتے ہوئے تناؤ کے درمیان انڈیا کی یہ بھرپور خواہش ہے کہ اس کے سٹریٹجک شراکت دار آپس میں نہ ٹکرائیں کہ کہیں دلی کو کسی ایک کی طرفداری نہ کرنی پڑ جائے، کیونکہ ایسے میں اس کا طویل عرصے سے قائم سٹریٹجک خود مختاری کا مؤقف خطرے میں پڑ جائے گا۔

سفارتی ماہرین میڈیا میں اس معاملے میں کھل کر اپنی رائے کا اظہار کر رہے ہیں۔

انڈین فوج کے ریٹائرڈ میجر جنرل ہرش ککڑ نے یکم فروری کو ایک مقامی انگریزی اخبار دی سٹیٹسمین میں لکھا کہ ’انڈیا کے لیے غیر جانبدار رہنا بہترین آپشن ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انڈیا کی غیر جانبداری نے امریکہ کو پریشان کر دیا ہے۔ اگر ہندوستان آکس (امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا کے اتحاد) کا رکن تھا تو اسے لازماً امریکہ کا ہی ساتھ دینا ہوتا۔‘

انڈیا، روس میزائل معاہدے سے امریکہ ناراض

انڈیا اپنی فوجی ضروریات کے لیے روس پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے۔ انڈیا اپنا 55 فیصد فوجی ساز و سامان روس سے خریدتا ہے۔ انڈیا روس سے S-400 میزائل سسٹم خریدنا چاہتا ہے لیکن امریکہ نے اس پر اعتراض کیا ہے۔

امریکہ اس معاہدے کو منسوخ کرنے کے لیے انڈیا پر دباؤ ڈال رہا ہے لیکن انڈیا کا مؤقف ہے کہ اس کی خارجہ پالیسی آزاد ہے اور وہ ہتھیاروں کی خریداری کے معاملے میں قومی مفاد کو ترجیح دیتا ہے۔

انڈیا بیجنگ کے ساتھ اپنے حل طلب سرحدی تنازعے پر کواڈ گروپ کی حمایت حاصل کرنے کے لیے امریکہ کے ساتھ اتحاد کا بھی خواہاں ہے۔

انڈیا، روس، یوکرین، امریکہ، چین

،تصویر کا ذریعہEPA

حکومت کے حامی انڈین نیوز چینل زی نیوز نے اپنے ایک پروگرام میں انڈیا کے اس ’مخمصے‘ پر بات کی ہے۔

پروگرام میں بحث کی گئی کہ یوکرین کے معاملے میں نریندر مودی کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے کیونکہ امریکی صدر جو بائیڈن اور روسی صدر ولادی میر پیوتن دونوں ہی انڈین وزیر اعظم نریندر مودی کے ’دوست‘ ہیں۔

پروگرام میں کہا گیا کہ ’ہندوستان اور امریکہ کی بڑھتی ہوئی دوستی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ روس کے ساتھ اس کی پرانی دوستی کہیں سے بھی کمزور پڑ گئی ہے۔‘

چائنا فیکٹر

یوکرین کے معاملے میں روس کی امریکہ کے ساتھ کشیدگی میں اضافہ ہوا اور اگر اس پر پابندیاں لگائی گئیں تو چین کے ساتھ اس کی قربتیں مزید بڑھ جائیں گی۔ جس کی وجہ سے روس اور چین کے درمیان فوجی تعاون بھی تیزی سے بڑھے گا۔

اگر انڈیا یوکرین کے معاملے میں خفیہ طور پر امریکہ کا ساتھ دینے کی کوشش کرتا ہے تو نئی دہلی کو روس کی جانب سے اسلحہ فراہمی پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔

واضح رہے کہ انڈیا اور چین کے درمیان سرحدی تنازع کے معاملے میں روس نے اب تک کسی کا ساتھ نہیں دیا ہے۔ انڈیا کو امید ہے کہ روس مستقبل میں بھی اس معاملے میں غیر جانبدار رہے گا۔

انڈیا، روس، یوکرین، امریکہ، چین

،تصویر کا ذریعہGetty Images

بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار رنجے سین نے 22 جنوری کو انگریزی اخبار ’دی ٹریبیون‘ میں لکھا کہ ’امریکہ اب تک انڈیا کا سب سے اہم سٹریٹجک پارٹنر رہا ہے۔ اگر انڈیا کو چین کا مقابلہ کرنا ہے تو اس کے لیے امریکا کے ساتھ شراکت داری ضروری ہے۔ اگر امریکہ کے ساتھ تعلقات مضبوط رہے تو انڈیا چین کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں آ جائے گا۔ لیکن روس کے اندر انڈیا-امریکہ اتحاد کے بارے میں خدشات برقرار ہیں اور کم نہیں ہو رہے ہیں۔

افغانستان میں انڈین مفادات کو نقصان

انڈیا ہر حال میں افغانستان جیسی صورتحال سے بچنا چاہے گا۔ امریکہ وہاں سے نکل آیا ہے اور چین نے طالبان کو تسلیم کرنے میں بڑی تیزی دکھائی ہے، جس کی وجہ سے چین نے افغانستان میں سرمایہ کاری کے معاملے میں انڈیا پر برتری حاصل کر لی جس سے وہاں انڈیا کے منصوبے خطرے میں پڑ گئے۔ نئی دہلی نے افغانستان، پاکستان، عراق، ایران، لیبیا اور یہاں تک کہ چین میں بھی امریکی پالیسیوں کی قیمت ادا کی ہے۔

روس میں انڈیا کے سابق سفیر کنول سبل نے 21 جنوری کو اپنی ٹویٹ میں کہا کہ ’کیا ہندوستان امریکہ پر دباؤ ڈال سکتا ہے کہ وہ یوکرین کو نیٹو کی رکنیت نہ دے۔ کیا وہ روس کو یوکرین پر حملہ نہ کرنے پر راضی کر سکتا ہے؟‘

انڈیا کی تشویش ایک اور معاملے پر بڑھے گی کیونکہ یوکرین کشیدگی کی وجہ سے امریکہ کی توجہ ایشیا پیسیفک خطے سے مشرقی یورپ کی طرف ہٹ جائے گی۔

کیا انڈیا برابری قائم رکھ سکے گا؟

نومبر 2020 میں یوکرین کریمیا میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں پر اقوام متحدہ میں ایک قرارداد لایا۔ اس وقت انڈیا نے اس تجویز کے خلاف ووٹ دیا تھا۔

اس سے قبل سنہ 2014 میں منموہن سنگھ کی حکومت نے کریمیا کے الحاق کے بعد روس پر عائد مغربی پابندیوں کی مخالفت کی تھی۔

انڈیا، روس، یوکرین، امریکہ، چین

،تصویر کا ذریعہEPA

تاہم یوکرین کے بحران پر 31 جنوری کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں انڈیا کے مستقل نمائندے ٹی ایس تریمورتی کے بیان کی مختلف تشریح کی جا رہی ہے۔

سلامتی کونسل میں انڈیا کے مؤقف کو واضح کرتے ہوئے ٹی ایس تریمورتی نے کہا کہ انڈیا چاہتا ہے کہ یوکرین، روس سرحد پر کشیدگی کو فوری طور پر کم کیا جائے اور تمام ممالک کے جائز سکیورٹی مفادات کو برقرار رکھا جائے۔

یہ بھی پڑھیے

انڈیا کے معروف انگریزی اخبارات میں سے ایک انڈین ایکسپریس نے لکھا کہ ’انڈیا نے اپنے بیان میں ’تمام ممالک کے جائز سکیورٹی مفادات‘ کی بات کی ہے۔ لیکن عام تاثر یہ لیا گیا کہ یہ بیان روس کے مفادات کی وکالت میں تھا‘۔

سٹریٹجک اور بین الاقوامی امور کی تجزیہ کار تنوی مدن نے انڈین وزارت خارجہ کی ایک ٹویٹ کا حوالہ دیا جس میں یوکرین کے بحران کے ’پرامن حل‘ کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ ’ایسا لگتا ہے کہ انڈیا کھل کر یہ کہنے جا رہا ہے: ولادیمیر، ایسا کچھ نہ کریں۔‘

فی الحال تو ایسا لگتا ہے کہ روس، یوکرین کے معاملے میں انڈیا ’انتظار کرو اور دیکھو‘ کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے۔ لیکن اگر روس نے جارحانہ رویہ اختیار کیا اور امریکہ کے ساتھ اس کی کشیدگی ایک بڑے تنازعے میں بدل گئی تو انڈیا کو ٹھوس مؤقف اختیار کرنا پڑے گا۔

تاہم ماہرین کا خیال ہے کہ ایسی صورت حال میں بھی انڈیا۔روس یا انڈیا۔امریکہ تعلقات میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئے گی۔

خارجہ امور کے ماہر زورآور دولت سنگھ نے حکومت کے حامی انگریزی ٹی وی چینل ٹائمز ناؤ پر کہا کہ ’آپ کیسے امید کرتے ہیں کہ روس کبھی ایشیا پیسیفک یا یوریشیا میں چینی تسلط کو برداشت کر سکے گا‘۔

ان کا کہنا ہے کہ اگر دونوں ممالک کے درمیان تعلقات مضبوط ہو جائیں تب بھی روس کو چین کا جونیئر پارٹنر تسلیم نہیں کیا جائے گا۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.