بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

یوکرینی فوج میں بھرتی ہونے والے نوجوان: ’یہاں کوئی بھی مرنا نہیں چاہتا‘

یوکرین روس تنازع: یوکرینی فوج میں بھرتی ہونے والے نوجوان سپاہی جو مستقبل کے خواب سجائے دفاع کے لیے تیار

  • جیرمی بوون
  • بی بی سی نیوز، کیئو

Maksym Lutsyk,19 (L) and Dmytro Kisilenko, 18

،تصویر کا ذریعہJeremy Bowen/BBC

صرف ایک ہفتے قبل میں نوجوان کے ایک ایسے گروہ سے ملا تھا جنھوں نے یوکرین پر روسی حملے کے نتیجے میں دارالحکومت کیئو میں ایک مرکز کا رضاکارانہ طور پر دفاع کرنے کے لیے فوج میں شمولیت اختیار کی تھی۔

ان میں سے زیادہ تر ابھی بہت نوجوان اور ٹین ایجرز تھے۔ اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کچھ عرصہ پہلے ہی انھوں نے سکول سے اپنی تعلیم مکمل کی ہے۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ تین دن کی بنیادی فوجی تربیت کے بعد انھیں جنگی محاذ پر اگلے مورچوں یا ان کے قریب بھیج دیا گیا۔

ان میں سے ایک 19 سالہ میکسیم لوتسک جو بیالوجی کے طالبعلم ہیں، نے مجھے بتایا کہ انھیں ایک ہفتے سے بھی کم فوجی تربیت حاصل کرنے پر پریشانی نہیں تھی۔

انھوں نے یہ سب کچھ اس لیے سیکھ کیا کیونکہ وہ پانچ سال تک سکاؤٹس کی تربیت حاصل کر چکے تھے جہاں انھیں جسمانی تربیت کے ساتھ ساتھ اسلحہ چلانا بھی سیکھایا گیا تھا۔

جب سنہ 2014 میں روس نواز علیحدگی پسندوں کے ساتھ یوکرین کا تنازع شروع ہوا تھا، وہ اس وقت دس برس کے تھے۔

میکسیم نے اپنے 18 سالہ دوست دیمترو کے ساتھ فوج میں شمولیت اختیار کی جو ان ہی کی یونیورسٹی میں اکنامکس کے طالبعلم تھے۔

یوکرینی فوج میں بھرتی ہونے والے یہ نوجوان اس جتھے کی طرح تھے جنھوں نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ وہ اب کم سن لڑکے نہیں ہیں۔ یہ اپنے اعصاب پر دباؤ کو چھپانے کے لیے لطیفوں پر زور سے ہنستے ہیں یا تھوڑی سے بہادری دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔

ان میں سے چند نے اپنے گھٹنوں پر ایسے حفاظتی ‘نی پیڈز’ پہن رکھپتے تو جو چھوٹے معلوم ہوتے تھے جیسے وہ ان کی بارہویں سالگرہ کے موقع پر ان کے سکیٹ بورڈ کے ساتھ ملے ہوں۔ ان میں سے کچھ کہ پاس سلیپنگ بیگز تھے، ایک نوجوان کے پاس یوگا کرنے کے لیے میٹ یا دری بھی موجود تھی۔

جب وہ اس بس کا انتظار کر رہے تھے جو انھیں تربیتی سنٹر لے کر جانے والی تھی وہ ایک ساتھ ایسے دوستوں کے گروہ کی طرح دکھائیں دے رہے تھے جو کسی میلے پر جانے کی تیاری کر رہے ہوں۔

ہاں مگر ان کے پاس اسلحہ تھا، ہر ایک نوجوان کے پاس کلاشنکوف بندوق تھی۔

Maksym (far left) and Dmytro (centre, with green jacket and white trainers)

،تصویر کا ذریعہJeremy Bowen/BBC

،تصویر کا کیپشن

یوکرینی فوج میں شمولیت اختیار کرنے والے نوجوان رضاکار

میں اب بھی دیمترو اور میکسیم سمیت دیگر نوجوان رضاکار جنگـجوؤں کے ساتھ رابطے میں ہوں۔ اس ہفتے کے اختتام پر میں انھیں شہر کی مشرقی چیک پوسٹ پر ملنے گیا، جہاں انھیں حفاظتی فوجی لباس، یونیفارم اور اسلحہ فراہم کیا گیا ہے۔

اس چیک پوسٹ پر سخت سرد ہوا چل رہی تھی جسے یہ نوجوان ریت کی بوریوں اور سٹیل کے ٹینک رکھ کر روکنے کی کوشش کر رہے تھے۔ وہ اپنی بنیادی فوجی تربیت کو بہترین طریقے سے بروئے کار لائے ہوئے تھے۔

دیمترو نے مجھے بتایا کہ ‘اب مجھے اپنی بندوق کی عادت ہو گئی ہے۔ میں نے گولی چلانا اور لڑائی میں کیسا ردعمل دینا ہے یہ سب سیکھ لیا ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سی اہم چیزیں سیکھی ہیں جو روسیوں کے ساتھ لڑائی کے دوران بہت اہم ہوں گیں۔’

وہ یہ جان کر ہنس دیا کہ وہ کیا سوچ رہا ہے۔ میکسیم مجھے زیادہ اجلت میں، زیادہ سنجیدہ دکھائی دیا۔

اس کا کہنا تھا کہ ’میں پہلے سے زیادہ پراعتماد محسوس کرتا ہوں کیونکہ اب ہم نے تکنیک، مارشل آرٹس، اہم ادویات کے استعمال اور جنگی محاذ پر کیسے لڑنا ہے، اس بارے میں بہت بہتر تربیت حاصل کر لی ہے۔‘ مذاقاً وہ کریملن پر یوکرینی پرچم لہراتا ہوا دیکھنا چاہتا ہے۔

یہاں سب کے ذہنوں میں ایک ہی سوال ہے کہ کیا جنگ کیئو کی جانب بڑھنے والی ہے۔

دیمترو کا کہنا تھا کہ ‘ایسا بالکل ممکن ہے۔ ہمیں بس انھیں یہیں پر روکنا ہے کیونکہ اگر وہ کیئو تک پہنچ گئے تو شاید یہ جنگ ختم ہو جائے۔’

ان سب کا تعلق بھی روسی سرحد کے قریب اسی قصبے سے ہیں جہاں روسی فوج بمباری کر رہی ہے۔ ان کے خاندان والے اب بھی وہیں ہیں۔ میں نے ان لڑکوں سے پوچھا کہ ان کے والدین کیا سوچتے ہیں کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔

میکسیم نے مذاق کرتے ہوئے کہا کہ اس کی والدہ نے اسے پناہ گاہ میں رہنے اور رضاکارانہ طور پر کھانا پکانے کا کہا تھا۔ اس نے انھیں اپنی میدان جنگ میں تعیناتی کے متعلق نہیں بتایا کیونکہ وہ انھیں پریشان نہیں کرنا چاہتا۔

دیمترو کے والدین کو پتہ ہے کہ وہ کیا کر رہے ہیں کیونکہ اس نے رضاکارانہ طور پر کچھ دن کام کرنے کے بعد اپنے والد کو فون کر کے بتایا تھا کہ وہ یوکرین کی دفاعی فوج میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں۔ اس کے والد نہ انھیں کہا تھا کہ وہ زیادہ ہیرو بننے کی کوشش نہ کریں۔

line

روس کا یوکرین پر حملہ: ہماری کوریج

line

World War Two "tank traps" in the Kyiv Museum are used as barricades in Kyiv, Ukraine, 11 March 2022

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

کیئو شہر کے باہر بنائی گئی چیک پوسٹ اور رکاوٹیں

دیمترو کہتے ہیں کہ ’جو میں کر رہا ہوں، میرے والدین کو اس پر فخر ہے۔’ وہ خوش دکھائی دے رہے تھے، میں نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ اس سے خوفزدہ ہیں کہ آگے کیا ہونے والا ہے؟

ان کا کہنا تھا کہ ‘زیادہ بہیں لیکن خوف انسانی فطرت میں شامل ہے اور یقیناً اپنے اندر میں ایک خوف محسوس کرتا ہوں کیونکہ کوئی بھی مرنا نہیں چاہتا، چاہے وہ اپنے ملک کے لیے ہی کیوں نہ ہوں، لہذا موت کوئی آپشن نہیں ہے۔’

دیمترو اور میکسیم نے اپنے مستقبل کے خوابوں، دوستوں کے ساتھ شغل میلے، اپنی تعلیم مکمل کرنے، مستقبل کے کریئر اور اپنے خاندان کے متعلق باتیں کیں۔

ان کے والدین ضرور یہ دعا کر رہے ہوں گے کہ ان کے بیٹوں کے منصوبے، توانائی اور حتیٰ کہ ان کی زندگیوں کو جنگ کی سفاکانہ حقیقت تباہ نہ کرے، جیسا کہ دوسرے بہت سے نوجوان جو یورپ کی جنگوں میں لڑنے کے لیے شامل ہوئے تھے۔

غیر ملکی صحافیوں کو یہاں سے صرف چند میل دور سرحد کے اس پار روس کے نوجوان فوجیوں تک رسائی حاصل نہیں ہے۔ جن کے بارے میں یہ خیال ہے کہ ان میں سے بہت سوں کو جنگ کے لیے بھرتی کرتے وقت صحیح نہیں بتایا گیا۔ آخر جنگیں نوجوانوں سے ہی لڑی جاتی ہیں۔

مجھے اس بارے میں کوئی شک نہیں کہ اس جنگ میں بہت سے روسی نوجوانوں کی امیدیں بھی دمیٹرو اور میکسیم جیسی بلند ہیں۔ شاید ان میں لڑائی کا جذبہ کم ہو سکتا ہے۔ البتہ اس جانب رپورٹنگ کیے بغیر کچھ بھی یقین کے ساتھ کہنا مشکل ہے۔

دونوں یوکرینی نوجوان جو طالبعلم سے فوجی بنے ہیں اپنی چیک پوسٹ پر پوزیشن سنبھالنے واپس چلے گئے ہیں۔ان کی پیشہ ورانہ فوج ان سے چند میل آگے براہ راست روسیوں کا سامنا کر رہی ہے۔

لیکن اگر روسی کیئو کی جانب آتے ہیں تو میکسیم اور دیمترو جیسے رضاکار اپنی خندقوں جو انھوں نے آس پاس کی زمین کھود کر بنائی ہیں اور مورچوں سے ان پر فائرنگ کریں گے۔ روسی فوجیوں کے لیے پیٹرول بم بھی منتظر ہیں جنھیں انھوں نے پرانی بوتلوں میں بارود اور پیٹرول بھر تیار کیا ہے اور انھیں امید ہے کہ اس سے وہ ٹینک کو بھی ناکارہ بنا سکتے ہیں۔

اگر یہ بھی کارگر ثابت نہ ہوا تو نیٹو عسکری اتحاد یوکرین کو سینکڑوں ٹینک شکن ہتھیار فراہم کر رہا ہے۔

یہاں ہر کوئی اس بات کا انتظار کر رہا ہے کہ ممکنہ طور پر کیئو کی لڑائی جنگ کا اہم ترین محاذ ہو گا۔ اور اس کے لیے یوکرین فوجیوں، عام شہریوں، میکسم اور دیمیٹرو جیسے دیگر رضاکاروں کے ساتھ اس کو لڑنے کے لیے تیار ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.