یوکرینی خواتین جنھیں مردوں کی فوج میں بھرتی کے بعد ٹرک ڈرائیور، سکیورٹی گارڈ جیسی نوکریاں ملیں،تصویر کا ذریعہLilia Shulha
،تصویر کا کیپشنٹرک چلانا لیلیا کا ہمیشہ سے ایک خواب تھا

  • مصنف, الونا ہرمولک
  • عہدہ, بی بی سی یوکرین
  • ایک گھنٹہ قبل

یوکرین میں جنگ کی وجہ سے خواتین نے ایسے پیشوں میں کام کرنا شروع کر دیا ہے جو روایتی طور پر ’مردوں کے لیے‘ سمجھے جاتے تھے۔یوکرینی فوج میں مردوں کی بھرتی مسلسل جاری ہے۔ ایسے میں خواتین ٹرک ڈرائیور، کارخانے کی مینیجر اور سکیورٹی گارڈ وغیرہ جیسی نوکریاں کر رہی ہیں۔ لیلیا شُلہا یوکرین کی ’سلپو‘ نامی سپر مارکیٹ سٹور کے لیے ٹرک چلاتی ہیں۔ یہ برسوں سے ان کا خواب تھا لیکن اس وقت ان کے بچّے بہت چھوٹے تھے اور ان کے خاوند بھی ایسی نوکری کے خلاف تھے۔اب وہ طلاق یافتہ ہیں اور ان کی والدہ بچّے سنبھالنے میں ان کی مدد کرتی ہیں۔

’میرا خواب پورا ہوا‘

روس کے یوکرین پر بڑے پیمانے پر حملے سے پہلے لیلیا ایک ویئر ہاؤس میں کلرک کے طور پر کام کرتی تھیں اور شام کو ٹیکسی چلا کر اپنی آمدن میں اضافہ کرتی تھیں۔وہ کہتی ہیں کہ انھیں ہمیشہ سے بڑی گاڑیاں چلانے کا شوق تھا تو جب انھیں ٹرک چلانے کا موقع ملا تو انھوں نے اس موقع کو ضائع نہیں کیا۔جب پچھلے سال انھوں نے ٹرک ڈرائیور کا ٹیسٹ پاس کیا تب انھیں پتا چلا کہ ان کی نانی کا بھی یہی خواب تھا۔’میری والدہ نے مجھے کہا کہ آپ اپنی نانی کا بھی خواب پورا کر رہی ہو۔‘لیلیا کہتی ہیں کہ ان کی نوکری کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ انھیں خوب سفر کرنے کو ملتا ہے جس میں وہ قدرت کے نظارے دیکھتی ہیں۔لیلیا مزید بتاتی ہیں کہ ’مجھے ٹرک سے اترتے ہوئے دیکھ کر لوگ اکثر حیران ہو جاتے ہیں۔ لوگ اکثر سڑک پر میری تصویریں بھی کھینچتے ہیں۔‘،تصویر کا ذریعہLilia Shulha

،تصویر کا کیپشنلیلیا مزید بتاتی ہیں کہ ’مجھے ٹرک سے اترتے ہوئے دیکھ کر لوگ اکثر حیران ہو جاتے ہیں۔ لوگ اکثر سڑک پر میری تصویریں بھی کھینچتے ہیں۔‘
وہ کہتی ہیں کہ جدید ٹرک چلانا بالکل بھی مشکل نہیں ہے۔ ’ایک مرتبہ ٹرک صحیح طرح سے پارک کر دیں، وہ سامان خود اتار لیتے ہیں۔ اگر ٹرک خراب ہو جائے تو میں مدد کے لیے کسی کو فون کر دیتی ہوں یا کوئی نہ کوئی ارد گرد ہوتا ہے جو مدد کر دیتا ہے۔‘حال میں انھوں نے ٹرک ڈرائیور کے طور پر اپنا پہلا بین الاقوامی سفر طے کیا جس کے لیے وہ آسٹریا گئی تھیں۔فی الوقت لیلیا اور ان کی ساتھی نتالیا، جو پہلے ٹرالی بس چلاتی تھیں، سِلپو نامی اس کمپنی کی دو ہی خاتون ڈرائیورز ہیں۔ تاہم کمپنی کی ایچ آر ہیڈ لوبو اُکرنس کے مطابق کمپنی خواتین کو اس طرف راغب کرنے کے لیے کمپنی میں تربیتی پروگرام کروائے جا رہے ہیں۔

زمانہ بدل رہا ہے

یوکرین پر روس کے حملے کو ڈھائی سال ہو گئے ہیں اور ملک کی جن صنعتوں میں مردوں کی تعداد زیادہ تھی، ان میں عملے کی کمی ہونا شروع ہو گئی ہے۔ جنگ کے شروع میں ہزاروں کی تعداد میں مردوں نے خود سے فوج میں شمولیت اختیار کی تھی۔ تب سے اب تک ہزاروں مرد فوج میں بھرتی کیے گئے ہیں۔مئی میں یوکرین نے فوج میں بھرتی کے لیے نیا قانون اپنایا تاکہ نئی بھرتیوں میں اضافہ ہو اور جو سپاہی فرنٹ لائن پر تعینات ہیں ان کو کہیں اور بھیجا جا سکے۔قانون میں تبدیلی سے پہلے بھی یہ ایک عام سی بات تھی کہ مردوں کو یونھی گلیوں میں چلتے پھرتے فوج میں بھرتی کیے جانے کے خط تھما دیے جاتے ہیں یا معمول کے مطابق چیک پوائنٹ پر بھی ان کو ایسے خط دے دیے جاتے تھے۔کمپنیوں کو مستقل طور پر یہ خدشہ رہتا ہے کہ ان کے عملے کے لوگ فوج میں بھرتی کر دیے جائیں گے۔نجی کاروبار کرنے والوں کو قانون کی طرف سے یہ چھوٹ ملی ہوئی ہے کہ ان کا عملہ فوج میں نہ بھرتی ہو تاہم قانون کے مطابق زیادہ سے زیادہ بھی ان کے عملے کے 50 فیصد مردوں کو فوج میں بھرتی ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔ باقیوں کو فوج میں بھرتی ہونا ہوگا۔،تصویر کا ذریعہBudmix Companyایسی نوکریاں کرنے والی خواتین جو روایتی طور پر مرد کرتے تھے، ان کے لیے یہ ایک کڑواہٹ سے لیس خوش آئند بات بھی ہے۔ انھیں خوشی ہے کہ وہ کیریئر کو لے کر اپنے خوابوں کو پورا کر پا رہی ہیں لیکن یہ صرف اس لیے ممکن ہو پا رہا ہے کیوںکہ ملک میں جنگ چل رہی ہے۔تاہم تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ خواتین آگے بڑھی ہوں اور ایسے شعبوں کو اپنایا ہے جن میں مردوں کے نہ ہونے کی وجہ سے عملے کی ضرورت ہو۔دوسرے جنگِ عظیم کے دوران جب امریکہ، برطانیہ اور دیگر ممالک نازی جرمنی سے لڑ رہے تھے تو ان ممالک میں خواتین نے آگے آ کر معیشت کو سنبھالا تھا۔مصنفہ کیتھرین جے ایٹ وُڈ اپنی کتاب ‘ویمن ہیروز آف ورلڈ وار ٹو’ میں لکھتی ہیں کہ ‘(خواتین) نے اپنے ضمیر کی آواز سنی، انھوں نے دیکھا کہ انھیں کچھ کرنے کی ضرورت ہے اور انھوں نے وہ کیا۔’

لیڈر بننے کا سفر

تعلیم کے لحاظ سے کیمیا دان نتالیا سکائی ڈینوچ نے حال میں بڈمکس کمپنی میں ٹیکنالوجسٹ کی نوکری کے لیے درخواست دی۔ یہ کمپنی مغربی یوکرین میں واقع ہے اور یہاں پلاسٹر، گوند وغیرہ بنائے جاتے ہیں۔تاہم ٹیکنالوجسٹ کی بجائے ان کو کمپنی نے ایک بہت سینئر رول کی آفر پیش کر دی جس کی ذمہ داری ایک مرد سنبھال رہا تھا۔ در اصل ایک ماہ پہلے کمپنی کے چیف آف پروڈکشن رضاکارانہ طور پر فوج میں شامل ہو گئے تھے اور اب ان کی جگہ خالی تھی۔ نتالیا کہ پاس ایک چھوٹی ٹیم کی سربراہی کرنے کا تجربہ تھا لیکن ایک نئی کمپنی کو سنبھالنا ان کے لیے ایک بڑا چیلنج بن گیا۔،تصویر کا ذریعہBudmix Companyپروڈکشن لائن پر کام کرنے والے لڑکوں کو ان کا کام بخوبی آتا ہے لیکن وہ کبھی ان کا مذاق نہیں اڑاتے۔ ’اگر مجھے پروڈکشن لائن پر کام کے حوالے سے کچھ سمجھ نہیں آ رہا ہو تو وہ مجھے سکھاتے ہیں اور میری مدد کرتے ہیں۔ میں ان کی اس بات کی بہت قدر کرتی ہوں۔ میں پر عظم ہون کہ میں اس عمل کا ایک ایک حصّہ سیکھ جاؤں۔’تاہم نتالیا کا کہنا ہے کہ انھیں اس بات کی حیرانی نہیں ہے کہ انھیں عورت ہوتے ہوئے یہ موقع دیا گیا کیونکہ سنہ 2017 میں یوکرین نے خواتین پر کچھ نوکریاں کرنے کی سوویت پابندیوں کو ختم کر دیا تھا۔،تصویر کا ذریعہBudmix Company

،تصویر کا کیپشننتالیہ کہتی ہیں کہ وہ ایک ماہر منیجر بننا چاہتی ہیں
ماضی میں خواتین کو قانونی طور پر کچھ 500 نوکریاں کرنے سے روک دیا گیا تھا۔ ان میں زیادہ تر نوکریاں صنعتوں میں تھیں یا زراعت کے شعبے میں یا کان کنی میں۔ ان نوکریوں میں یا تو بہت جسمانی طور پر بہت محنت درکار تھی یا ان میں زہریلے مادوں کا بہت عمل دخل ہے۔تاہم کچھ نوکریوں کے لیے جنس کی کوئی پابندی نہیں تھی لیکن ان کو روایتی طور پر ‘مردوں’ سے ہی منسلک کیا جاتا تھا مثلاً تعمیر کے شعبوں کی نوکریاں ، ٹرانسپورٹ یا مزدوری والے کام جیسے کہ الیکڑیشن یا پلمبر، اور سکیورٹی کمپنیوں کی نوکریاں۔

‘تنازعات کو حل کرنا’

ولنتیہ تانیچ تربیت سے نرس ہیں لیکن آج کل وہ ایک مشہور سپر مارکیٹ میں سکیورٹی گارڈ کے طور پر کام کر رہی ہیں۔ ایک سال پہلے وہ اسی سپر مارکیٹ میں کیشیئر کا کام کر رہی تھیں۔ان کا کہنا ہے کہ جب یہ چھوٹی تھیں ان کو ‘جاسوس جاسوس’ کھیلنے کا بہت شوق تھا۔ جب وہ کیشیئر کے طور پر کام کر رہی تھیں تو سکیورٹی گارڈز کے کام کو غور سے دیکھتی ہیں۔ جب سکیورٹی گارڈ کی پوسٹ آئی تو انھوں نے خوشی خوشی نوکری کے لیے اپنی درخواست جمع کروائی۔،تصویر کا ذریعہAB Supermarketsولنتیہ کہتی ہیں کہ ایک گارڈ کی نوکری میں ایسا کچھ نہیں جو ایک عورت نہ کر سکے، اس میں نہ ہتھیار ہیں نہ کسی کے بازو مڑوڑنے کی ضرورت ہے۔وہ کہتی ہیں ‘اگر کچھ گڑبڑ ہوتی ہے تو ہم ایک بٹن دبا دیتے ہیں اور سپورٹ گروپ پہنچ جاتا ہے۔’ان کا کہنا کہ ‘آپ کو غور سے دیکھنا اور لوگوں سے ڈیل کرنا آنا چاہیے۔”یہاں ہر طرح کے گاہک آتے ہیں اور ان میں سے کچح بہت غصیلے ہوتے ہیں۔ تاہم ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ہم صورت حال کو بغیر کسی تنازع کے سنبھال لیں۔’

کیا خواتین تمام مردوں کی جگہ لے سکتی ہیں؟

یوکرین ایک بڑی تبدیلی سے گزر رہا ہے جس میں لاکھوں لوگوں کو نقل مکانی کرنی پڑی، چاہے وہ ملک میں ہو یا ملک سے باہر۔ روزگار کے حوالے سے بھی صورت حال بدل رہی ہے اور زیادہ تر نوکریاں خالی ہیں، خاص طور پر وہ نوکریاں جو یوکرین کی فرنٹ لائن کے قریب ہیں۔مثال کہ طور پر یوکرین کے صدر زیلینسکی کے شہر کریوی ریے میں، جہاں روس کی جانب سے اکثر بمباری ہوتی ہے، وہاں سمنٹ کی فیکٹریاں ایسی خواتین کی تلاش میں ہیں کو ٹرک ڈرائیور بنے کی تربیت لینا چاہتی ہیں اور یہ ایک پہاڑ سر کرنے کے برابر عمل ہے۔،تصویر کا ذریعہKryvyi Rig Cement Companyیوکرین کی مشہور ملازمت تلاش کرنے کی ویب سائٹ ورک ڈات یو اے سے منسلک وکٹوریا بِلیاکووا کہتی ہیں کہ ‘نقل مکانی کی وجہ سے ان نوکریوں کے لیے بھی خواتین نہیں مل رہیں جو روایتی طور پر خواتین کرتی ہیں۔’تربیت اور ترقی کے مواقع ہونے کے باوجود خواتین میں ایسی نوکریاں کرنے کا انٹرسٹ موجود نہیں۔ملازمت کی صورتحال پر غور کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ یوکرین میں نوکریوں کے لیے اب بوڑھے افراد، خاص طور پر وہ جو پینشن وصول کرتے ہوں، ان کی تلاش کی جا رہی ہے۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}