ماریوپول: یوکرینی شہر روس کے منصوبے کا اتنا اہم حصہ کیوں ہے؟
- فرینک گارڈنر
- بی بی سی ، سکیورٹی نامہ نگار
ماریوپول یوکرین اور روس کی جنگ میں سب سے زیادہ بمباری سہنے اور سب سے زیادہ بربادی جھیلنے والا شہر بن چکا ہے۔ یہ ماسکو کی یوکرین مہم کا سب سے اہم حصہ بن چکا ہے مگر ایسا کیوں ہے؟
چار وجوہات ہیں جن کے باعث یہ بندرگاہی شہر روس کے لیے سٹریٹجک فتح اور یوکرین کے لیے بڑا جھٹکا ثابت ہو سکتا ہے۔
1: کرائمیا اور دونباس کے درمیان زمینی راہداری کا حصول
جغرافیائی طور پر دیکھیں تو ماریوپول نقشے پر ایک نقطے جتنا ہی ہے مگر یہ جزیرہ نُما کرائمیا سے آگے بڑھ کر آنے والی روسی افواج کے سامنے اب بھی چٹان کی طرح قائم ہے۔
روسی افواج شمال مشرق کی جانب پیش قدمی کر رہی ہیں تاکہ اپنے ساتھیوں اور روس نواز باغیوں سے مل سکیں جو مشرقی یوکرین کے دونباس خطے میں موجود ہیں۔
برطانیہ کی جوائنٹ فورسز کمانڈ کے سابق کمانڈر جنرل سر رچرڈ بیرنز کا کہنا ہے کہ ماریوپول پر قبضہ روس کی اس جنگ میں کلیدی حیثیت کا حامل ہے۔
‘جب روسی کرائمیا اور روس کے درمیان زمینی راستہ قائم کر لیں گے تو وہ اسے بڑی سٹریٹجک فتح اور معرکے کی کامیابی تصور کریں گے۔’
اگر ماریوپول پر قبضہ ہو جاتا ہے تو روس کا یوکرین کی بحیرہ اسود کی 80 فیصد ساحلی پٹی پر قبضہ مکمل ہو جائے گا جس سے یوکرین کی بحری تجارت منقطع ہو جائے گی اور یہ دنیا سے کٹ کر رہ جائے گا۔
حملہ آور فوجوں کو گذشتہ تین ہفتے سے روکے رکھ کر دفاعی فورسز نے روسی فوجیوں کی بڑی تعداد کو مصروف رکھا ہوا ہے۔ مگر روس کی جانب سے اس شہر پر فوری قبضے میں ناکامی کے بعد روسی جرنیلوں نے 21 ویں صدی میں قرونِ وسطیٰ کے محاصروں کی حکمتِ عملی اپنا لی ہے۔
اُنھوں نے ماریوپول پر توپ خانوں، راکٹوں اور میزائلوں کی بارش کرتے ہوئے 90 فیصد سے زیادہ شہر برباد کر دیا ہے۔
اس کے علاوہ اُنھوں نے بجلی، پانی، خوراک، دواؤں اور گرمائش تک رسائی بند کر دی ہے جس کے باعث اب ایک انسانی بحران پیدا ہو گیا ہے۔
ماسکو اس بحران کی وجہ یوکرین پر ڈال رہا ہے جس نے پیر کی صبح 5 بجے تک ہتھیار نہیں ڈالے تھے۔
ایک یوکرینی رکنِ پارلیمان نے کہا ہے کہ روس ‘ماریوپول کو بھوکا رکھ کر ہتھیار ڈلوانا چاہتا ہے۔’
یوکرین نے آخری سپاہی تک شہر کے دفاع کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ شاید نوبت یہاں تک پہنچ ہی جائے۔ روسی فوجی آہستہ آہستہ شہر کے مرکز کی جانب بڑھ رہے ہیں اور کسی قابلِ عمل امن معاہدے کی عدم موجودگی میں روس ممکنہ طور پر بمباری میں شدت لائے گا جس میں مسلح فوجیوں اور دو لاکھ سے زائد کی عام آبادی کے درمیان شاید ہی فرق روا رکھا جائے۔
اگر اور جب روس نے ماریوپول پر قبضہ کر لیا تو اس کے چھ ہزار سپاہی یوکرین میں دیگر محاذوں پر روسی افواج کو کمک پہنچائیں گے۔
ان کی تعیناتی کئی دیگر جگہوں پر ہو سکتی ہے مثلاً
- شمال مشرق میں، تاکہ وہ دونباس خطے میں موجود روس نواز باغیوں کے خلاف برسرِ پیکار یوکرینی فوجیوں کو گھیر کر اُنھیں نقصان پہنچا سکیں۔
- مغرب کی جانب، تاکہ وہ اوڈیسا کی طرف پیش قدمی کریں جو بحیرہ اسود تک پہنچنے کا یوکرین کا آخری بڑا راستہ ہے
- شمال مغرب میں دنیپرو شہر کی جانب
2: یوکرینی معیشت برباد کی جا سکتی ہے
ماریوپول بحیرہ اسود کے حصے بحیرہ ازوف پر ایک سٹریٹجک اہمیت کا حامل بندرگاہی شہر ہے۔
اس کی گہری برتھس کے باعث یہ بحیرہ ازوف کی سب سے بڑی بندرگاہ ہے اور یہاں لوہے اور سٹیل کے بڑے کارخانے موجود ہیں۔ عام حالات میں ماریوپول سے ہی مشرقِ وسطیٰ اور آگے سٹیل، کوئلہ اور مکئی جاتے ہیں۔
روس کا یوکرین پر حملہ: ہماری کوریج
اب آٹھ برسوں سے جب سے ماسکو نے کرائمیا پر 2014 سے قبضہ کر رکھا ہے، تو یہ شہر جزیرہ نُما کرائمیا میں روسی افواج، اور دونیسک اور لوہانسک میں روس نواز باغیوں کے درمیان سینڈوچ بنا ہوا ہے۔
یوکرین کی بچی کھچی معیشت کے لیے ماریوپول کا ہاتھ سے نکلنا بہت بڑا دھچکا ہو گا۔
3: پروپیگنڈا کا موقع ملے گا
ماریوپول ازوف بریگیڈ نامی ایک یوکرینی ملیشیا کا گڑھ ہے۔ واضح رہے کہ بحیرہ ازوف ماریوپول کو باقی کے بحیرہ اسود سے جوڑتا ہے۔ ازوف بریگیڈ میں دورِ جدید کے نازیوں سمیت انتہائی دائیں بازو کے عناصر موجود ہیں۔
ویسے تو یہ یوکرینی فورسز کا ایک بہت چھوٹا حصہ ہیں مگر یہ پھر بھی ماسکو کے لیے ایک کارآمد پروپیگنڈا ہتھیار ہے۔ روس اپنے لوگوں کو یہ بتاتا ہے کہ روسی نوجوان فوجی یوکرین کو دورِ جدید کے نازیوں سے پاک کرنے کے لیے گئے ہیں۔
اگر روس ازوف بریگیڈ کے جنگجوؤں کی بڑی تعداد کو زندہ پکڑنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو امکان ہے کہ یوکرین اور اس کی حکومت کی ساکھ بگاڑنے کے لیے ان کی روسی سرکاری میڈیا پر پریڈ کروائی جائے گی۔
4: حوصلہ بلند ہو گا
اگر روس نے ماریوپول پر قبضہ کر لیا تو یہ دونوں متحارب ممالک کے لیے نفسیاتی طور پر اثر انگیز ہو گا۔
ماریوپول میں روس فتح سے کریملن اپنی آبادی کو سرکاری میڈیا کے ذریعے دکھا سکے گا کہ وہ یوکرین میں اپنے مقاصد حاصل کر رہا ہے۔
صدر پوتن کے لیے یہ جنگ ذاتی نوعیت کی لگ رہی ہے اور ان کے نزدیک اس کی تاریخی وجہ بھی ہے۔ وہ یوکرین کی بحیرہ اسود کی ساحلی پٹی کو نئے روس کا حصہ سمجھتے ہیں، یعنی وہ زمینیں جو 18 ویں صدی میں روسی سلطنت کا حصہ تھیں۔
پوتن چاہتے ہیں کہ وہ ‘کیئو میں مغرب نواز حکومتوں کے ظلم سے روسیوں کو بچانے’ کے تصور کا احیا کریں۔ ماریوپول فی الوقت اس مقصد کے حصول کے لیے ان کی راہ میں کھڑا ہے۔
مگر یوکرین کے لیے ماریوپول کا ہاتھ سے چلے جانا بہت بڑا دھچکا ہو گا۔ نہ صرف عسکری اور اقتصادی طور پر، بلکہ اپنے ملک کے دفاع کے لیے لڑنے والے مرد و خواتین کے لیے بھی۔ ماریوپول خیرسون کے بعد روسیوں کے قبضے میں جانے والا پہلا بڑا شہر ہو گا۔ خیرسون ماریوپول کے مقابلے میں تزویراتی طور پر کہیں کم اہم شہر ہے اور اس کا بمشکل ہی کسی نے دفاع کیا۔
یہ پر حوصلے کا ایک اور پہلو ہے اور وہ ہے مزاحمت کا۔
ماریوپول نے اب تک زبردست مزاحمت کی ہے مگر اس کی قیمت تو دیکھیں۔ شہر برباد ہو چکا ہے اور بڑی حد تک ملبے کے ڈھیر میں بدل چکا ہے۔ یہ شہر گروزنی اور حلب کی صفوں میں کھڑا ہو گا جہاں روس نے اتنی بمباری کی کہ وہ ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہو گئے۔ دیگر یوکرینی شہروں کو بھی یہ واضح پروگرام ہے کہ اگر آپ نے ماریوپول کی طرح مزاحمت کی تو آپ کے ساتھ بھی یہی ہو سکتا ہے۔
جنرل سر رچرڈ بیرنز نے کہا کہ ‘روسی ماریوپول میں چہل قدمی کرتے ہوئے داخل نہیں ہو سکتے، نہ وہ اپنے ٹینک لے کر یہاں آ سکتے تھے، چنانچہ اُنھوں نے شہر کو ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا ہے۔ اور روسیوں کے لیے اور جو جگہ بھی اہم ہے، ہمیں وہاں یہی مناظر دیکھنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔’
Comments are closed.