یوکرینی نژاد ماڈل کے جاپان کا مقابلہ حسن جیتنے پر بحث: ’اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ خوبصورت ہیں مگر وہ جاپانی نہیں لگتی‘
- مصنف, شمع خلیل
- عہدہ, بی بی سی ٹوکیو
- 54 منٹ قبل
’جہاں نسلی طور پر مُشکلات کا سامنا رہا، وہیں بحیثیت جاپانی خود کو قبول کروانا بھی ایک چیلنج رہا ہے۔‘پیر کے روز مس جاپان کا تاج اپنے سر پر سجانے کے بعد کیرولینا شینو نے نم آنکھوں اور بھری ہوئی آواز کے ساتھ جاپانی زبان میں یہ الفاظ کہے۔یوکرین میں پیدا ہونے والی 26 سالہ ماڈل پانچ سال کی عمر میں جاپان منتقل ہو گئیں اور ناگویا میں پرورش پائی۔وہ یہ مقابلہ جیتنے والی پہلی جاپانی شہری ہیں لیکن ان کی جیت اور اس کامیابی نے اس بحث کو ایک بار پھر جنم دیا ہے کہ جاپانی ہونے کا مطلب کیا ہے۔
جہاں کچھ لوگوں نے ان کی اس کامیابی کو سراہا ہے، وہیں کچھ کا کہنا ہے کہ وہ ’مس جاپان‘ بن تو گئی ہیں مگر وہ جاپانی نہیں لگتی۔کیرولینا شینو کے مس جاپان بننے سے دس سال قبل آریانا میاموتو 2015 میں مس جاپان کا تاج پہلنے والی ایسی خاتون تھیں کے جن کے والدین دو مُختلف قومیتوں سے تعلق رکھنے والے تھے۔اس وقت ایک جاپانی ماں اور افریقی نژاد امریکی والد کے ساتھ مس میاموتو کی کامیابی نے یہ سوالات اٹھائے کہ کیا مخلوط نسل کے شخص کو مقابلہ جیتنے کا اہل ہونا چاہیے۔مگر اب دس سال کے بعد سامنے آنے والے اس معاملے میں تو حالات یکسر ہی مختلف ہیں، وہ اس وجہ سے کہ حال ہی میں مس جاپان بننے والی شینو کے تو والدین میں سے کسی کا بھی تعلق جاپان سے نہیں اور یہی وہ وجہ ہے کہ یہ معاملہ سوشل میڈیا پر کچھ لوگوں کو پریشان کر رہا ہے۔،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.