hookup Uniondale hookup Blooming Grove homemade hookup hookup by tinder gay byu hookups

بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

یوکرین تعلیم کے حصول کے لیے غیر ملکی طلبا کی توجہ کا مرکز کیوں؟

یوکرین روس تنازع: غیر ملکی طلبا یوکرین سے تعلیم حاصل کرنے میں دلچسپی کیوں لیتے ہیں؟

انڈین طلباء

،تصویر کا ذریعہMOHAMMED MAHTAB RAZA

،تصویر کا کیپشن

رات کے وقت طلباء کو بنکروں میں رہنا پڑتا ہے

مشرقی یوکرین میں پھنسے انڈین طلبا کے لیے حالات سخت ہوتے جا رہے ہیں۔ اے ٹی ایم سے کیش نہیں نکل رہا اور مقامی گروسری سٹوروں میں بھی انھیں نسل پرستانہ رویے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

یوکرین کے مشرقی شہر سومی میں رہنے والے انڈین طلبا کا کہنا ہے کہ انھوں نے دن کے وقت سنائپرز کو چھتوں پر تعینات اور رات بھر شدید بمباری ہوتے دیکھی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ انھیں اپنے بنکروں کے اوپر سے گزرنے والے ٹینکوں کی آواز سنائی دیتی ہے۔

یوکرین میں پھنسے انڈین طلبا کی آپ بیتی

سومی سٹیٹ میڈیکل یونیورسٹی کے چوتھے سال کے انڈین طالب علم محمد مہتاب رضا نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہمارے پاس اب پیسے ختم ہو رہے ہیں، اے ٹی ایم میں بھی کیش نہیں ہے۔ اگر ہمیں یہاں سے نکلنے کا موقع ملا تو بغیر پیسے ہم کہیں بھی کیسے پہنچ سکتے ہیں؟

مہتاب اے ٹی ایم سے پیسے نکالنے گئے تو ایک خاتون نے انھیں باہر سے نوٹس دکھا کر سمجھایا کہ اب یہاں صرف پیسے جمع کیے جا سکتے ہیں، نقدی نہیں نکالی جا سکتی۔

مہتاب کا تعلق انڈیا کے علاقے بہار سے ہے، ان کا کہنا تھا کہ ’اگر یہی حال رہا تو ہم یہاں سے 1500 کلومیٹر دور یوکرین کے مغربی حصے میں کیسے پہنچ پائیں گے؟‘

بنکر کے اندر سے ویڈیو کے ذریعے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے مہتاب اور ان کے دوستوں نے کئی طرح کے خدشات کا اظہار کیا۔ موجودہ حالات کی وجہ سے اب ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے۔

محمد مہتاب رضا

،تصویر کا ذریعہMOHAMMED MAHTAB RAZA

،تصویر کا کیپشن

اے ٹی ایم میں پیسے ختم ہو چکے ہیں اور کھانے پینے کی اشیا کے لیے رقم نہیں ہے

جسلین کور، جن کا تعلق انڈین پنجاب سے ہے کا کہنا ہے کہ ’انڈینز کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے۔ یہاں مقامی لوگوں کو ہم سے زیادہ کھانے پینے کی اشیا لے جانے کی اجازت دی جا رہی ہے۔ شاید جلد ہی ہمارے پاس کھانے کو کچھ نہ ہو۔ ہمیں یہاں سے نکالنے کے لیے جلدی ہی کچھ کیا جانا چاہیے۔‘

ویڈیو پر گفتگو کرتے ہوئے جییا بلونی نے کہا کہ ‘کیئو پہنچنے میں پانچ سے چھ گھنٹے لگتے ہیں سب سے قریب روسی سرحد لگتی ہے جب روس نے یوکرین پر حملہ کیا تو ہم سو رہے تھے ہمارے والدین کا فون آیا تو ہمیں پتہ چلا۔‘

وہ بتاتی ہیں کہ ’انڈیا میں پہلے پتہ چل گیا تھا کہ حملہ ہوا ہے یہ سن کر ہم بہت گھبرا گئے۔ ہمیں کہا گیا کہ سامان خریدیں ورنہ سپر مارکیٹیں بند کر دی جائیں گی لیکن وہاں لمبی قطاریں تھیں۔‘

line

روس کا یوکرین پر حملہ: ہماری کوریج

line

ان کا کہنا تھا کہ ’سائرن بجتا ہے تو ہمیں بنکر میں جانا پڑتا ہے۔ جب محفوظ محسوس ہوتا ہے تو ہم کمروں میں واپس چلے جاتے ہیں۔‘

بلونی کہتی ہیں کہ ’دو دن سے بہت حملے ہو رہے ہیں۔ بہت سے طلبا نے فوج کو لڑتے دیکھا ہے۔ کئی مقامات پر آگ لگ گئی ہے۔ دو دن سے ہم بموں کی آوازیں سن رہے ہیں۔ جب رات کے ایک یا دو بجے محفوظ لگتا ہے تب ہم کمرے میں آتے ہیں۔‘

جیا بلونی کا تعلق اتراکھنڈ کے رشی کیش شہر سے ہے۔ 2018 میں جیا نے سومی سٹیٹ یونیورسٹی میں میڈیکل سٹڈیز کے لیے داخلہ لیا تھا اب وہ میڈیکل کے چوتھے سال میں ہیں۔

جہاں جیا رہ رہی ہیں اسی بنکر میں انڈیا کے دیگر 500 طلبا بھی قیام پذیر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب بھی سائرن کی آواز آتی ہے تو یہاں خوف پھیل جاتا ہے۔

جیا بولینی

،تصویر کا ذریعہGiya bulini

،تصویر کا کیپشن

’دن بھر بمباری کی آوازیں سنائی دیتی ہیں‘

وہ کہتی ہیں کہ ’ہمارے والدین خوفزدہ ہیں۔ وہ رات بھر سو نہیں پاتے۔ وہ بار بار فون کرتے رہتے ہیں۔ ہمارا ریلوے سٹیشن بند ہے ہم مغربی سرحد تک نہیں جا سکتے ،ہماری سڑکیں بھی ٹوٹ چکی ہیں۔‘

جیا کہتی ہیں کہ ’ہم نے سی سی ٹی وی کیمروں پر روسی ٹینک دیکھے، دس ٹینک ہمارے شہر کے اندر آ رہے تھے۔‘

وہیں چھتیس گڑھ کے رہنے والے احمد شیخ رضا نے بتایا کہ ہر 45 منٹ میں سائرن بجنے لگتا ہے ہم رات بنکر میں گزارتے ہیں اور دن بھر سائرن کی آواز کے خوف میں رہتے ہیں۔‘

احمد کا کہنا ہے کہ اب انھیں ضروری سامان خریدنے کے لیے باہر جانے سے بھی ڈر لگتا ہے کیونکہ انھوں نے دیکھا ہے کہ چھتوں پر سنائپر تعینات کر دیے گئے ہیں۔‘

یوکرین میں غیر ملکی طلبا کی بڑی تعداد

دوسری جنگِ عظیم کے بعد روس کی جانب سے اب تک کے سب سے بڑے حملے کی وجہ سے یوکرین کے ہزاروں شہری نقل مکانی کر رہے ہیں ۔ان میں ایک بڑی تعداد غیر ملکی طلبا کی بھی ہے جن میں افریقہ، ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے ہزاروں طلبا بھی شامل ہیں۔

2020 کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، یوکرین میں 76,000 سے زیادہ غیر ملکی طلبا زیر تعلیم تھے۔ تقریباً ایک چوتھائی طلبا کا تعلق افریقہ سے تھا، جن میں سب سے زیادہ تعداد نائیجیریا، مراکش اور مصر سے تھی۔ ان میں 20000 کا تعلق انڈیا سے ہے۔

میڈیکل، انجینئرنگ اور بزنس کی تعلیم حاصل کرنے والے غیر ملکی طلبا یوکرین کی معیشت کا ایک اہم حصہ ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

طلباء

،تصویر کا ذریعہAFP

،تصویر کا کیپشن

یوکرین میں تقریباً ایک چوتھائی طلباء کا تعلق افریقہ سے تھا جن میں سب سے زیادہ تعداد نائیجیریا، مراکش اور مصر سے تھی

یوکرین طلبا کی دلچسپی کا مرکز کیوں؟

یوکرین کی یونیورسٹیوں کو یورپی جاب مارکیٹ کے گیٹ وے کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو قیمت کے لحاظ سے سستے کورسز، سیدھی سیدھی ویزا شرائط اور مستقل رہائش کا امکان پیش کرتی ہیں۔

یوکرین میں تعلیم حاصل کرنے کے خواہشمند مغربی افریقی طلبا کی مدد کرنے والی تنظیم سے وابستہ پیٹرک ایسوگنم کا کہنا ہے کہ یوکرین کی ڈگریوں کو وسیع پیمانے پر تسلیم کیا جاتا ہے اور وہاں اعلیٰ معیار کی تعلیم مہیا کی جاتی ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’بہت سے میڈیکل طلباء خاص طور پر یوکرین جانا چاہتے ہیں کیونکہ ان کے پاس طبی سہولیات کا معیار اچھا ہے۔‘

ایک نائجیرین طالب علم ڈیسمنڈ چینزا موکوڈو کا کہنا تھا کہ ’یہاں داخلے کی آسان شرائط اور یورپ کے مقابلے بہتر، سستی اور آرام دہ زندگی نے انھیں یہاں آنے پر راغب کیا تھا۔‘ انھوں نے یونیورسٹی آف کسٹمز اینڈ فنانس میں تین ماہ قبل داخلہ لیا تھا۔

بہت سے کورسز انگریزی میں کرائے جاتے ہیں، لیکن 30 سالہ اس نوجوان نے انٹرنیشنل رلینز کا کورس کرنے سے پہلے یوکرینی زبان کا کورس کیا تھا۔

طلبا اب کہاں ہیں؟

یورپی یونین کے مطابق، مسٹر ڈیسمنڈ کی طرح، دس ہزار سے زیادہ دوسرے افریقی طلبا جنگ سے فرار ہو کر پڑوسی ممالک میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔

سرحد پر غیر ملکی طالب علموں کے ساتھ نسلی امتیاز برتنے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں، سوشل میڈیا فوٹیج میں یوکرین کے اہلکاروں کو کچھ لوگوں کو سرحد عبور کرنے سے روکتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

خیال کیا جاتا ہے کہ اب بھی سینکڑوں طلبا یوکرین میں ہیں لیکن ایسے لوگوں کی درست تعداد کی تصدیق کرنا مشکل ہے۔

کچھ طالب علموں نے بی بی سی ون ایکسٹرا پوڈ کاسٹ، ’اِف یو ڈونٹ نو‘ کو بتایا ہے کہ ان کی یونیورسٹیوں نے بار بار درخواستوں کے باوجود حملے سے پہلے اپنی کلاسز آن لائن منتقل کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

نائیجیریا کی میڈیکل کی طالبہ میری کا کہنا تھا کہ ’یونیورسٹی نے ایک ماہ سے زیادہ عرصے تک ہماری درخواستوں اور خدشات کو نظر انداز کیا، ہم نے یونیورسٹی سے التجا کی تھی کہ وہ ہمیں جانے کی اجازت دیں۔‘

’لیکن طلبا کو بتایا گیا کہ اگر وہ اپنی کلاسز چھوڑتے ہیں تو انھیں جرمانہ ادا کرنا پڑے گا جو کہ یوکرین کی کچھ یونیورسٹیوں میں معیاری پالیسی ہے اس لیے ہمارے پاس کوئی اور راستہ نہیں تھا۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.